میرے ایک بزرگ ڈاکٹر حافظ عبدالحق مرحوم برس ہا برس طائف کے سرکاری ہسپتال میں طبی خدمات انجام دیتے رہے پھر ریٹائر ہو کر کئی دہائیوں تک مکتہ المکرمہ میں مقیم رہے۔ بڑے اللہ والے تھے۔ حکیمانہ نصیحت نہایت دل نشیں انداز میں کیا کرتے تھے۔ گزشتہ برس ان کا انتقال ہوا۔ ان کی زندگی کی آخری ساعتوں تک ان سے رابطہ رہا۔ مجھے مخاطب کر کے فرمایا کرتے کہ کبھی کسی ایونٹ یا خبر کے بارے میں چٹاخ پٹاخ فی الفور بات نہ کیا کرو۔ خوب غور و فکر اور زیر بحث موضوع کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لے کر اپنا موقف پیش کیا کرو۔ یہاں عجلت پسندی ہمارا قومی رویہ ہے۔ ایک یہ آفت اس پر الیکٹرانک و سوشل میڈیا اس سے بڑی آفت۔ دونوں آفتیں جمع ہو کر دو آتشہ ہو جاتی ہیں اور یوں ادھر کوئی خبر آتی ہے ادھر اس پر گرم گفتاری کے بھڑکتے ہوئے تنور میں خوب تپایا ہوا تبصرہ سامنے آ جاتا ہے۔ کار جہانبانی شیشہ گری سے کم نہیں جس کے بارے میں میر تقی میر نے فرمایا تھا: لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا پاکستان بار کونسل نے جمعرات 19دسمبر کو ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کونسل نے کہا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے مقدمے کے بارے میں جو ابتدائی مختصر فیصلہ آیا تھا اس پر جس انداز سے حکومت اور بعض دیگر ریاستی اداروں نے جس عجلت پسندی سے تنقید کی اس سے یہ تاثر ملتا تھا کہ گویا عدالتی فیصلوں کا احترام نہیں کیا جا رہا۔ کونسل نے یہ بھی کہا کہ فیصلے میں موجودہ تمام خامیوں کو بنیاد بنا کر سپریم کورٹ میں اپیل کی جا سکتی تھی اور وہاں سے ریلیف لیا جا سکتا تھا اگر قانون میں اس کی گنجائش ہوتی۔ جناب عمران خان نے یہ سوچنے کی زحمت بھی نہیں کی کہ وہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ چلانے، انہیں کٹہرے میں کھڑا کرنے اور دستور کے آرٹیکل 6کے مطابق انہیں سزا دینے کے سب سے بڑے وکیل بلکہ دعویدار تھے۔ جناب وزیر اعظم نے پرویز مشرف کے قریبی ساتھیوں فروغ نسیم‘ انور منصور اور شہزاد اکبر کو فوری طور پر پریس کانفرنس کا فریضہ سونپا جنہوں نے قانونی دفاع کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے جارحیت کا راستہ اختیار کیا۔ ایک بات ہمیں بہت اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ فوج ہماری آن‘ عدلیہ ہماری شان اور آئین ہماری جان ہے۔ جس طرح سے دھڑکتے دل کے بغیر انسانی جان کا کوئی تصور نہیں اسی طرح سے آئین کے بغیر ہمارے قومی وجود کی کوئی حقیقت نہیں۔ آج کل امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی تحریک زوروں پر ہے۔ ٹرمپ کا ضرور مواخذہ ہونا چاہیے۔ اب یہ تحریک سینٹ میں جائے گی۔ ایمی لکوبشر امریکی ریاست منی سوٹا سے ڈیمو کریٹک پارٹی کی طرف سے سینیٹر ہیں۔ ایمی پارٹی کی طرف سے اگلے صدارتی انتخاب میں امیدوار بننے کی دوڑ میں شامل ہیں اور پیش پیش ہیں۔ انہوں نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے ٹرمپ کے خلاف مواخذہ کی حمایت کرتے ہوئے یہ تاریخی جملہ کہا کہ صدر بادشاہ نہیں ہوتا۔ قانون بادشاہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی جج آئین کا تحفظ کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ امانت میں خیانت نہیں کرتا۔ ہمارے ہاں آغاز میں جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت کا سہارا لیا اور دستور ساز اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیز الدین کی اپیل پر سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھنے کے بجائے نظریہ ضرورت کا سہارا لیا یوں انہوں نے آئین کے دفاع کے بجائے طاقتوروں کو ترجیح دی۔ یہ وہی جسٹس منیر تھے جن کے بارے میں ایئر مارشل (ر) اصغر خان مرحوم نے اپنی کتاب ’’ ہم تاریخ سے سبق کیوں نہیں سیکھتے‘‘ میں لکھا تھا کہ مارشل لاء لگا کر فیلڈ مارشل ایوب خان قدرے پریشان تھے کہ آئین 1956ء توڑ کر اب آگے کام کیسے چلے گا۔ ایوب خان نے مجلس میں بیٹھے ہوئے چند جرنیلوں اور دوستوں سے مشورہ طلب کیا تو سب مہر بلب رہے۔ اگر کوئی بولا تو وہ آئین و قانون کا محافظ چیف جسٹس فیڈرل کورٹ جسٹس منیر بولا جنہوں نے کہا جنرل صاحب پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں اپنے مغربی و مشرقی پاکستان کے بڑے شہروں میں عوامی جلسے کریں اور پبلک سے ہاتھ کھڑے کروا کے اپنی مرضی کا دستور نافذ کر دیں۔ البتہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایسے جج بھی بکثرت آتے رہے کہ جنہوں نے آئینی تقاضوں کی راہ میں کسی مدانہت یا مصلحت کو آڑے نہ آنے دیا۔ بقول ڈاکٹر خورشید رضوی ؎ کبھی اصول کی غیرت کبھی زیاں کا سوال رہی ہے دماغ و دل میں مشاورت کیا کیا انہوں نے برطرفی و نظربندی قبول کی مگر اصول کی غیرت پر حرف نہ آنے دیا۔ یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف فرد ہیں ادارہ نہیں۔ بالخصوص وہ برسر اقتدار آ کر تو سیاست دان بن گئے تھے۔ ان کے سیاسی نامہ اعمال میں دو بار آئین شکنی ہی نہیں بعض دوسرے مقدمات بھی ہیں آج مٹھی بھر افراد پرویز مشرف کی حمایت میں اس لئے ریلی نکال رہے ہیں کہ موصوف نے انہیں کراچی میں من مانی کی آزادی دے رکھی تھی۔ جب 12مئی 2007ء کو ایم کیو ایم نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی کراچی آمد کے موقع پر پولیس وغیرہ کو اپنے دفتروں میں محبوس کر کے کراچی کی شاہراہوں اور گلیوں میں انسانوں کو چڑیوں کی طرح پھڑکایا اور درجنوں کو موت کی نیند سلایا۔ صدر پاکستان ہونے کی حیثیت سے پرویز مشرف نے اس پر شدید نوعیت کا ایکشن لینے اور اظہار افسوس کرنے کی بجائے اسی شام اسلام آباد میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جس کی جہاں اکثریت ہو گی وہ اس کا اظہار تو کرے گا۔ اسی طرح کی ہولناک قانون شکن کارروائی پر چشم پوشی کرنے بلکہ ایم کیو ایم کو شہ دینے کا صلہ ہی تو آج اس کے بچے کھے قائدین ادا کر رہے ہیں۔ سپیشل کورٹ کے مختصر فیصلے پر جسٹس وقار احمد شیخ اور جسٹس شاہد کریم دونوں کا اتفاق تھا۔ عدالتی حلقوں کا کہنا تھا کہ فیصلہ آئین کے تقاضوں کے مطابق تھا۔ البتہ تفصیلی فیصلے میں جسٹس وقار احمد شیخ نے سزائے موت کے علاوہ سزا کی نوعیت کے بارے میں جو کچھ لکھا یہ ان کی ذاتی رائے تھی اس کا اسی طرح سے دو رکنی فیصلے کے ساتھ کوئی تعلق نہیںجیسے جسٹس نذر اکبر کے اختلافی نوٹ کا کوئی تعلق نہیں جنہوں نے پرویز مشرف کو بری کرنے کی تجویز دی تھی۔ اس وقت پاکستان کی سرحدوں پر خطرات منڈلا رہے ہیں۔ بھارت میں متعصبانہ و متنازع شہریت بل کے خلاف شہر شہر شدید احتجاج ہو رہا ہے جس میں اس وقت تک تقریباً 26مسلمان شہید کر دیے گئے ہیں۔ کشمیر میں 80لاکھ مسلمان کشمیری آج 141ویں روز بھی گھروں میں مقید و محصور ہیں۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ سوائے جماعت اسلامی پاکستان کے کسی اور کو کشمیریوں کی فکر نہیں۔ ان تمام خطرات سے نمٹنے کے لئے جس حکمت و دانش اور سمجھداری و وسعت نظری کی ضرورت ہے اس سے یہ حکومت عاری نظر آتی ہے۔21دسمبر بروزہفتہ نئے چیف جسٹس گلزار احمد کی تقریب حلف برداری کے موقع پر بڑا دل خوش کن منظر تھا جہاں صدر پاکستان ‘ وزیر اعظم پاکستان چیف جسٹس آف پاکستان اور تینوں افواج کے سربراہان موجود تھے اور سب کے سب آئین کی سربلندی و پاسداری کا حلف اٹھایا جا رہا تھا۔ گویا امریکی سینیڑ ایمی کلوبشر کی بات کو پاکستان میں دوہرایا جا رہا تھا کہ ’’صدر بادشاہ نہیں آئین بادشاہ ہے‘‘