ان تینوں واقعات کے تار کسی نہ کسی طور پر فاروق خان کی دہلیز پر آکر رکتے تھے۔ چھٹی سنگھ پورہ کے واقعہ کے اگلے دن ہی پولیس سربراہ اشوک بھان نے بتایا کہ فوج کی جموں و کشمیر لائٹ انفنٹری کے ایک سپاہی کے بھائی محمد یعقوب وگے کو حراست میں لیا گیا ہے۔ جس نے انکشاف کیا کہ حزب المجاہدین اور لشکر طیبہ کے ایک مشترکہ گروپ سے تعلق رکھنے والے 18بندوق برداروں نے رات کے اندھیرے میں گاوٗں پر دھاوا بول کر 31سکھ مردوں کو قطار میں کھڑا کرکے قتل کردیا اور صرف نانک سنگھ کو زندہ چھوڑا۔ 25مارچ کو سرینگر میں آرمی اور پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ وگے کی نشاندہی پر چھٹی سنگھ پورہ کے مشرق میں 13کلومیٹر دور پتھری بل کی پہاڑیوں میں آرمی اور پولیس کی ایک مشترکہ ٹیم نے جنگجووٗں کو گھیر کر مار دیا ہے۔ آپریشن کی کمانڈ بریگیڈیئر دیپک بجاج اور فاروق خان کر رہے تھے۔ پولیس نے ایک فوٹو گراف بھی جاری کیا، جس میں ان افراد کی شناخت ابو حنیف، ابو شہام اورحمان بھائی کے طور پر کی گئی تھی اور بتایا گیا کہ یہ سبھی پاکستانی شہری تھے۔ فوٹومیں مردہ اجسام مسخ شدہ حالت میں تھے۔ کشمیر ٹائمز ایڈیٹوریل میں ہم نے ان تصویروں کو شائع نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ 26مارچ 2000ء کو جب نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی چھٹی سنگھ پورہ پہنچے، تو میجر جنرل آر کے کوشل، بریگیڈیئر بجاج اور فاروق خان ان کو بریفنگ دے رہے تھے۔ انہوں نے خاص طور پر ان افسران اور اس ٹیم کے متعلق پوچھا ،جس نے چھٹی سنگھ پورہ کے قتل عام میںملوث مبینہ دہشت گردوں کا پتہ لگا کر انکو کیفر کردار تک پہنچایا۔ایڈوانی کے فاروق خان کو خاصی شاباشی دی۔ جب ایڈوانی گاوٰں میں ہی موجود تھے، تو دوسری طرف چھٹی سنگھ پورہ کے بالائی علاقوں کے گاوٰں والے 17دیہاتیوں کے غائب ہونے کی رپورٹ درج کروا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج کی ایک ٹکڑی نے انکو بطور گائڈ ساتھ لیا تھا۔ جوڈیشل مجسٹریٹ نے ان کی عرضی پر تحقیقات کا حکم دیا۔ وہ بضد تھے کہ انکاونٹر میں مارے جانے والے افراد کی نعشوں کو قبروں سے نکال کر انکی شناخت کروائی جائے۔ کیونکہ ایک قبر کے پاس براری آنگن کے غائب مکین جمہ خان کاشناختی کارڈ گاوٰں والوں کو ملا تھا۔ یہ گاوٰ ں والے اجتماعی طور پر تین دن تک لگاتار ضلعی ہیڈکوارٹر کی طرف مارچ کرکے ان نعشوں کی تحقیق کا مطالبہ کر رہے تھے۔ تیسرے دن راستے میں براک پورہ کے پاس پولیس کی ایس او جی کیمپ سے ان پر فائرنگ کی گئی، جس سے نو افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں غائب شدہ جمہ خان کا بیٹا بھی شامل تھا۔ ان ہلاکتوںپر برپا طوفان کو خامو ش کرنے کیلئے حکومت نے نعشوں کو قبروں سے نکال کر ان کو شناخت کاعمل شروع کردیا۔ گو کہ انگلیوں وغیرہ کے نشانات نے ہی ثابت کردیا کہ یہ مقامی گمشدہ سویلین افراد ہیں، مگر ان کی شناخت کو یقینی بنانے کیلئے ان کے اعضا ء کے چند نمونے معہ ان کے قریبی رشتہ داروں کے خون کے نمونے، کولکتہ اور حیدر آباد کی فورنسک لیبارٹریوں کو بھیجے گئے۔ دو سال کے بعد مارچ 2002ء میں ٹائمز آف انڈیا نے انکشاف کیا کہ خون کے نمونوں کو تبدیل کردیا گیا ہے۔ خون کے جو نمونے خواتین کے ہونے چاہئے تھے، وہ مردوں کے تھے اور اسی طرح کی اور بھی ہیرا پھیری کی گئی تھی۔ وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے اسمبلی کے ایوان میں معافی مانگ کر جسٹس کوچھے کی قیادت میں ایک اور عدالتی کمیش مقرر کرنے کا اعلان کیا۔ جس نے ڈی این اے نمونوں کی ادلا بدلی کیلئے فاروق خان کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ کمیشن نے وکیل منیر الدین شال کے حوالے سے لکھا کہ فاروق خان جوڈیشل رپورٹ میں ڈی این اے سیمپل کے ذریعے شناخت درج کروانے پر مصر تھا۔ جب ڈی آئی جی راجہ اعجاز علی نے اسکو بتایا کہ انگلیوں کے نشانات سے شناخت کروانا زیادہ آسان ہے، تو خان کا کہنا تھا کہ لاشیں جل چکی ہیں، اسلئے ڈی این اے سے ہی ان کی شناخت ہو سکتی ہے۔ مگر وکیل کو اس نے بتایا کہ ڈی این اے کے ذریعے وہ معاملہ سنبھال لے گا۔ اس سے قبل اسنے وکیل کو بتایا تھا کہ یہ معاملہ ختم کروانے میں وہ اسکی مدد کرے۔ کمیشن نے شواہد اور تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ فاروق خان نے پردے کے پیچھے ڈی این اے کے نمونوں کو تبدیل کرے کی سازش رچی تھی اور ایسا کیوں کیا تھا، اس کیلئے مزید تفتیش کی ضرورت ہے۔ خان ، جمو ں و کشمیر پولیس کا کوئی معمولی افسر نہیں تھا، بلکہ اس نے اسپیشل آپریشن گروپ کو تشکیل دیا تھا۔ مئی 2005کو قومی تفتشی بیورو نے آرمی کے سات افسران بشمول کرنل اجے سکسینہ، میجر ڈی پی سنگھ ، میجر سریش شرما، کیپٹن امیت سکسینہ پر فرد جرم دائیر کی ۔ ان کو قتل اور اغوا کا ملزم ٹھہرایا۔ آرمی نے آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ز ایکٹ کا حوالہ دیکر استنثیٰ حاصل کیا۔ قومی تفتیشی بیورو نے خان کو بری کرکے پورا ملبہ آرمی کے اوپر ڈالا ۔ مگر عدالتی کمیشن خان کو ذمہ دار ٹھہرا چکی تھی۔ جس کیلئے خان نے کورٹ میں جاکر عدالتی کمیشن کے آرڈر پر اسٹے حاصل کر دیا۔چھٹی سنگھ پورہ کے سکھ مکین، پتھری بل میں مارے گئے بے قصور افراد اور براک پورہ میں ہلاک کئے گئے ان کے لواحقین، آج تک انصاف کے منتظر ہیں۔ آخر انصاف ملے تو کیسے؟ جب پوری حکومتی مشنری ہی ملزمین کو بچانے اور پردہ پوشی میں ملوث ہو، اور تو اور جب ملزمیں ہی خود اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو۔ ریٹائرڈ ہونے کے فوراً بعد خان کو شائد اندازہ تھا کہ کسی نہ کسی وقت وہ مکافات عمل کا شکار ہو جائیگا، تو ڈیفنس میکانز م کے طور پر اس نے بی جے پی جوائن کرکے دٖفعہ 370 کے خلاف پیٹیشن دائر کرکے وزیر اعظم نریندر مودی اور امیت شاہ کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا۔ اب اسکے گورنر کے مشیر کے عہدے پر براجمان ہوکر چھٹی سنگھ پورہ اور دیگر سانحات کی تحقیق و تفتیش کا باب ہمیشہ کیلئے بند ہوگیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ پاکستان اور د نیا میں موجود سکھ برادری عالمی اداروں کو جھنجھوڑ کر ان واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیق و تفتیش کا مطالبہ کرکے ملزموں کو عالمی عدالت سے سزا دلوانے میں رول ادا کرے۔