آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے پاکستان میں تعینات چین کے سفیرنونگ رونگ نے ملاقات کی۔ جس میں سی پیک‘ علاقائی سلامتی اور افغان امن عمل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ چین اور پاکستان کے مابین دیرینہ تعلقات ہیں، جس بنا پر چین ہر مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے جبکہ پاکستان بھی دوستی کا پورا حق ادا کر رہا ہے۔چین نے اپنی معیشت کو مضبوط بنایا ہے، اب چین نے اپنی مصنوعات کو سستے داموں دنیا بھر میں پھیلانے کے لئے سی پیک منصوبہ شروع کیا ہے ،یہ منصوبہ نہ صرف چین بلکہ جس جس ملک کی سرزمین سے گزرے گا ،اس کی ترقی کو چار چاند لگا دے گا۔ پاکستان میں اس منصوبے کی بدولت نہ صرف ملازمتوں کے مواقع پیدا ہو رہے بلکہ ہماری معیشت بھی اس سے مضبوط و مستحکم ہو رہی ہے۔سڑکیں تعمیر کی جا رہی ہیں جبکہ کئی مقامات پر اکنامک زون بھی بنائے جا رہے ہیں،اس سے نہ صرف ہماری معیشت مضبوط ہو گی بلکہ کاروبار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ کچھ عرصہ سے اپوزیشن جماعتیں تواتر سے یہ پروپیگنڈا کر رہی تھیں کہ پی ٹی آئی حکومت نے سی پیک کو بریک لگا دی ہے۔ترقیاتی کام رک چکے ہیں ،جو عوام کو گمراہ کرنے کے سوا کچھ نہیں ۔کیونکہ پی ٹی آئی کا اقتدار میںآنے کا اصل مقصد ہی عوامی فلاح کے لیے کام کرنا ہے ۔چینی سفیر بھی متعدد مرتبہ اس بات کا اعادہ کر چکے ہیں کہ سی پیک کا کام اپنی رفتار سے چل رہا ہے۔ اس میں کسی قسم کی رکاوٹ کا آنا پروپیگنڈے کے سوا کچھ نہیں ۔گزشتہ روز چینی سفیر نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کرکے سی پیک پر بھی تبادلہ خیال کیا کیونکہ سی پیک کی سکیورٹی پاکستان کے پاس ہے۔ جبکہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد افواج پاکستان کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے، جس بنا پرچینی سفیر نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ افغان امن عمل پر بھی تبادلہ خیال کیا کیونکہ چین سی پیک میں افغانستان کو شامل کرنے پر غوروخوض کر رہا ہے، اگر افغانستان میں امریکی انخلا کے بعد حالات خراب ہوتے ہیں، تو اس صورت میں چین کا منصوبہ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔سی پیک شروع کرنے کے لئے افغانستان سے انتہا پسندی‘ دہشت گردی اور متحارب گروپوں کی آپس میں لڑائی کا خاتمہ ضروری ہے۔ ابھی امریکہ نے افغانستان سے مکمل انخلا نہیں کیا کہ دوسری طرف امرا للہ صالح شمالی اتحاد کے جنگجوئوں کو اکٹھا کرنا شروع ہو چکے ہیں۔ گزشتہ روز طالبان کے زیر کنٹرول علاقے میں بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنانے والی تنظیم بالوٹرسٹ کے رضاکار جب کام سے چھٹی کے بعد اپنے کیمپوں میں جا رہے تھے، انھیں اکٹھا کر کے ایک کمرے میں بند کیا گیا بعد ازاں ان پر فائرنگ کی گئی، جس سے 10کارکن ہلاک ہو گئے۔اس کا مقصد دنیا کو یہ باور کروانا تھاکہ افغان طالبان نے ایک این جی او کے ورکروں کو قتل کیا ہے۔ یہ واقعہ اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ شمالی اتحاد کے کارندے ایسے لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جو طالبان کے زیر کنٹرول علاقے میں بارودی سرنگوں کا صفایا کر کے علاقے کو محفوظ بنانے میں جتے ہوئے ہیں۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے چین اور پاکستان کو مل کر کام کرنا چاہیے کیونکہ افغانستان کی بدامنی دونوں ملکوں کے لئے اچھی خبر نہیں ہے بلکہ اس بدامنی سے نہ صرف افغان مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہو گا،بلکہ سی پیک پر بھی برے اثرات مرتب ہونگے۔ اس لئے بین الافغان مذاکرات کے لئے ہمیں کردار ادا کرنا چاہیے اگر افغانوں کے مابین مذاکرات شروع ہو جاتے ہیں، تو اس سے خطے میں خوشحالی آئے گی، غربت اور پسماندگی کا بھی خاتمہ ہو گا۔ ویسے بھی افغانستان کو ترقی کی فوری ضرورت ہے اگر وہاں پر حالات کشیدہ رہے تو پھر وہاں پر ازسر نو تعمیر کا کام کیسے ہو گا؟ اس لئے افغان طالبان اور اشرف غنی حکومت کو فی الفور مذاکرات کی طرف آنا چاہیے تاکہ امریکی انخلا کے ساتھ ہی ایک مشترکہ حکومت تشکیل دے کر افغانوں کو خون ریزی سے روکا جا سکے۔ چین نے ایران میں اربوں ڈالر کے منصوبے شروع کر رکھے ہیں۔اگر افغانستان میں امن قائم ہو جاتا ہے، تو اس طرح کے ترقیاتی منصوبے وہاں پر بھی شروع ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح افغانستان میں کورونا ویکسین کا سلسلہ بھی شروع ہو جائے گا، دنیا کے تقریباً سبھی ممالک اس معاملے میں افغانوں کی مدد کرنے کے لئے تیار ہیں۔ چین نے مفت میں کورونا ویکسین پاکستان کو دی ہے اسی طرح وہ افغانوں کو بھی مدد کر سکتا ہے۔ پاکستان میں سی پیک کے منصوبے تکمیل کے مراحل میں ہیں،اگر افغانستان میں امن ہوتا ہے، تو یہ اس تسلسل کے ساتھ افغانستان میں بھی شروع ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس سلسلے میں اشرف غنی حکومت کو اپنے مشیروں پر کنٹرول رکھنا ہو گا کیونکہ شمالی اتحاد کے خیر خواہ غنی حکومت کے مشیر کبھی بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط نہیں ہونے دیں گے۔چند روز قبل ہی حکومت کے ایک عہدیدار نے پاکستان کے خلاف ایسی زبان استعمال کی جو تعلقات کشیدہ کرنے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہو سکتی ہے۔اشرف غنی کو اسے افراد کی دریدہ دہنی کا نوٹس لینا چاہیے تاکہ دونوں ممالک کے دوستانہ تعلقات قائم رہ سکیں ۔ اس کے علاوہ غنی حکومت اگر حقیقت میں افغانستان کی خوشحالی چاہتی ہے تو اسے دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔تاکہ افغان قوم خوشحالی کی جانب بڑھ سکے ۔