مکرمی ! ایک بہت لمبا عرصہ ہم قلم دوات لیے گلی کوچوں سے نکل کر گرتے اٹھتے بھاگتے کبھی الٹی کبھی سیدھی سمت میں بغیر کسی سمجھ کے کورے صفحوں کی مانند تھے۔۔ سیاہی کے کئی دھبوں نے ہاتھ میلے کیے ۔کتابوں کو ہمارے مستقبل کا نام دے کر ایک ایسے راستے پہ چلانا شروع کیا گیا جہاں کورے کاغذ پہ سیاہی نے ایسے نقش بنائے ہوئے تھے جسے دماغ نے صرف ایک خواب جانا۔ہاتھ نے ایک تصویر کو پہچانا ۔مگر سمجھ بوج کی اس کشتی میں صرف ایک طالب علم سوار تا تھا ۔۔اس ڈور سے صرف ایک کتاب پڑھنے والا نا جڑا تھا ۔اس ڈور کی وہ ڈوری ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں تھی جو آسمان میں خواب اور اس خواب کے راستے میں ایک خزانے کی پہچان کراتا رہا تھا جو بار بار بتا رہا تھا راستے میں پتھر آئیں گے لیکن تم بچ جائو گے ۔پھر یوں ہوا قلم دوات، تختی،تختہ سیاہ ایک پین ،وائٹ بورڈ اور بورڈ مارکر میں بدلا۔۔مجھے لگ رہا تھا وہ ڈور چھوٹ گئی اچانک ایک روشن جبیں مسکراتی ہستی نے ان الجھنوں کو ایک رخ دیا ایک سمت دیکھائی اور اڑان میں ہاتھ پکڑ کر آگے آگے اڑانا شروع کیا اور پروان چڑھاتا گیا۔۔۔دماغ پلٹا وقت کے ان سنہرے لمحوں میں جہاں آسمان سے پہلے ایک خزانے کا زکر تھا۔جہاں کچھ پانے سے پہلے کچھ کرنے کے الفاظ تھے ۔ وہ آسمان تو میرا خواب تھا اور راستے میں وہ خزانہ میرا استاد تھا۔۔زندگی میں ادارے ان کا اسٹیٹس تبدیل ہو سکتا ہے مگر استاد کا رتبہ وہ ہر ادارے میں اس زمین کے ہر کونے سے لے کر عرش کے ہر پردے تک اول و اعلی ہے ۔۔استاد تو بہت ملے مگر وہ استاد جو آپ کو پڑھائی،اخلاق ،خوشیاں بانٹنے میں کامیاب کر جائے وہ آپ ہیں محترم استاد پائندے خان۔۔۔اللہ آپ کو زندگی اور آخرت کی ہر کامیابی سے نوازے آمین۔(جویریہ جاوید،پکی شاہ مردان)