پاکستان میں دائرے کا سفر جاری و ساری ہے۔ہر چند سال کے بعد وہی منظر وہی پس منظر۔پاکستان میں اس صدی کے سب سے بڑے سیلاب نے بھی قوم کو جگانے یا بدلنے میں کوئی مدد نہیں کی ،فائر فائٹنگ کا عمل جاری ہے۔مجال ہے کہ حکومت نے یا اپوزیشن نے موسمی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے کسی طویل المیعاد منصوبے کے بارے میں بات بھی کی ہو۔پورے پاکستان کو شاید یقین ہے کہ پاکستان میں یہ سیلاب آخری دفعہ آیا ہے۔ لوگ راہی ملک عدم ہوئے۔ملک کے طول و ارض کے دورے ہوئے۔ملکی اور غیر ملکی امداد اکٹھی کی گئی کچھ ضرورت مندوں تک پہنچی کچھ نہ پہنچی۔ پانی نے آہستہ آہستہ کم ہونا ہی تھا وہ ہو رہا ہے وزیر اعظم فخر محسوس کر رہے ہیں کہ انہوں نے فلڈ ریلیف ویلیج کے لئے ایک سو گھر تیار کرنے کا وعدہ پورا کر دیا اور 24دن کی ریکارڈ مدت میں پورا کیا ہے۔اس کے لئے میڈیا کوریج تو بہت ضروری تھا اور دوسری اہم ترین خبر یہ تھی کہ وزیر اعظم نے کمال جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیلاب کی بریفنگ سے متعلق رئیل ٹائم مانیٹرنگ کے ڈیش بورڈ کا افتتاح کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے انہوں نے فرمایا کہ وہ اس سے ناخوش ہیں اور قوم بھی ناخوش، اب اس کا افتتاح چند دن بعد ہو گا۔لیکن اس اہم ترین پروجیکٹ کا افتتاح کس قدر ضروری ہے اس کا اندازہ لگانے کے لئے کسی سقراط کی ضرورت نہیں ہے بلکہ جو ترجیح وفاقی حکومت اسے دے رہی ہے اسے دیکھنا ہی کافی ہے پاکستان کو نئے ڈیم بنانے کی کس قدر ضرورت ہے اور سیلابی پانی کے بہائو کو کنٹرول کیوں نہ کیا جا سکا۔دریائے سندھ کے لیف اور رائٹ ڈرین کے لئے کتنے ارب مختص ہوئے اور وہ کہاں خرچ ہوئے یہ جاننے کی ضرورت نہ حکومت کو ہے اور نہ عوام کو۔خدا نہ کرے اگر اگلے سال سیلاب آئے گا تو دیکھا جائے گا اس وقت نجانے کس کی حکومت ہو گی اور کس کی ذمہ داری ہو گی پھر عالمی اداروں سے مدد مانگی جائے گی اور ہمارے حکمران اپنے کشکول کے ساتھ کبھی امریکہ جائیں گے کبھی چین اور کبھی عرب ممالک کا رخ کریں گے۔دوسری طرف عمران خان اپنی سالگرہ کے کیک کاٹنے میں مشغول ہیں۔خبر ہے کہ جگہ جگہ ان کی سالگرہ کے کیک کاٹے گئے ہیں کیا وہ سیلاب کی وجہ سے ہی سہی اگر اپنی سالگرہ نہ منانے کا اعلان کر دیتے تو شاید سیلاب زدگان کے دل کو کچھ سکون ملتا۔اگر قسمت سے پاکستان کو قدرے بہتر لیڈر مل جائے تو اس کے خوشامدی اس کا دماغ خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔وہ اپنے لیڈر کی ہر غلط حرکت کا دفاع کرتے ہیں اور اسے یقین دلاتے رہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے لئے لازم و ملزوم ہے۔پاکستان کے سیاسی رہنما کسی طرح بھی سبق سیکھنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں پچھلے چند سال میں اپنے عروج و زوال کی انہونی داستانیں دیکھ چکی ہیں لیکن جیسے ہی وہ واپس اقتدار میں آتی ہیں انہیں باقی ساری دنیا ہیچ دکھائی دیتی ہے اور وہ فوراً عظمت کے پہاڑ پر کھڑی ہو جاتی ہیں۔ سیاستدان اور ماہر قانون جناب اعتزاز احسن نے بجا طور پر کہا ہے کہ پاکستان کی سیاست کے بارے میں کوئی پیشین گوئی نہیں کی جا سکتی۔6ماہ پہلے کون یہ پیشین گوئی کر سکتا تھا کہ سب کچھ الٹ پلٹ ہو جائے گا عمران خان باہر پھر رہا ہو گا اور شہباز شریف وزیر اعظم ہو گا اور ن لیگ کی سیاست مریم نواز کے ہاتھ میں ہے پاکستانی سیاست میں صرف ماضی کے بارے میں بات کی جا سکتی ہے۔ اعتزاز احسن نے درست مشورہ دیا ہے کہ عمران خان اور مریم نواز کو ایک دوسرے کے بارے میں نرم لہجہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔جنگ کے بعد بھی بات چیت سے ہی مسائل حل ہوتے ہیں تو کیوں نہ جنگ کی بجائے ایک دوسرے سے بات چیت کی جائے۔پاکستان میں آ ج کل بڑی دلچسپ خبریں سامنے آ رہی ہیں پاکستان کی ایک معروف ٹک ٹاکر حریم شاہ نے کہا ہے کہ وہ ہر قسم کی انکوائری کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں اگر ڈار جیسے لوگ پاکستان واپس آ سکتے ہیں تو دوسروں کو بھی واپس آنا چاہیے۔ انہوں نے اصل بات صیغہ راز میں رکھتے ہوئے یہ بھی کہا کہ میں سیاست میں آ رہی ہوں یا نہیں یہ فی الحال نہیں بتا سکتی۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ عمران خان ہی ان کے وزیر اعظم ہیں۔انہوں نے ایم کیو ایم کے بانی رہنما کو بھی مشورہ دیا کہ انہیں لندن کی عدالتوں سے ریلیف ملنے کے بعد پاکستان واپس آنا چاہیے۔ویسے پاکستان کی سیاست جس نہج پر پہنچ چکی ہے اب حریم شاہ کو سیاست کے میدان کو رونق بخشنے کا حتمی فیصلہ کر ہی لینا چاہیے کوئی نہ کوئی جماعت انہیں مخصوص نشست پر ٹکٹ دے ہی دے گی۔پاکستانی سیاست کے حالات ان کے لئے سازگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ صدر مملکت جناب عارف علوی کا پارلیمنٹ سے خطاب بھی مکمل ہوا، انہیں حکومتی اتحاد کے بائیکاٹ کے سبب صرف 14سامعین میسر آ سکے لیکن جس طرح ڈاکٹر عارف علوی نے متوازن بات چیت کی ہے اسے سب جماعتوں کو سننے کی ضرورت ہے آخر کب تک پاکستان میں جوتیوں میں دال بٹتی رہے گی۔وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی پریس کانفرنس میں جس طرح خدا کی قسم کھا کر عمران خان پر فراڈیا ہونے کا فتویٰ صادر کیا ہے وہ ہرگز وزیر اعظم کے شایان شان نہیں تھا اور اس سے کسی طرح بھی ان کی عزت میں اضافہ نہیں ہوا۔انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ صرف اپنی جماعت کے صدر نہیں بلکہ پورے پاکستان کے وزیر اعظم بھی ہیں ۔پاکستانی عوام کی نظروں میں پاکستان میں سیاست جس قدر بے توقیر آج ہے پہلے کبھی نہیں تھی نجانے کیوں پاکستانی سیاستدان کوئی سبق سیکھنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ان سیاستدانوں کا سوچئے جو بغیر کسی استحقاق کے وزیر اور مشیر بنے بیٹھے ہیں۔انہیں اپنے ملک کے عوام اور ملک کے خزانے پر ذرا رحم نہیں آتا۔ عمران خان کے لانگ مارچ کی تیاریاں اور اس سے نمٹنے کی حکومتی تیاریاں بھی اسی زور و شور سے جاری ہیں۔اسلام آباد کنٹینرز کا شہر بن رہا ہے اور ہر قیمت پر لانگ مارچ کو ناکام بنانے کا عہد کیا جا رہا ہے۔حکومت کی حتمی سٹریٹجی یہی ہے کہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ صاحب کی فہم و فراست پر ہر چیز کو چھوڑ دیا جائے ان کی فہم و فراست اس سے پہلے پنجاب میں بھی حکومت کے لئے آسانیاں پیدا نہیں کر سکی تھی حکومت اپنی سٹریٹجی بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ مریم نواز لندن پہنچ چکی ہیں اور ان کے شوہر نامدار صفدر اعوان پاکستان میں موتی بکھیر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کی مارچ سے پہلے پنجاب حکومت مارچ کر جائے گی اور عمران خان جیل چلے جائیں گے ان کا یہ کہنا ہے کہ لانگ مارچ کو اس دفعہ بہتر رگڑا لگانے کی تیاری میں ہیں۔ اگر یہی حکومتی حکمت عملی ہے اور یہی ہمارے لیڈر ہیں تو خدا خیر کرے اور ملک کی حفاظت فرمائے۔