یہ دو الگ الگ اقلیمیں ہیں۔ ان میں دخل اندازی کی جائے تو نظام کائنات بگڑ جاتا ہے۔ یہاں دونوں پر سوال اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ خاور مانیکا کے مقدمے میں میری فکر کا محور یہی نکتہ ہے۔ دنیاوی ولایت میں تو معاملہ یہ ہے کہ نظم حکومت میں کیوں کھنڈت ڈالی گئی۔ نصف شب کو ایک غیر متعلقہ شخص کی دخل اندازی پر کیوں تبادلے کے احکام جاری کیے گئے۔ اس پر عدالت عظمیٰ نے ازخود نوٹس کا اپنا شہرہ آفاق طریقہ استعمال کیا ہے۔ یعنی یہ سمجھا ہے کہ یہ ایسا قومی اہمیت کا مسئلہ ہے کہ اسے نظرانداز کرنا انصاف کے تقاضوں کا قتل ہو گا۔ عدالت میں پیشی بھی ہو گئی ہے جہاں بہت سی ناگفتہ باتوں کا تذکرہ بھی ہو چکا ہے۔ عدالتی کارروائی میں یہی ہوتا ہے کہ وہ باتیں بھی سامنے آ جاتی ہیں جو عام طور پر الم نشرح نہیں کی جاتیں۔ یہ سب کوئی خوشگوار بات نہیں ہے، میں اس پر کوئی الگ سے مقدمہ بنانے کا شوق نہیں رکھتا۔ یہاں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جہانگیری و جہانبانی کی ولایت میں یہ ایک اہم واقعہ ہے۔ دوسری طرف ایک اور ولایت ہے جو روحانیت کی اقلیم کہلاتی ہے۔ مجھے اس بارے میں بھی بڑی تشویش ہے۔ جب اس شادی کی افواہیں گرم ہوئی تھیں تو میں نے تفصیل کے ساتھ عرض کیا تھا کہ روحانیت ہوتی کیا ہے اور اطراف و اکناف عالم میں کن کن چیزوں کو روحانیت سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ اس دن میں نے تبت سے لے کر اس علاقے تک کی سیر کی تھی جسے المغرب کہا جاتا ہے۔ سچی اور جھوٹی ہر طرح کی روحانیت کا ذکر کیا تھا، بلکہ مذہبی اور غیر مذہبی روحانیت کے بھی حوالے دیئے تھے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ان باتوں کو بھی روحانیت یاتصوف کی ذیل میں شمار کیا جاتا ہے جن کا اس مقدس شعبے سے کوئی تعلق نہیں۔ خاص طور پر اگر بابافریدؒ کا حوالہ دیا جائے تو اس طرح کی روحاینت کو ان سے منسوب کرنا میری نظر میں گستاخی ہو گا۔ جس خطے میں ہم رہتے ہیں، وہاں اسلام کا بیج جن جلیل القدر ہستیوں نے بویا، ان میں بابا صاحب اولیت کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہر حکمران کے ساتھ کسی نا کسی پیر کا تعلق اس طرح بیان کیا جاتا ہے گویا اس حکمران کی حکمرانی اس کی دعائوں یا اس کے وظیفوں کی طفیل ہے۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ زرداری صاحب کے ایک پیر نے بھی بڑی شہرت پائی جو ایوان صدر میں اور زرداری صاحب کے گرد منڈلاتے نظر آتے تھے۔ ان سے اس طرح کی باتیں بھی منسوب کی جاتی تھیں کہ انہوں نے صدر کو مشورہ دیا کہ اب آپ پہاڑوں سے ہٹ کر پانیوں کے پاس رہیں اور وہ اسلام آباد چھوڑ کر کراچی چلے گئے۔ اور بھی بہت سی باتیں کہ میں ان کا عرصہ اقتدار بڑھا سکتا ہوں اگر وہ میری فلاں بات مان لیں۔ بعد میں یہ پیر صاحب تو غائب ہو گئے اور بتایا گیا کہ زرداری صاحب کے اصل پیر تو سکھر میں یہاں کہیں اندرون سندھ میں ہیں جو ہندو ہیں۔ زرداری صاحب کا تذکرہ لمبا ہو گیا۔ اور بھی بہت سے پیروں کے حوالے آیا کرتے تھے۔ ایک کوئی پیر سرکار تھی جو ڈنڈے مارا کرتی تھی اور حکومت کے خواہش مند اسے اعزاز سمجھتے تھے۔ حضور والا، ان باتوں کا روحانیت سے کوئی تعلق نہیں۔ عرض اس لیے کر رہا ہوں کہ جب سے عمران خان کی شادی ہوئی ہے، اس حوالے سے ایسی بہت سی باتیں مشہور ہونے لگی ہیں۔ میں چونکہ چشم دید ہوں نہ مستند معلومات رکھتا ہوں۔ اس لیے اس بارے میں کچھ نہیں کہتا۔ میں تو ایک مسئلے پر بات کر رہا ہوں کہ آیا ان واقعات کا روحانیت سے کوئی تعلق ہے۔ ہمارے ہاں پیر وہ ہے جو یہ بتا دے کہ آپ کو حکومت کب ملے گی یا حکومت کے حصول میں مدد دے، چند اعمال کرے یا بتائے کہ ایسا کرنے سے آپ راج سنگھاسن تک پہنچ سکتے ہیں۔ وہ پیر سے زیادہ مستقبل میں جھانکنے والا ہو۔ شیکسپیئر کے لفظوں میں جو یہ بتا سکے کہ کوئی بیج کیا فصل دے گا۔ پھل پھول دے گا، یا کانٹے وہ جو Look into the seeds of Fucture۔یہ کام پاکستان میں بہت سے لوگ کرتے ہیں۔ وہ بھی جو کارڈ دیکھتے ہیں، جو علم نجوم جانتے ہیں، زائچے بناتے ہیں یا فلکیات کا علم جانتے ہیں۔ یہ سائٹیفک علوم ہوں گے، مگر ان کا روحانیت سے کوئی تعلق نہیں۔ بعض علوم تو ہمارے بزرگوں سے منسوب ہیں مثلاً جفر اور رمل حضرت امام جعفر صادق سے منسوب ہیں۔ مجھے لاہور کے بڑے ہوٹل میں ایک خاتون ملی جس نے دو بہت معتبر لوگوں کے سامنے مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے قم سے باقاعدہ ان علوم کی تربیت لی ہے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ ان علوم کو باقاعدہ پڑھایا جاتا ہے، مگر اس سے یہ مطلب نہیں کہ یہ روحانیت ہے۔ ہمارے مدرسوں میں تو ریاضی اور منطق بھی پڑھائے جاتے رہے ہیں۔ ان علوم کے ہونے پر مجھے نہ شک ہے نہ اعتراض۔ البتہ جو بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ اس طرح کی باتوں کو خالص روحانیت یا تصوف سے منسوب کرنا درست نہیں۔ میں ان بزرگوں کا انکاری نہیں ہوں جنہیں اللہ نے مستقبل میں جاننے کی صلاحیت دے رکھی ہے، مگر روحانیت کی دنیا میں یہ ایک ادنیٰ مقام ہے۔ بابا صاحب کی درگاہ مرجع خلائق ہے۔ وہ تو دنیاوی مراکز سے دور بھاگ کر اجودھن میں آ بسے تھے جو اب ان کی برکت سے پاک پتن کہلاتا ہے۔ میرا بچپن بھی گویا ان کے قدموں میں گزرا ہے۔ ساہیوال کا رہنے والا ہوں۔ چلتے چلتے خیال آتا اور سامنے بس نظر آتی کہ پاکپتن جا رہی ہے تو اس میں بیٹھ کر پاکپتن جا پہنچتے۔ سلام کرتے، مسجد نظام الدین اولیا میں دو نفل پڑھتے اور اگلی بس سے واپس چل پڑتے۔ شہر میں کسی کو خبر بھی نہ ہوتی کہ ہم شہر میں نہ تھے۔ میں ان فیوض و برکات کا فیض یافتہ ہوں جو اس درگاہ سے حاصل ہوتے ہیں۔ زیادہ ذکر نہیں کرنا چاہتا مگر آج کل جس طرح اقتدار کے شوقین وہاں صرف اس لیے جا رہے ہیں کہ ملک کے وزیر اعظم بھی وہاں بوسہ زن ہیں تو یہ بات مجھے مناسب دکھائی نہیں دیتی۔ پاک پتن کی گدی بھی کوئی ایسی گدیوں میں نہیں جس نے سیاست کی ہو۔ یہاں کے گدی نشین دیوان کہلاتے ہیں، وہ سیاست میں آتے بھی ہیں تو ایک جاگیردارانہ کروفر سے نہیں۔ اب یہ سمجھنا کہ وہاں اقتدار بٹ رہا ہے۔ اس جلیل القدر صوفی کی شان میں گستاخی ہے۔ ویسے بھی چشتیوں کی شان یہ ہے کہ وہ اقتدار سے دور رہتے ہیں۔ ایک بات البتہ ہے کہ چشتی سلسلے کا فروغ چونکہ برصغیر میں ہوا جہاں ہندو جوگیوں کا قبضہ تھا، اس لیے یہاں ان کے اشغال میں مجاہدے کی بڑی اہمیت رہی ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کا یہ طرۂ امتیاز ہے۔ یہ تو ان کی تربیت کا ایک نصاب تھا جس سے وہ صرف اس شخص کو گزارتے تھے جو اس کا اہل ہوتا تھا۔ میں کسی اور فعل کو بھی چیلنج نہیں کرتا۔ ایک بزرگ کے بارے میں منسوب ہے کہ ہر دو قدم پر سجدہ کرتے ہوئے حج کے لیے خانہ کعبہ پہنچے تو خانہ کعبہ کو وہاں سے غائب پایا۔ چند لمحوں کے بعد انہیں خانہ خدا اپنی جگہ موجود نظر آیا تو پکار اٹھے اے اللہ کے گھر تو کیوں نظروں سے اوجھل تھا۔ جب میں اتنی چاہت اور مشقت سے یہاں پہنچا ہوں۔ جواب آیا فلاں شخص کے استقبال کے لیے گیا تھا۔ اب آپ اس کے معنی نہ پوچھنے بیٹھیے۔ اسے ایک مذہبی تجربہ یا واردات سمجھ لیجیے۔ جس میں کئی سبق ہیں۔ میں نے اپنی گفتگو میں بہت احتیاط برتی ہے۔ بہت گند اچھل رہا ہے اور بہت سا مزید اچھل سکتا ہے۔ فی الحال تو اسے چیف جسٹس کی عدالت تک رہنے دیجیے۔ اگرچہ مجھے شک ہے یہ وہاں تک نہیں رہے گا۔ آج پہلے روز بھی کارروائی میں جو باتیں آئی ہیں، وہ کسی طور خوشگوار نہیں ہیں۔ فرح کون تھی۔ اچھا وہ جس کے گھر خاتون اول کا نکاح ہوا تھا۔ اب اس کے بعد کہانی چل پڑے گی۔ خدا کے لیے اس سلسلے کو یہیں روکیے۔ لاہورئیے بڑے چرب زبان ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر دوسری اقلیم میں معاملہ چلا گیا تو بہت شور اٹھے گا۔ روحانیت اللہ کی امانت ہے، وہ اس کی بے حرمتی برداشت نہیں کر سکے گا۔ میں ایسے بزرگوں کو جانتا ہوں جو صاحب نظر بھی ہیں اور مستقبل میں جھانک سکتے ہیں۔ یہی نہیں مستجاب الدعوات بھی ہیں۔ اس بات کو یہیں رہنے دیجیے، یہ کوئی تشہیر کا کھیل نہیں ہے۔ مجھے تو لگتا ہے یہ ساری مصیبت آئی ہی اس لیے ہے کہ کچھ غیر متعلقہ لوگوں نے روحانیت کی اس مقدس قلمرو میں دخل اندازی کی ہے اور وہ بھی تشہیر کے دوش پر بیٹھ کر۔ خدا ہمیں اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ مجھے ڈر ہے یہ لوگ کہیں ملک کو اور ملک کے ساتھ ہمارے ’’بادشاہ‘‘ کو مشکل میں نہ ڈال دیں۔