متناسب نمائندگی کے نظام کے برعکس جو ہر مقابلہ کرنے والی پارٹی کے ہر ووٹ کا تقریباً نمائندگی میں ترجمانی کرتا ہے، اکثریتی انتخابی نظام ایسا نہیں کیونکہ یہ جیتنے والے تمام اصولوں پر مبنی ہے۔اس لیے اس نظام کے تحت کوئی بھی صرف ایک ووٹ کے فرق سے الیکشن جیت سکتا ہے یا ہار سکتا ہے۔ نتیجتاً، یہ فطری طور پر کم از کم ہمارے جیسے ملک میں دھوکہ دہی کا سبب بن سکتاہے۔ پاکستان کو یہ نظام اپنے نوآبادیاتی آقاؤں سے وراثت میں ملا ہے۔ ہم کسی پر الزام نہیں لگا سکتے کیونکہ یہ سول سوسائٹی کی تنظیموں سمیت سب کی غلطی ہے۔اس ناقص نظام کی پائیداری عجیب طور پر اس کے اقتدار کی کمزوری میں مضمر ہے۔ ہر انتخابی مقابلہ چاہے یہ مقامی ہو یا قومی اسے کسی حد تک غیر قانونی مداخلت کا سامنا ہوتا ہے۔ آپ ایک راستہ بندکریں مزید دس راستے نکل آئیں گے۔ اس نظام میں مستقل طور پر’سازگار‘ نتائج حاصل کرنے کے لیے سینکڑوں ذرائع موجود ہیں۔ ہم دھاندلی کے 163 ذرائع کی فہرست بنا سکتے ہیں۔ کافی عرصہ سے یہ دلیل بھی دی جارہی تھی کہ الیکشن کمیشن کو بااختیار بنانے سے الیکشن میں ناپسندیدہ مداخلت ختم ہو جائے گی۔ چنانچہ الیکشن کمیشن کو طاقتور بنایا گیا۔ اس کے وسائل میں اضافہ کیا گیا مگر طاقت کے سکے کا دوسرا رخ ذمہ داری بھی ہے۔آرٹیکل 218(3) ای سی پی کو مکمل طور پر ذمہ دار بناتا ہے کہ "انتخابات کو منظم کرنے اور اس کے انعقاد کے لیے اور ایسے انتظامات کرنے کے لیے جو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہیں کہ انتخابات ایمانداری، انصاف کے ساتھ، منصفانہ اور قانون کے مطابق منعقد کیے جائیں اور شفافیت کو یقینی بنایا جائے مگر بہتر اختیارات اور زیادہ مالی وسائل کے باوجود انتخابات کی تیاری کے معیارات اور اس کے معیار میں متناسب بہتری نہیں آئی۔کہاوت ہے کہ کھیر کا ذائقہ اسے کھانے میں ہے۔ ای سی پی کی ویب سائٹ پر دستیاب کھیر کا ذائقہ میرے لیے کڑوا ہے۔ جس کی وجوہات ہیں:انتخابی عمل کو وسیع طور پر چھ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ حلقوں کی حد بندی؛ ووٹرز کی رجسٹریشن؛ پولنگ سکیم؛ پولنگ کی گنتی اور نتائج ۔ مثال کے طور پر، الیکشنز ایکٹ، 2017ء کا سیکشن 20(4) ECP کے مطابق "اگر کسی غیر معمولی معاملے میں حلقہ بندیوں کی دس فیصد آبادی کی حد سے تجاوز ہو جائے تو وجوہات ریکارڈ کروانا ہوتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حوالے سے استثناء معمول بن گیا ہے ۔ 180 حلقوں جو کہ انتخابی حلقوں کا پانچواں حصہ بنتا ہے ان میں پہلے سے بڑھتے ہوئے غیر مساوی شہریوں پر عدم مساوات کی ایک نئی شکل مسلط کی جا رہی ہے۔ عوامی تنقید کے باوجود، ای سی پی نے تکبر کے ساتھ اس تشویش کو دور کرنے سے انکار کر دیا ہے۔یہ بنیادی طور پر ضروری ہے کہ صرف اہل افراد کو بطور ووٹر رجسٹر کیا جائے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اسے بھی نظر انداز کیا گیا ہے۔134میں سے 102 اضلاع کے تقریباً 13 سے15 ملین اہل مرد و خواتین کو حق رائے دہی سے محروم کیا جا رہا ہے، جبکہ 17 اضلاع میں بہت سے انتخابی علاقوں میں حقیقی ووٹوں سے زیادہ ووٹ رجسٹرڈکئے گئے ہیں۔اسے حلقوں کی تعداد 89% بنتی ہے۔ جب آپ صوبے اور ضلعی سطحوں پر ڈیٹاسیٹس کو الگ کرتے ہیں تو اس میکرو لیول کے رجحان کی ثقل گہرا ہوتی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، بلوچستان میں 31 اضلاع اور تقریباً تمام حلقوں میں تقریباً ایک تہائی اہل آبادی کو خارج کر دیا گیا ہے۔ بلوچستان کے برعکس، پنجاب میں سڑکوں کا بہترین نیٹ ورک ہے، پھر بھی اس کے 40 اضلاع میں سے نصف میں رجسٹریشن کم ہے، جب کہ 12 اضلاع میں غیر معمولی حد تک زیادہ ووٹ رجسٹرڈ کئے گئے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے 35 میں سے 21 اضلاع میں قابل ذکر حد تک لوگوں کے حق رائے دہی سے محروم ہونے کا امکان ہے کیونکہ اس کے پانچ اضلاع میں رجسٹریشن غیر معمولی طور پر کم یا بہت کم ہی پائی گئی ہے۔ 16 اضلاع میں یہ کم تھی، جبکہ پانچ اضلاع میں زیادہ یا غیر معمولی زیادہ ووٹ رجسٹرڈہوئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ واحد صوبہ ہے جہاں اوور رجسٹریشن موجود نہیں ۔ تاہم انڈر رجسٹریشن 24 اضلاع میں دیکھی گئی ہے۔اب اس پر غور کریں۔ کیا یہ حیران کن نہیں ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں 42 فیصد آبادی 18 سال سے کم ہے وہاں کی 75% آبادی کس طرح ووٹر کے طور پر اہل ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور ہر مری اور جہلم میں اوسطاً 18% گھوسٹوووٹ موجود ہیں۔ بلوچستان کے آٹھ اضلاع یعنی کیچ، پنجگور، سوراب، شیرانی، واشک، خضدار اور کوہلو میں 25 فیصد سے بھی کم آبادی کے ووٹ رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ سیاسی جماعتیں، چاہے وہ بلوچستان سے تعلق رکھتی ہوں یا دیگر خطوں سے، اس انتہائی پریشان کن اخراج پر کوئی تشویش کا اظہار نہیں کرتیں۔اچھی خبر یہ ہے کہ ای سی پی نے 25 اکتوبر تک CNIC کے تمام 0.8 ملین نئے وصول کنندگان کو رجسٹر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن یہ 13-15 ملین غیر رجسٹرڈ کی حیرت انگیز تعداد کا ایک چھوٹا حصہ ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ غیر رجسٹرڈ ووٹروں میں سے ایک بڑا حصہ (تقریباً 8.86 ملین) غریب، خواتین اور نوجوانوں کا ہے۔ مذکورہ بالا تضادات مستقبل کے انتخابات میں مختلف سیاسی جماعتوں پر 102 اضلاع کے زیادہ تر حلقوں میںنتائج کو متاثرکرنے کا امکان رکھتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ 2018ء کے عام انتخابات میں این اے کے 48 حلقوں میں جیت کا مارجن 5000 سے کم تھا اور 40 این اے کے حلقوں میں یہ 5001 سے 10000 کے درمیان تھا۔ لہذا، ووٹ کے اندراج میں تھوڑا سا اضافہ یا کمی کے نتیجے میں قومی اور صوبائی سطح پر حکومتوں کی تشکیل میں بہت بڑا اثر پڑ سکتا ہے ضروری ہے کہ ووٹرز کی کم اور زیادہ رجسٹریشن کے اثرات کی پیمائش کی جائے کیونکہ امیدوار/پارٹی ان دو حربوں کو استعمال کرکے اپنی جیت کے امکان کو بڑھا سکتے ہیں۔ اس لیے بغیر کسی تاخیر کے اس کی چھان بین کی جانی چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خواتین کی رجسٹریشن ایک بنیادی مسئلہ ہے، لیکن صرف ثقافتی اصولوں پر الزام لگانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ مثال کے طور پر، لاکھوں اہل مرد بھی ووٹر لسٹ میں کیوں نہیں ہیں؟ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جنس کے علاوہ؛ اثاثوں کی کمی اور غربت نان رجسٹریشن کے بڑے عوامل ہیں۔ چونکہ ای سی پی انتخابی فہرستوں کے بنیادی ڈیٹا کا محافظ ہے اور اس کا ایک ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ ونگ ہے، اس لیے اسے رجسٹریشن کے زائد اور کم ہونے کی وجوہات کا پتہ لگانا چاہیے۔ جہاں تک زیادہ رجسٹریشن کا تعلق ہے، اسے کمپیوٹر سافٹ ویئر کے ذریعے چند ہفتوں میں حل کیا جا سکتا ہے، جب کہ انڈر رجسٹریشن کو فارم B کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ 18 سال کی عمر کو پہنچنے والے ہر فرد کو صرف ووٹنگ کے مقصد کے لیے خصوصی کارڈ جاری کیا جا سکتا ہے۔اس سے حق رائے دہی مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکتی لیکن اس میں نمایاں کمی ہو سکتی ہے۔آخر میں، طویل مدت میں، پاکستان کو متناسب نمائندگی والے انتخابی نظام سے اکثریتی نظام کو تبدیل کرنا ہوگا جو ہر پول شدہ ووٹ کو نمائندگی فراہم کرتا ہے اور انتخابی مشق کے ہر قدم پر دھاندلی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا ہے۔