جب کوئی بارہ چودہ سال کا بچہ یا اٹھارہ بیس برس کی ہنستی مسکراتی لڑکی اچانک اپنے ہاتھوں سے زندگی کا گلا گھونٹ دیتی ہے تو یہ ایک فرد کی موت نہیں سارے معاشرے کے شعور و احساس کی موت کا اعلان ہوتا ہے۔ دو تین روز پہلے لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی کے شعبہ آرٹس اینڈ ڈیزائن کے پانچویں سمسٹر میں زیر تعلیم طالبہ روشان فرخ نے یونیورسٹی کی زیرتعمیر عمارت کی چوتھی منزل سے چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ روشان کی خودکشی کا سبب تو معلوم نہیں ہوا مگر سوشل میڈیا پر اس کا آخری پیغام خاصا دلچسپ ہے۔ زندگی کو خود الوداع کہتے ہوئے اس نے آہ و فغاں کا نہیں ہنسنے مسکرانے کا پیغام دیا ہے۔ روشان نے لکھا ہے کہ اگر میں خود کو قتل کردوں تو مجھے ہمیشہ ہنستا مسکراتا یاد رکھا جائے۔ جب کوئی طالب علم آگے بڑھ کر خود موت کو گلے لگاتا ہے تو ایک استاد کی حیثیت سے یہ موت مجھے بے پناہ آزردہ و افسردہ کر دیتی ہے۔ اگر اساتذہ حرف شناسی کے ساتھ ساتھ شعور و احساس کے زیور سے بھی آراستہ ہوں اور اگر بچوں کی نفسیات اور نوجوانوں کے جذبات کے بارے میں وہ تربیت یافتہ ہوں تو خودکشی کے بہت سے واقعات و سانحات سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔ چند سال پیشتر میں اسلام آباد کی ایک اہم یونیورسٹی میں سیاسیات کا استاد تھا اس یونیورسٹی میں طالبات کا کیمپس الگ ہے تاہم مرد اساتذہ کو اس کیمپس میں پڑھانے کی اجازت ہے۔ ایم اے کی ایک کلاس میں کامیاب درس و تدریس کا سلسلہ جاری تھا کہ ایک روز اچانک مجھے ایک طالبہ کی طرف سے موسم بہار کی آمد کا ایک کارڈ ملا مگر اس کارڈ پر بہار کا نہیں خزاں کی اداسی کا پیغام لکھا تھا۔ ’’سر آپ میری طرف توجہ نہیں دیتے اور آپ نے مجھے ’’مڈٹرم‘‘ میں نمبر بھی کم دیئے ہیں۔ آپ کے رویے کی بنا پر میرا دل پڑھائی سے ہی اچاٹ ہو گیا ہے۔ اپنے دماغ پر زور ڈالنے کے باوجود مجھے اپنا کوئی غیرعادلانہ رویہ یاد نہ آیا تاہم میں نے فوری طور پر کلاس کی نمائندہ سے اس کا نمبر لیا۔ اسے فون کیا او روالدین کے ساتھ اگلے روز ملنے کے لیے کہا۔ اگلے روز اس کی والدہ آئیں۔ خاتون نے بتایا کہ آٹھ دس روز سے بچی ڈپریشن کا شکار ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ کہیں وہ اپنے آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا بیٹھے۔ مجھے بے حد افسوس ہوا کہ لاعلمی میں ہی سہی مگر میری عدم توجہی یا کوتاہی کی بنا پر ایک لائق فائق بچی اتنے شدید ڈپریشن میں چلی گئی۔ میں نے بچی کو اس کی والدہ کی موجودگی میں یقین دلایا کہ اگر کوئی ایسی بات تمہیں محسوس ہوئی تو مجھے بہت افسوس ہے تمہیں فی الفور یہ بات مجھے بتانا چاہیے تھی تاہم ایسا کچھ تھا بھی تو ہرگز شعوری نہیں لاشعوری تھا۔ میں نے اپنے رویے پر نظرثانی کی۔ فائنل امتحان میں وہ بچی اس کی کورس میں اول آئی۔ میں نے بعد میں بھی ایک دو بار اس کی والدہ سے رابطہ کیا۔ انہوں نے بچی کے بارے میں بہت اچھی رپورٹ دی اور میرا ایک بار پھر شکریہ ادا کیا۔ دو سال پہلے کے ایک سروے کے مطابق ایک سال میں پاکستان کے 35 شہروں میں اقدام خودکشی کے 1473 واقعات سامنے آئے۔ ان میں سندھ میں 673، پنجاب میں 645، خیبرپختونخوا میں 121 اور بلوچستان میں 34 کیسز رپورٹ کئے گئے۔ ان واقعات میں 300 سے اوپر اموات ہوئیں۔ خودکشی کے واقعات میں سالانہ اضافہ ہورہا ہے کمی نہیں۔ پاکستان میں کوئی محکمہ خودکشی کی وارداتوں کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ نہیں رکھتا۔ پاکستان میں خودکشی کے اسباب میں ذہنی صحت، بیروزگاری، غربت، گھر اور خاندان سے محرومی، خاندانی جھگڑے اور پسند کی شادی کا نہ ہونا وغیرہ سرفہرست ہیں۔ دو تین سال پہلے جام شورو یونیورسٹی کی ایک طالبہ نائلہ رند نے بھی یونیورسٹی ہاسٹل میں پنکھے کے ساتھ لٹک کر خودکشی کرلی تھی۔ خودکشی کے بعد جو تفصیلات سامنے آئیں، ان کے مطابق جہاں وہ شادی کرنا چاہتی تھی وہاں نہ ہوسکی لہٰذا اس نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کو ہی ترجیح دی۔ ڈاکٹر امجد ثاقب اس وقت معاشرے کو ان المناک واقعات سے نجات دلانے کے لیے انتھک محنت کر رہے ہیں، وہ اپنے فلاحی ادارے ’’اخوت‘‘ کے ذریعے لاکھوں انسانوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچانے اور انہیں ایک صحت مندانہ اور آبرومندانہ زندگی گزارنے کے لیے بغیر کسی سود کے وسیلہ روزگار مہیا کر رہے ہیں۔ اقدام خودکشی سے بچانے کے بارے میں انہوں نے کئی واقعات سنائے اور اپنی کتاب میں بھی تحریر کئے ہیں۔ ایک شخص کا واقعہ بڑا چشم کشا تھا۔ وہ کہیں برسر روزگار تھا او اپنے بال بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہا تھا مگر مالکان نے کاروبار میں خسارے کی بنا پر اسے بھی ملازمت سے فارغ کردیا۔ کئی ہفتوں کی بھاگ دوڑ کے بعد بھی اسے کہیں ملازمت نہ ملی اور گھر میں فاقوں نے ڈیر ے ڈال دیئے۔ جب بچوں کے فاقے اس کی برداشت سے باہر ہو گئے تو اس نے گھر میں پڑے پرانے گڑ کے شربت کے ساتھ زہر ملا کر اپنا اور اپنے بیوی بچوں کی زندگی کے خاتمے کا فیصلہ کرلیا۔ عین اس موقع پر رحمت کے فرشتے نے اس کے در دل پر دستک دی، اس نے اپنے حواس مجتمع کئے اور سوچا کہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا گناہ ہے۔ اسے یاد آیا کہ اس کے کسی دوست نے اس کے سامنے ’’اخوت‘‘ نامی کسی ادارے کا نام لیا تھا۔ اس نے اسی شام اخوت والوں سے رابطہ قائم کیا اور ان سے بلاسود قرض لے کر اپنا ٹھیلہ لگا لیا اور یوں خودکشی کا شکار ہوتی ہوئی زندگی ایک بار پھر ہنسنے مسکرانے لگی۔ سارے مغرب بالخصوص ناروے، سویڈن، ڈنمارک وغیرہ میں ہائی سکولوں میں ہر بچے کا ٹیچر کے علاوہ ایک ٹیوٹر بھی ہوتا ہے جو بچے کے سرپرست کے طور پر کام کرتا ہے۔ ایسے ٹیوٹرز کو کم از کم چار سال کی تربیت دی جاتی ہے کہ انہوں نے بچوں کی کس طرح نگہداشت کرنی ہے، ان کے ساتھ گہرے اعتماد کا رشتہ کیسے قائم کرنا ہے اوران کی پسند نا پسند کا کیسے خیال رکھنا ہے۔ معروف اداکارہ ماہرہ خان نے لاہور کی نجی یونیورسٹی کی خودکشی کرنے والی روشان کے حوالے سے خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحانات پر اپنے شدید جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم کب ذہنی صحت کو سنجیدگی سے لینا شروع کریں گے؟ ہم کب لوگوں کو پاگل کہنا چھوڑیں گے۔ ماہرہ خان نے کہا کہ ہمیں سکولوں میں کونسلرز کی ضرورت ہے اور صرف طالب علموں کو نہیں بلکہ اساتذہ اور والدین کو بھی تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ چلیں اس معاشرے میں حکمرانوں اور سیاست دانوں نے تو نہیں مگر ایک اداکارہ کو یہ توفیق نصیب ہوئی کہ وہ ان المناک سانحات سے نجات کے لیے سوئے ہوئے معاشرے کو جھنجھوڑ رہی ہیں۔ ماہرہ خان کو یقینا علم ہوگا کہ مغرب میں ہی نہیں مشرق میں بھی ایک سلیبرٹی آگے بڑھ کر ایک ادارے کا کام کر کے دکھا دیتی ہے۔ ماہرہ خان فائونٹین ہائوس کی طرح کا کوئی ادارہ قائم کرنے کا اعلان کریں نیز اساتذہ او روالدین کے لیے تربیتی پروگراموں کا منصوبہ سامنے لائیں۔ اس کار خیر کا کوئی تو آغاز کرے اسے بہت سے اہل خیر مددگار کے طور پر مل جائیں گے۔ ارشاد باری کی تعالیٰ ہے کسی ایک شخص کی جان بچانا اساری انسانیت بچانے کے مترادف ہے۔