سوچا تھا کہ کڑا دل کر کے نئی حکومت کے بطن سے پھوٹنے والے ممکنہ امکانات پر بات کروں گا‘ مگر لگتا ہے ابھی اس کا وقت نہیں آیا۔ ہو سکتا ہے‘عمران کی تقریر کے بعد روشنی کی کوئی کرن پھوٹے۔ یہ کام کرنے کے لیے میں نے جو دل کڑا کرنے کی بات کی ہے تو اس کا مطلب یقینا یہ نہیں کہ مجھے اس نئی حکومت سے کوئی بنیادی قسم کے اختلافات رہے ہیں۔ہاں ‘ البتہ میں نہ نواز شریف کے خلاف ہونے والی کارروائی کے حق میں تھا ‘اور نہ تحریک انصاف کے عملی طریقہ کار کا حامی تھا۔وگرنہ اس جماعت میں مرے اتنے دوست ہیں جنہوں نے زندگی میں وہی خواب دیکھے ہیں جو میں دیکھتا رہا ہو۔ پھر کیا مسئلہ ہے‘میں کیوں نئی حکومت کے امکانات کو جانچنے کے عمل کے بارے میں یہ سوچتا ہوں کہ یہ دل کڑا کرنے کے مترادف ہے۔ سیدھی سی بات ہے‘ میں نے اپنے دوستوں کو قلا بازیاں کھاتے دیکھا ہے۔ زیادہ بات کر کے اپنے ہی پیٹ کو ننگا نہیں کرنا چاہتا۔ مگر دکھ ہوتا ہے جب یہ دیکھتا ہوں کہ کس طرح ایک دانا و بینا شخص ہر بدلتی حکومت کی شان میں اسی طرح رطب اللسان ہو جاتا ہے جس طرح گزشتہ حکومت میں تھا اور اس شان سے تھا کہ صاف الفاظ میں آنے والی ممکنہ حکومت کے قریب بھٹکنے پر بھی آمادہ نہ تھا۔ روز طعنے سنتا ہوں اور دل نہیں کرتا کہ مرے دوستوں کو مرے بارے میں ایسے ہی طعنے سننا پڑیں۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں اس قوت سے اپنا نکتہ نظر ہی بیان نہ کر سکوں۔ اس خوف سے کہ لوگ کیا کہیں گے‘ کبھی سچ کہنے سے نہیں ڈرنا چاہیے مگر اس بات کا یقین کر لینا چاہیے کہ ایسا آپ صرف حق گوئی کے لیے کر رہے ہیں‘ کسی اور مقصد کے لیے نہیں۔ بہرحال آنے والے دنوں کے لیے خود کو تیار رکھنا چاہیے‘ اس توقع کے ساتھ کہ پاکستان کا سفر آگے کی طرف بڑھے گا اور بڑھتا ہی جائے گا۔ امکانات پر کیا بات کروں‘ ابھی تو نئی حکومت کے اقدامات ہی تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ بہت اہم ہوتا ہے کہ آپ کیسی ٹیم کا انتخاب کرتے ہیں۔ میں لکھ چکا ہوں کہ جس طرح کوئی شخص اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے‘ اس طرح کوئی لیڈر اس ٹیم سے اپنی شناخت کراتا ہے جو وہ اپنے لیے منتخب کرتا ہے۔ وہ یہ جواز پیش نہیں کر سکتا کہ یہ ٹیم مجھے بنی بنائی دے دی گئی ہے۔ عمران خان کی قیادت سے توقع کی جا رہی تھی کہ اپنی ٹیم کا انتخاب وہ خود کریں گے اور یہ انتخاب یقینا ان کی شخصیت کے شایان شان ہو گا۔ ابھی تک ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ دو صوبے پی ٹی آئی کے پاس ہیں دونوں کی قیادت کے انتخاب میں لیڈر شپ کا عزم و ارادہ ڈولتا ہوا دکھائی دیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں تو تحریک انصاف کی حکومت رہی ہے‘ وہاں بھی صوبائی سربراہ کا فیصلہ دل کو مطمئن کرتا محسوس نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ کہا گیا یہ عمران کا اپنا انتخاب نہیں ہے۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ چلیے‘ سیاست میں آپ کو افہام و تفہیم سے کام لینا پڑتا ہے بشرطیکہ یہ آپ کے مقاصد کو سبوتاژ نہ کرے۔ کے پی میں ہو سکتا ہے کہ کوئی ایسا نہ کر سکے۔ مگر پنجاب کا معاملہ ذرا نازک تھا۔ یہاں آپ نے کیا کیا۔ پرویز الٰہی اور چودھری سرور کے حصار میں ایک نو آموز کو پھنسا دیا۔ یہ بری بات ہو گی اگر نئے وزیر اعلیٰ کے خلاف محاذ کھول لیا جائے اتنا تو ہونا چاہیے تھا کہ اس کی کوئی خوبی بیان کی جاتی۔ یہ کیا بات ہوئی کہ وہ صوبے کے سب سے پس ماندہ علاقے سے ہے۔ آپ کہتے ہیں وہ پس ماندگی اور غربت کو سمجھتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اسے خبر ہی نہیں کہ ترقی و خوشحالی کا اصل ماڈل کیا ہوتا ہے۔ شہری قیادت کے فوراً بعد اگر آپ قبائلی قیادت لے آتے ہیں اور وہ بھی ایسی قبائلی جس کے بارے میں آپ یہ فرما رہے ہیں کہ یہ قبیلہ پس ماندہ ہے تو کوئی اس کی پس ماندگی کا سبب جان سکتا ہے۔ایسے علاقوں کی پس ماندگی قبائلی نظام یا قبائلی سردار ہوا کرتے ہیں۔ یہاں میں ایک بہت سخت بات کہنا چاہ رہا تھا‘ مگر اجتناب کر رہا ہوں۔ سب کو پتا ہے کہ انہیں وزیر اعلیٰ بنانے کا مقصد کیا ہے۔ یا تو وہ پراکسی ہے‘ دو سینئر لوگوں کے مفاد میں۔ شاید ان لوگوں میں ایک آدھ کا اور اضافہ ہو جائے۔ اصل حکومت عمران مرکز سے خود کرنا چاہتے ہیں۔ کے پی اور پنجاب کے ماڈل بتاتے ہیں کہ عمران یہ ماڈل اختیار کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ وہ پرویز خٹک کی مضبوط قیادت کے ماڈل سے خوش نہیں ہیں اگر ایسا ہوا تو یہ کوئی اچھا ماڈل نہ ہو گا۔ عمران کے ماڈل میں مرکز سے معاملات بیورو کریسی کے زور پر نہیں چلائے جائیں گے‘ بلکہ نام نہاد ماہرین یا ٹیکنو کریٹ کی ایک ٹیم کی مدد لی جائے گی۔ پر میرا خیال ہے‘ کوئی معلومات کی بنیاد پر ایسا نہیں کہہ رہا اس ماڈل پر بھی میرا اعتبار نہیں ہے۔ ایسا ماڈل عوام سے دور ہوتا ہے‘ کیونکہ غیر سیاسی ہوتا ہے۔ متوقع وفاقی کابینہ میں اس کے اشارے ملتے ہیں۔ لوگوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ آدھی کابینہ مشرف کے زمانے کی ہے۔ یہ بات تو سیاسی حوالے سے کہی جا رہی ہے۔ تاہم اس کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ وہ یہ کہ مشرف نے نام نہاد سول سوسائٹی یعنی این جی اوز کی مدد حاصل کرنا چاہی۔ یہ لوگ غیر سیاسی بھی ہوتے ہیں اور غیر انقلابی بھی۔ کبھی مشرف سے پہلے زبیدہ جلال کا نام سنا تھا اور اس کے بعد بھی کہیں ان کی گن سن ہوتی تھی۔یہ ٹیکنو کریٹ‘ یہ ماہرین‘ یہ سول سوسائٹی معاشرے اور حکومت کو غیر سیاسی بنانے کی سعی ہوتی ہے۔ لوگ اس بات پر بھی اعتراض کر رہے ہیں کہ پورٹ فولیوز کی تقسیم ایسے ہو رہی ہے کہ کسی شعبے کا سربراہ اس شعبے کا ماہر نہ ہو۔ ایسے ہی ہے جیسے ایک ڈاکٹر کو آپ پٹرولیم کی وزارت دے دیں۔ نظام بھی بگڑے گا اور وہ اور بہت کچھ بگاڑ کر رکھ دے گا۔ یہ میں نے ڈاکٹر عاصم کی مثال دی ہے۔ کسی نے خوب فقرہ کسا ہے کہ اس کابینہ میں ہر کوئی ہے۔ سوائے پی ٹی آئی کے اپنے نمائندے کے۔ سب مانگے تانگے کے ہیں۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی ابھی کل کلاں کو پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔ اس وقت جو صوبائی حکومتیں بنی ہیں‘ ان میں سب سے اچھی حکومت‘ جودکھائی دیتی ہے‘ سندھ کی ہے۔ اب اس صورت حال پر میں کیا تبصرہ کروں۔ پنجاب کی حکومت‘ بلکہ خیبر پختونخواہ کی حکومت کے بارے میں یہ کہا جاتاہے کہ یہ عارضی ہیں۔ یہ اصل آنے والے کے لیے اپنی نشست چھوڑ دیں گے۔ اصل وزیر اعلیٰ پنجاب میں بھی اور شاید خیبر پختونخوا میں بھی بعد میں آئے گا۔ پھر گویا مطلب یہ ہوا کہ اتنا وقت ضائع کیا جا رہا ہے لگتا ہے تحریک انصاف کی تیاری نہیں ہے۔ ایسا عمران کے اپنے انداز سے بھی لگتاہے۔ پہلے دن واسکٹ نہیں تھی۔ دوسرے دن شناختی کارڈ بھول آئے‘ تیسرے روز عینک زیر اچکن بڑی پائی گئی۔ گارڈ آف آنر کے بارے میں تو کچھ خبر نہ تھی۔ ایسا لا ابالی دوستوں کی پارٹی میں تو ہو سکتا ہے۔ ایک منظم جماعت میں ایسا نہیں ہونا چاہیے ابھی سے طعنے آنے لگے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سربراہ خاتم النبین کا لفظ ادا نہیں کر سکتا۔ ان کے حامیوں کا انداز بھی ملاحظہ فرمائیے کہتے ہیں ایسی مشکل اردو لکھنے کی ضرورت کیا تھی۔ اس پر کیا عرض کروں۔ شاید سلیم صافی نے بتایا ہے کہ کابل سے ایک دوست کا فون آیا ہے کہ ہمارا صدر نماز پڑھنا نہیں جانتا اور آپ کے وزیر اعظم کو خاتم النبین کا لفظ پڑھنا نہیں آتا۔ اللہ کرے ہم اس عبوری دور سے گزر کر ایک سیدھی راہ پر جلد گامزن ہو سکیں۔ کے پی میں یہی ہوا تھا کہ دو اڑھائی سال تو قانون سازی‘ منصوبہ بندی اور جانے ایسے کتنے کاغذی کاموں میں لگا دیے۔ جب عمل کا وقت آیا تو عرصہ عملاً ختم ہو چکا تھا۔ مجھے یہ بات بھی اچھی نہیں لگی کہ نئے وزیر اعظم‘ اپوزیشن کے احتجاج پر اتنے چڑ گئے کہ اپنی تقریر ہی بھول گئے اور غصے میں وہ تقریر کر گئے جو حزب اختلاف کے زمانے میں کنٹینر پر بیٹھ کر کی جاتی تھی۔ ایسا ہمیں شاہ محمود قریشی نے بتایا ہے کہ وہ کچھ اور کہنا چاہتے تھے آپ نے تقریر کرنے نہیں دی۔ اگر ایسا ہے تو یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ آپ کے قائد کو بھڑکا کر غلط رخ پر لگایا جا سکتا ہے۔ وہ بھی اس طرح کہ وہ اپنا مقصد بھول جائے یہ تو حزب اختلاف کی جیت ہو گی۔ اس ’’شن انجری‘‘shin injuryکے بعد ہمارے کھلاڑی کو فارم میں آ جانا چاہیے۔ زیادہ وقت ضائع کرنے کی گنجائش نہیں۔ لوگ جلد نتائج مانگنے لگے۔ ہمارے بھی ہیں کچھ خواب اور یہ خواب بہت ارفع و اعلیٰ ہیں‘ بہت بلند و بالا ہیں۔ یہ سب آپ کے دیے ہوئے ہیں پہلے چھ ماہ بہت اہم ہیں۔ میں 100دنوں کی بات نہیں کرتا۔ مجھے اب بھی یقین سا ہے کہ یہ ملک درست راستے پر چل پڑے گا۔ یہی آپ کی کامیابی ہو گی اور ان تمام ارادوں کی شکست جو اس ملک کے خلاف باندھے جا رہے ہیں۔ ایک بات جاتے جاتے اور ڈرتے ڈرتے عرض کرتا جائوں کہ اپوزیشن کو طاقت کے زور پر کچلا جا سکتا ہے نہ اسے ملک دشمن قرار دے کر۔ سب سے بڑا امتحان یہی ہو گا کہ آپ اپنے سیاسی مخالفوں کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ میں مشورہ دینے والا کون ہوں کہ آپ کیا کریں۔ صرف اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ یہ بہت بنیادی سوال ہے اور اس سوال کو ٹرخانے کی کوشش نہ کریں۔ راستے میں بڑے بڑے پتھر ہیں۔ یوں سمجھیے راستہ بہت دشوار گزار ہے۔