قانون سازی ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ قانون ایک دو یا چند افراد کیلئے نہیں بلکہ عمومی طور پر معاشرے کے سب افراد کیلئے بنایا جاتا ہے؛ ایک دو دن کیلئے نہیں، بلکہ مستقل نفاذ کیلئے ہوتا ہے؛ قانون نصیحتیں نہیں کرتا، بلکہ ایسے احکام دیتا ہے جن کی پابندی ضروری ہوتی ہے؛قانون میں تبدیلی کیلئے اتنی ہی محنت کی ضرورت ہوتی ہے جتنی قانون بنانے کیلئے درکار ہوتی ہے اور بعض اوقات قانون بناتے وقت کی گئی غلطی ایسی ہوتی ہے کہ اس کی اصلاح بعد میں بہت مشکل ہوجاتی ہے ۔ ہاتھوں سے لگائی گرہوں کو دانتوں سے کھولنا پڑتا ہے۔ ان امور کی بنا پر ساری دنیا میں یہ اصول تسلیم کیا گیا ہے کہ قانون بناتے وقت اچھی خاصی سوچ بچار کی جائے، اس سے پہلے اس پر مختلف نقطہ ہائے نظر رکھنے والوں کی آرا لی جائیں، انھیں دلائل دینے کا موقع دیا جائے، تفصیلی مباحثہ ہو، ایک ایک لفظ، بلکہ ایک ایک حرف، یہاں تک کہ نقطے اور شوشے پر بھی غور کیا جائے، تب کہیں جا کے اس کی منظوری دی جائے۔ پھر جمہوری اصولوں پر یہ بات بھی طے کی گئی ہے کہ قانون کی منظوری کا اختیار بھی کسی ایک یا چند افراد کے پاس نہ ہو بلکہ اس مقصد کیلئے باقاعدہ ایک ادارہ (مقنّنہ)ہو جہاں ہر فیصلہ کثرتِ رائے سے ہو۔ پاکستان سمیت کئی ممالک میں مقنّنہ کے دو ایوان ہوتے ہیں اور دونوں ایوانوں سے قانون کے مسودے کا منظور ہونا ضروری ہوتا ہے۔ پھر ہر ایوان میں مستقل موجود کمیٹیاں ہوتی ہیں جنھیں "قائمہ کمیٹیاں" کہا جاتا ہے۔ ان کمیٹیوں میں حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں کو نمائندگی دی جاتی ہے اور یہاں مسودات پر تفصیلی مباحثہ ہوتا ہے ۔ مختلف زاویوں سے مسودے کا جائزہ لینے اور ماہرانہ تجزیے کیلئے متعلقہ شعبوں کے ماہرین کو طلب کرکے ان کو بھی سنا جاتا ہے۔ یہ آخری پہلو بہت اہم ہے کیونکہ ایوان کے اندر تو صرف ارکان ہی بات کرسکتے ہیں، جبکہ کمیٹیوں میں ان لوگوں کو بھی بلایا جاسکتا ہے اور ان کی رائے لی جاسکتی ہے جو ایوان کے رکن نہ ہوں۔ پارلیمان سے منظور شدہ مسودے کو صدر کے دستخط کے بعد ہی قانون کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور صدر کسی مسودے کو غور کیلئے واپس پارلیمان کو بھیج بھی سکتا ہے۔ پھر قانون بن چکنے کے بعد بھی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ، نیز شریعت کورٹ، اسے آئین میں مذکور بنیادی حقوق یا قرآن و سنت میں مذکور اسلامی احکام سے تصادم کی بنیاد پر کالعدم کرسکتی ہیں۔ یہ ساری احتیاط اس لیے ضروری ہوتی ہے کہ معاملہ چاہے افراد کا ہو یا اداروں کا، آخری تجزیے میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کس کے حق کو ترجیح دی جائے کیونکہ کوئی بھی حق کبھی تنہا نہیں ہوتا بلکہ دوسرے حقوق کے ساتھ مقابلے میں ہوتا ہے۔ مثلاً تجارت کے سلسلے میں قانون بناتے وقت اگر کاروبار کی آزادی کے حق کو ترجیح دی جائے، تو معاشرے کے خوشحال لوگوں اور مراعات سے محروم طبقے کے درمیان تفاوت میں اضافہ ہوسکتا ہے، یا اگر اس تفاوت کو کم کرنے اور مساوات کے قریب جانے کی کوشش کی جائے تو کاروبار اور منافع کے حق پر قدغن لگائے جائیں گے۔ اس لیے قانون مختلف، اور بعض اوقات باہم متصادم، حقوق اور مفادات کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمارے ہاں عموماً اسمبلی کے آخری دنوں میں قانون سازی کی رفتار میں اضافہ ہوتا ہے اور کئی دفعہ پارلیمان اپنے قواعد کو معطل کردیتی ہے اور مسودات کو کمیٹیوں میں بھیجنے کے بجائے فوراً ہی منظور کرلیتی ہے، لیکن اس دفعہ تو ہماری پارلیمان نے دھڑا دھڑ قانون سازی کرکے اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ ایک ایک دن میں پچاس پچاس قوانین کے مسودات منظوری کے بعد ان میں بہت سارے مسائل کا رہ جانا حیران کن نہیں۔ آفیشل سیکرٹس ایکٹ ہی کی مثال لے لیجیے۔ اس قانون کا بنیادی ہدف "ریاستی مفاد کا تحفظ اور دفاع" یقینی بنانا ہے، لیکن اس مقصد کیلئے قانون سازی کرتے وقت فرد کے حقوق اور آزادی کا پہلو نظر انداز نہیں ہونا چاہیے۔ یہ قانون 1923ء میں، یعنی آج سے 100 سال قبل انگریزوں نے اس وقت بنایا تھا جب وہ آقا اور ہم غلام تھے۔ آج 2023ء میں جبکہ ہم ایک ایسی آزاد ریاست کے آزاد شہری ہیں جس کے آئین میں اظہارِ رائے کی آزادی، معلومات تک رسائی، سیاسی تنظیم سازی اور اجتماع کے حق سمیت بہت سارے "بنیادی حقوق" کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے،ضرورت تو اس امر کی تھی کہ اس قانون کو ان بنیادی حقوق کے تابع لایا جائے۔سینیٹر مشتاق احمد خان نے مسودے میں یہ ترمیم پیش بھی کی، لیکن وزیرِ قانون اور دیگر حکومتی ارکان نے یہ مطالبہ مسترد کردیا۔ حکومت کی جانب سے اس قانون میں جو ترامیم قومی اسمبلی سے بغیر بحث کے منظور کروائی گئی تھیں، ان میں خفیہ ایجنسیوں کو بغیر عدالتی وارنٹ کے گرفتاری کا اختیار بھی دیا گیا تھا۔ سینیٹ سے بھی یہ ترمیمی بل بغیر بحث کے منظور کرانے کی کوشش کی گئی لیکن سینیٹر مشتاق نے ان کے خلاف آواز بلند کی، تو مجبوراً اسے قائمہ کمیٹی بھیجا گیا جہاں گرفتاری کا اختیار دینے والی شق ختم کردی گئی لیکن بیشتر دیگر ترامیم جوں کی توں منظور کرائی گئیں۔مثلاً "دستاویز" کی تعریف میں وسعت دے کر بہت ساری چیزیں، یہاں تک کہ غیر تحریر شدہ" (خالی؟) کاغذ کو بھی اس میں شامل کرلیا گیا اور آخر میں "وغیرہ" کا لفظ بھی ڈال دیا گیا جس نے اس تعریف کو "بلینک چیک" بنا دیا اور اب اس میں کسی بھی چیز کو شامل کیا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی کسی دستاویز تک "بغیر اجازت رسائی" کی تعریف میں بھی وسعت پیدا کی گئی۔ یاد ہوگا کہ چند سال قبل ایک وکیل نے جب سپریم کورٹ کو ایک "ریگولیشن" کی کاپی دی تو اس کے بعد ان پر "آفیشل سیکرٹ ایکٹ" کی خلاف ورزی کا مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔ اب ان نئی ترامیم کے بعد کیا کچھ نہیں کیا جاسکے گا؟ اسی طرح آرمی ایکٹ میں ترامیم کے ذریعے کاروبار اور ترقیاتی منصوبوں میں فوج کے کردار کو قانونی سند دے دی گئی۔ پھر "نیشنل لاجسٹک سیل" کو باقاعدہ ایک "کمپنی" کی صورت دے کر اسے (ٹرانسپورٹ کا) "کاروبار" کرنے کا اختیار دینے کیلئے قانون منظور کروالیا گیا جس میں تصریح کی گئی کہ آرمی چیف کے مشورے پر وزیر اعظم کسی حاضر سروس میجر جنرل کو اس کمپنی کا ڈائریکٹر جنرل تعینات کرے گا! ایک اور انتہائی دور رس نتائج کی حامل قانون سازی "پر تشدد انتہاپسندی کے خاتمے" کے نام پر کی جارہی تھی لیکن اس پر سینیٹر مشتاق نے شدید تنقید کی، پہلے اسے چیئرمین سینیٹ نے "ڈراپ" کردیا، پھر ایک اور کوشش کی ناکامی کے بعد وزیرِ قانون نے اسے واپس لے لیا۔ پیمرا آرڈی نینس میں ترامیم کے ذریعے میڈیا پر پابندیوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہونا تھا لیکن اس پر بھی سینیٹر مشتاق نے مزاحمت کی تو اسے قائمہ کمیٹی میں بھیج دیا گیا اور پھر صحافیوں کے آواز بلند کرنے پر اس بل کو بھی واپس لے لیا گیا۔ سو سوالوں کا ایک سوال۔ کیا یہ اندھادھند کی جانے والی قانون سازی آئین سے متصادم نہیں ہے؟