فلسطین لہو لہو،غزہ خون میں ڈوبا ہوا۔امت مسلمہ اپنی مفادات کی اسیر۔او آئی سی ایک مردہ گھوڑا بن چکی ۔پاکستان کے جید علما کرام نے چندروز قبل کھل کر اپنے موقف کا اظہار کیا ۔کئی تجاویز بھی پیش کیں ۔ مگر حکومتی تجویز دوریاستی فارمولے کا سختی سے ردکیا ۔ شاعرمشرق علامہ محمد اقبال ؒ نے3جولائی 1937ء کوکہاتھا : عربوں کو چاہیے کہ اپنے قومی مسائل پر غوروفکر کرتے وقت اپنے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ یہ بادشاہ اپنے ضمیروایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کسی صحیح فیصلے پر نہیں پہنچ سکتے۔ بانی پاکستان قائد اعظم ؒنے 15ستمبر 1937ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لکھنومیں مسئلہ فلسطین پر تقریر کرتے ہوئے برطانیہ کو دغا باز قرار دیا تھا۔ 23مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور میں بھی مسئلہ فلسطین پر ایک قرار داد منظور کی گئی تھی۔ 28 نومبر 1947 کو سر ظفراللہ خان کا جنرل اسمبلی سے سوا گھنٹے خطاب کیا تھا:کہ اقوام متحدہ خطہ فلسطین اور فلسطینی عوام کے ساتھ وہ کام کرنے جا رہا ہے، جس کا اسے اختیار ہی نہیں ہے۔ یہ انھیں اک ایسی سمت کی جانب دھکیل رہا ہے ،جس کے بعد دشمنیوں کا ایک لا متناہی سلسلہ ہر حل کا راستہ روکے گا۔ہمیں بتایا جائے کہ اقوام متحدہ فلسطینیوں کی زمین پر ان کا اپنا ملک قائم کیے بغیر یہودیوں کا ملک کیسے قائم کرے گا؟ اقوام متحدہ کے پاس ایسا کرنے کا کیا اختیار ہے؟ آزاد ریاست کو ہمیشہ کے لیے اقوام متحدہ کی انتظامیہ کے تابع بنانے کے لیے قانونی اتھارٹی کیا ہے، کونسا قانونی اختیار ہے؟ بدقسمتی کے ساتھ فلسطین کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ایک عرب ریاست کے تین ٹکڑے کر دیئے گئے ۔ایک حصہ براہ راست فلسطینی اتھارٹی کے قبضے میں ۔ دوسرا حصہ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیلی ریاست کے مشترکہ کنٹرول میں ۔ تیسرا حصہ مغربی کنارے کے کل رقبے کا 62فیصد ہے،جو اسرائیلی ریاست کی مکمل دسترس میں ہے۔ مغربی کنارے کی کل آبادی کا 80فیصد فلسطینیوں پر مشتمل ہے۔ یہودی بستیوں کے علاوہ سرحد کے ساتھ ساتھ کنکریٹ کی ایک بلند دیوار تعمیر کی گئی ہے، جس سے فلسطینیوں میں قیدی ہونے کا احساس سلگتا ہے۔ دوریاستی فارمولہ یکطرفہ ہے ،اسے فلسطینی عوام نے مسترد کر رکھا ہے ۔یہ فارمولہ امریکہ اوربرطانیہ کاہے ،جو اس ناجائز ریاست کے بانی ہیں ۔بانی پاکستان سے لیکر آج تک کسی بھی پاکستانی حکومت نے ’’ دو ریاستی فارمولے‘‘ کو تسلیم کیا نہ ہی اس کی سپورٹ کی ۔چند دنوں سے اسلام آباد کے کونوں کھدروں سے یہ آوازیں نکل رہی ہیں کہ ’’دو ریاستی فارمولے ‘‘ کی حمایت کی جاتی ہے۔ پاکستانی عوام ایسی سازشوں کو مسترد کرتے ہیں ۔ اسلام آباد کے جناح کنونشن سنٹر میں اتحاد امت پاکستان کے تحت حرمت اقصی کانفرنس میں ملک بھر کے جید علما کرام نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ :’’ فلسطین فلسطینیوں کا وطن ‘‘ یہی فارمولامسئلہ فلسطین کا قابل عمل اور واحد منصفانہ حل ہے۔1948ء کا فلسطین جہاں مسلمان، عیسائی، مقامی فلسطینی یہودی اور دیگر مذاہب کی اقوام آباد تھیں یہی اصل فلسطین ہے۔اسرائیل صہیونیوں کی ایک غاصب اور جعلی ریاست کا نام ہے۔فلسطین کے عوام کو حق خود ارادیت کے استعمال کی آزادی دی جائے، فلسطین سے جبری جلا وطن کئے لاکھوں فلسطینیوں کو فلسطین واپس آنے کا حق دیا جائے۔ حرمت مسجد اقصی کانفرنس کے اعلامیہ کے مطابق مختلف مسالک کے علما نے غزہ پر اسرائیلی مظالم کی شدید مذمت کی۔عظیم اجتماع میں اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات کا مطالبہ کیا گیا۔تحریک اتحاد امت کے اجتماع میںمولانافضل الرحمان،مفتی محمدتقی عثمانی،مولنا احمد لدھیانوی ،سراج الحق،مفتی منیب الرحمان، پروفیسر سینیٹر ساجد میر اوروفاقی وزیر مذہبی امور انیق احمد اوراعجاز الحق سمیت دیگر علما کرام نے شرکت کی۔ وفاقی المدارس کے ناظم اعلیٰ قاری حنیف جالندھری کاکہنا تھا : یہ پہلا متحدہ اجتماع ہے جسمیں تمام دینی طبقات شامل ہیں۔اس اجتماع سے ایک بڑا پیغام جائے گا۔مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس صرف فلسطین عربوں کا نہیں پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔مسجد اقصیٰ پر مسلمانوں کا حق ہے۔یہ دوریاستی حل نہیں ہے صیہونیوں نے ناجائز قبضہ کیا ہے۔اسرائیل ایک ناجائز بچہ ہے۔ مفتی منیب الرحمان کا خطاب میں کہنا تھا: غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر انسانی حقوق کا راگ الاپنے والی تنظیمیں کہاں ہیں۔صرف 5 ممالک پوری دنیا کے فیصلے کر رہے ہیں۔ قومی کانفرنس برائے حرمت اقصیٰ سے پروفیسر سینیٹر ساجد میر کا خطاب میں کہنا تھا: ایک صدی فلسطینی مظالم کا شکار ہیں۔ دنیافلسطین کا مسئلہ کشمیر کی طرح بھلا چکی تھی۔فلسطین کا مسئلہ دوبارہ زندہ ہوا ہے، مجاہدین کی قربانیاں رنگ لائیں گی۔ مولنا فضل الرحمن نے ایک عظیم مدبر سیاستدان ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ،علما کرام کے تمام مطالبات کی نہ صرف تائید کی بلکہ فلسطین کی ہر معاملے میں مدد کرنے کا بھی اعلان کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح تمام سیاست دانوں سے زیادہ با بصیرت اور زیرک انسان تھے۔آپ نے فرمایاتھا:اسرائیل ایک غاصب اور ناجائز ریاست ہے ۔ 1993میں اوسلومعاہدے کے بنیادی نکات میں دوریاستی فارمولہ بھی شامل تھا۔ اس وقت نیتن یاہو اسرائیل میں دو ریاستی فارمولے کے سخت مخالفین میں تھا ۔دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعدصیہونیوں کو ایک مخصوص ریاست دینے کے لیے صیہونیوں کے مذہبی استعمال پر اقوام متحدہ کے سہارے اسرائیل وجود میںآیا۔ ان مغربی طاقتوں نے جنگیں کرکے اورمعاہدے کرکے دونوں طریقوں سے عربوں اور مغربی ایشیا کے مسلمانوں اورمسلم ملکوں کو تقسیم کیا۔ 1915میں عرب ملکوں سے وعدہ کیاگیا کہ وہ سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کرتے ہیں ان کو آزاد کردیاجائے گا۔اس معاہدے میں برطانیہ پیش پیش تھا بعدازاں فرانس اور برطانیہ نے خفیہ منصوبہ بندی کرکے پورے خطے کو منقسم کرنے پر اتفاق کیا۔ ادھر1917میں یہودیوں سے وعدہ کیا گیا کہ ارض فلسطین ان کے لیے علیحدہ ریاست بنادیں گے۔اس وقت کئی یوپی ملکوں کی طرح عرب فرانس اوربرطانیہ نے آپس میں طے کرلیا کہ وہ کن کن ممالک میں اپنی حکومتیں کریں اور کن ملکوں کو دوسروں کے لیے چھوڑ دیں گے اور 1920میں جب برطانیہ نے فلسطین پر پورا قبضہ جمالیا تو یورپ کے مختلف ملکوں میں منقسم یہودیوں کومنصوبہ بند طریقے سے یہاں لاکر بسانا شروع کردیا۔ اس وقت فلسطین کی سرزمین میں مقامی یہودیوں کی آبادی محض9فیصد تھی۔ مغربی طاقتوں بطور خاص برطانیہ اورفرانس نے اس علاقے کو یہودی آبادی سے پر کرنا شروع کردیا۔ 1935تک یہ سلسلہ چلتا رہا ۔بعدازاں 1947 میں مغربی طاقتوں نے اپنے غلبہ والی اقوام متحدہ پرذمہ داری منتقل کردی کہ وہ اس کے بچے ہوئے ’مشن‘ کو پورا کردے۔ اس سے اسرائیل کے قیام کو قانونی جواز بھی فراہم کردیاگیا۔ اس منصوبے کے مطابق یہودی ریاست اسرائیل کا فلسطین کی 65فیصد آبادی پرقبضہ ہوگیا۔ اس وقت فلسطین میں صرف500,000فلسطینی آبادی رہ گئی تھی۔ آج اسرائیل میں اسرائیل کی آبادی کا محض19فیصد رہ گئے ہیں اور یہ آبادی کل اسرائیلی سرزمین (مقبوضہ فلسطین) کے 3فیصد میں مقید ہوکر رہ گئے ہیں۔ ایک سادہ سا اصول ہے ،کوئی آدمی آپ کے گھر پر قبضہ جما لے تو کیا آپ اسے آدھا گھر دینے پر تیار ہو جائیں گے ؟