پاکستان نے ایک کام ترقی یافتہ ملکوں والا کیا ہے۔پہلی بار ڈیجیٹل مردم و خانہ شماری کا کام مکمل ہوا ۔ملک بھر میں 22 مئی کو گنتی مکمل ہوئی اور ایک دن بعد ابتدائی نتائج کا اعلان کیا گیا۔اعداد و شمار فکر مندی کا باعث ہیں،لگتا ہے قومی پیداوار بڑھائی نہ گئی تو آبادی معیار زندگی کھا جائے گی ۔مردم شماری بتاتی ہے کہ پاکستان کی کل آبادی ( گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کو چھوڑ کر) تقریباً 25 کروڑ ہو گئی ہے ۔ اس مردم شماری میں استعمال ہونے والی جدید ترین ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں جیو ٹیگنگ شامل تھی ، جو کہ گنتی میں مدد کرتی ہے اور سکولوں، ہسپتالوں، مساجد، یونیورسٹیوں اور دیگر معاشی اداروں کے بارے میں درست اعداد و شمار فراہم کرتی ہے، اس کے ساتھ فیصلہ سازی کے لیے مستند ڈیٹا ملتا ہے جو آبادی میں رونما تغیرات سے نمٹنے میں مدد دیتا ہے۔ اقوام متحدہ کے شماریاتی کمیشن نے ڈیجیٹل مردم شماری کی تعریف یوں کی ہے: جس میں سیٹلائٹ ڈیٹا، فضائی فوٹو گرافی، ایک جیو ریفرنس ایڈریس رجسٹری اور جغرافیائی معلوماتی نظام (GIS) کے نقشوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ آلات مردم شماری کی نقشہ سازی کے لیے ضروری ہیں۔ جمہوری ملکوں میں آبادی کو ووٹ بینک سمجھا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں دیکھیں تو حکومت نے آئندہ کے جمہوری نظام کو مؤثر طریقے سے چلانے کے لیے ایک اہم مشق کا انعقاد کیا ہے۔ 2023 کی خانہ ومردم شماری مارچ میں کی گئی، یہ ایک اہم تکنیکی موڑ تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہیڈ کاؤنٹ نے ڈیجیٹل اپروچ پر انحصار کیا جس کا مقصد پورے عمل کو زیادہ موثر اور پاکستانیوں کے لیے قابل رسائی بنانا اور ڈیٹا اکٹھا کرنے کے طریقے میں انقلاب لانا ہے۔ ڈیجیٹل مردم شماری میں اہم چیزخود شماری پورٹل کا نفاذ تھا، جو 20 فروری سے 3 مارچ تک عوام کے لیے دستیاب رہی۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے مطابق، جو مردم شماری کرتا ہے، شہری رجسٹرڈ موبائل ڈیوائس کا استعمال کرتے ہوئے پورٹل پر اپنے خاندان اور گھر کی تفصیلات خود ہی رجسٹر کروا سکتے ہیں۔ اس کے بعد یکم مارچ سے یکم اپریل کے درمیان ڈور ٹو ڈور ڈیجیٹل گنتی کی گئی تاکہ پورٹل استعمال کرنے والے شہریوں کی معلومات کی تصدیق کی جا سکے اور ان لوگوں کی گنتی کی جا سکے جنہوں نے خود گنتی نہیں کی۔ خانہ و مردم شماری کی بڑی مشق کا بنیادی خیال تصور کیے گئے وسیع ڈیٹا کے ساتھ پالیسی اور منصوبہ بندی کی تیاری ہے۔ مردم شماری سے متعلق تمام فیصلے وفاقی حکومت کرتی ہے ، جب کہ آپریشنل اینڈ کا انتظام صوبے کرتے ہیں، یا دوسرے لفظوں میں تکنیکی اور مالی مدد وفاقی حکومت فراہم کرتی ہے، جبکہ انسانی وسائل اور آپریشنز صوبوں کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔آزاد جموں و کشمیر، جی بی اور بلوچستان میں ڈپٹی کمشنرز سی ڈی اوز کا کردار ادا کرتے ہیں۔ سندھ کے آٹھ کنٹونمنٹ علاقوں میں کنٹونمنٹ کے ایگزیکٹو افسران بطور سی ڈی او کام کرتے ہیں۔ ڈیجیٹل مردم شماری پاکستان کے لیے ایک اہم پیشرفت ہے اور عام انتخابات کے حوالے سے پالیسیوں پر نظر ثانی، اپ گریڈنگ اور صوبے کے لحاظ سے جغرافیائی طاقت اور آبادی کے مطابق وسائل کی تقسیم میں مثبت کردار ادا کرے گی۔ پاکستان کے آئین کے مطابق ہر دس سال بعد مردم شماری کرائی جانی ضروری ہے۔ پاکستان میں مردم شماری کے نتائج وسائل کی تقسیم، حلقوں کی حد بندی، تقسیم اور مستقبل میں پالیسی کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ آزادی کے بعد، 1951، 1961، 1972 (1971 میں جنگ کی وجہ سے ایک سال کی تاخیر) اور 1981 میں مردم شماریاں ہوئیں۔ تاہم، اس کے بعد ہونے والی اگلی مردم شماری 1998 اور 2017 تک تاخیر کا شکار رہیں جس کی وجہ ناروا سیاست اور عدم استحکام ہے۔ 2017 کی مردم شماری ملک میں مکمل ہونے والی آخری مردم شماری تھی، اور اس میں کل آبادی 21 کروڑ 32 لاکھ ریکارڈ کی گئی۔ یہ امر خوشگوار حیرت کا حامل ہیکہ پاکستان میں ہونے والی ڈیجیٹل مردم شماری پورے جنوبی ایشیا میں سب سے بڑی ڈیجیٹل مردم شماری ہے جسے عالمی سطح پر سراہا گیا ہے۔ جنوبی ایشیا کے پہلے خود شماری پورٹل سے پاکستان کے 6.6 ملین خاندانوں نے استفادہ کیا جو اس نظام پر ان کے اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔ اس مردم شماری نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے دنیا بھر میں پاکستان کا تشخص بہتر کیا۔لوگ خود کو قومی منصوبہ بندی کا حصہ بنانے میں دلچسپی لیتے رہے۔ مردم شماری کے انتظامات قابل قدر تھے ۔سٹیک ہولڈرز کے درمیان موثر ہم آہنگی اور مرکزی فیصلہ سازی کے جدید نظام سے لیس قومی مردم شماری کوآرڈینیشن سینٹر اور صوبائی مردم شماری کوآرڈینیشن سینٹرز قائم کیے گئے۔121,000 آئی ٹی تربیت یافتہ افراد کو ٹیبلیٹس اور مخصوص آپریٹنگ سسٹم کے ذریعے مرکزی ڈیٹا بیس سے بغیر کسی رکاوٹ کے منسلک کر کے ڈیٹا جمع کرنے کا عمل مکمل کیا گیا۔ چار کروڑ عمارتوں کو کثیر خصوصیات کے حامل سیٹلائٹ نقشوں پر جیو ٹیگ کیا گیا جو گوگل نقشوں سے زیادہ جامع تھیں۔ ڈیجیٹل مردم شماری ہو گئی، نتائج آ گئے،اب مر حلہ یہ درپیش ہے کہ ان نتائج کو قومی پالیسیوں کی تشکیل کے لئے استعمال کیا جائے۔ سنجیدہ نوعیت کا کام ہمیشہ اس لئے نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ اس کی قدر و قیمت سے ہر کوئی واقف نہیں ہوتا۔ہماری سیاسی پسند نا پسند ہو سکتی ہے لیکن فرسودہ پالیسیوں کے کباڑ کی موجودگی میں ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانا اہم کام ہے۔اگرچہ کراچی کی ایک جماعت کے اعتراضات دور کرنے کی کوشش میں پنجاب کے اعتراضات کی گنجائش بن رہی ہے لیکن مجھے امید ہے ٹیکنالوجی آخر کار برق رفتاری اور شفافیت کی ضمانت بن جایا کرتی ہے۔