ماں کا تصور آتے ہی ذہن میں ایک ایسی شبیہ سامنے آتی ہے جو ہمدردی و خیرخواہی، بے لوث محبت و خلوص، عزم وہمت کا پیکر، مونس و غم خواری کا مجسم ہوتی ہے۔ ماں ایسی ہستی ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ، ماں کی کمی کبھی پوری نہیں ہو سکتی محض یادوں کے سہارے ہی باقی زندگی بسر کرنا پڑتی ہے۔میرا ماننا ہے کہ ماں جانے کے بعد اپنی نیک اولاد سے دور نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ ان کے ساتھ رہتی ہے۔وہ ان کی دعا?ں ‘ یادوں‘ سوچوں‘ کاموںاور باتوں میں ، غرضیکہ ہر لمحے میںان کے دل کے قریب بلکہ قریب ترَہوتی ہے۔ میری والدہ محترمہ جب موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا تھیں تو اس وقت میں اپنے آپ کو انتہائی بے بس محسوس کر رہا تھاکہ وسائل کے باوجود میں کچھ نہیں کر سکتا تھا، اس وقت میں اپنے آپ کو دنیا کا مفلس ترین شخص تصور کر رہا تھالیکن انسان تقدیر کے فیصلوں کے سامنے بے بس ہے۔ہم اس حکمِ ربی پر صبر کرتے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ بیشک اللہ صبر کرنیوالوں کے ساتھ ہے۔ مامیں اس ہستی کو اپنے ہاتھوں لحد میں اتار رہا تھا جس نے بڑی مشقت اور محنت سے ہماری پرورش کی، اْس وقت محدود وسائل کے باوجود ہم بہن بھائیوں کو دین اور دنیا کی بہترین تعلیم دلوائی، نماز باقاعدگی سے پڑھنے کی ہمیشہ تلقین کی، قرآن پاک ناظرہ خود پڑھایا اور اہل محلہ کے دیگر بچوں نے بھی ان کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا۔(زید حبیب )