امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پاکستان پر معاشی مہربانیوں کی تاریخ بہت تلخ ہے۔ بار بار ان ڈالروں کی بارش نے میرے وطن کو خون میں نہلایا ہے۔ ان مہربانیوں اور عنائتوں کے بیس سال ختم ہوئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے۔ گیارہ ستمبر 2001ء سے پہلے ہم ایسے معتوب تھے، کہ امریکہ ہمیں بھیک نما امداد تو دُور کی بات ہے، ہمیں اس قیمت کے بدلے بھی ہتھیار، ایف سولہ جہاز اور پُرزہ جات بیچنے کو تیار نہیں تھا جو ہم نے عین اس کی ’’مہربانیوں‘‘ کے دور یعنی روس کے خلاف جنگ کے دوران ایک معاہدے کے تحت ادا کی تھی۔ پاکستانی وزیر خارجہ عبدالستار امریکی دورے سے ناکام و نامراد لوٹا۔ امریکی صدر بل کلنٹن مارچ 2000ء میں بھارت کے دورے پر آیا تو اس قربانیاں دینے والے ملک پاکستان کے دفتر خارجہ کی منتوں سماجتوں کے باوجود بھی اس نے یہاں اپنا کوئی سرکاری دورہ نہ رکھا بلکہ صرف چند گھنٹے قیام کیا اور پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن سے پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے انہیں نصیحتیں کیں اور چلا گیا۔ مگر 2016ء میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے اس راز سے پردہ اُٹھایا کہ ’’بل کلنٹن کے دورے کا اصل مقصد نواز شریف کو موت کی سزا سے بچانا تھا‘‘۔ کلنٹن کے دورے کے فوراً بعد اپریل کے مہینے میں عدالت نے ’’ہائی جیکنگ کیس‘‘ میں نواز شریف کو موت کی بجائے عمر قید کی سزا سنائی اور اس کے خلاف حکومت اپیل میں چلی گئی۔ اپیل کی شنوائی تک نوبت ہی نہ آئی اور بل کلنٹن کی مہربانیوں اور اس کے سعودی اور قطری کرم فرمائوں کی بدولت ایک رات نواز شریف عازمِ سعودی عریبیہ ہو گئے اور پرویز مشرف اپنی تقریر میں خجالت سے دانت پیستا رہ گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس ’’خدمت‘‘ کے بدلے پاکستان کو کچھ عرصے کے لئے سعودی عرب سے اُدھار تیل کی سہولت تو میسر آ گئی، مگر ہماری معاشی مشکلات جوں کی توں رہیں۔ پاکستان نے اپنی روس کے خلاف جنگ میں خدمات یاد کرواتے ہوئے، ایک بار پھر مدد کی درخواست کے لئے ستمبر 2001ء کے آغاز میں ہی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل محمود کو امریکہ بھیجا، لیکن انہیں بھی ناکام و نامراد رُخصت کر دیا گیا تھا، مگر اگلے ہی دن گیارہ ستمبر 2001ء کو نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا واقعہ ہو گیا اور ہم پر مہربانیوں اور عنائیتوں کی بارشیں شروع ہو گئیں۔ اس عنایاتِ خسروانہ سے پہلے ہم پر دس سال بہت سخت بیتے تھے۔ وہ امریکی صدر جو کبھی اسّی کی دہائی میں ہر چھ ماہ بعد کانگریس کو ایک ایسا سر ٹیفکیٹ دستخط کر کے جمع کرواتا تھا، کہ پاکستان کسی بھی قسم کے ایٹمی ہتھیار بنانے میں مصروف ِ عمل نہیں ہے، اُسی امریکی صدر نے افغانستان سے آخری روسی سپاہی کے جانے کے بعد کانگریس سے یہ درخواست کی کہ چونکہ پاکستان ایٹمی ہتھیار بنانے میں مصروف ہے اس لئے اس پر پابندیاں لگا دی جائیں۔ اس کی درخواست منظور کرتے ہوئے 1990ء میں ہم پر پابندیاں لگیں اور پھر 1998ء میں جب ہم نے ایٹمی دھماکہ کیا تو ہمیں ان ملکوں کی فہرست میں شامل کر دیا گیا جن پر ’’ایٹمی دھندے‘‘ کی وجہ سے سخت پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ لیکن گیارہ ستمبر 2001ء آیا تو اس کے فوراً بعد ہم سے ’’مشہور سات نکاتی مطالباتی پیکیج‘‘ تسلیم کرنے کو کہا گیا جس کے بارے میں امریکی اُمیدیں یہ تھیں کہ ہم ان میں سے شاید دو سے تین مطالبات مان لیں گے، لیکن پرویز مشرف نے انہیں حیران کرتے ہوئے ساتوں کے ساتوں مطالبات بسروچشم تسلیم کر لئے۔ اس ’’عظیم فدویانہ سرنڈر‘‘ کے فوراً بعد ہی ہم پر سے وہ تمام پابندیاں ایک دَم اُٹھا لی گئیں جو ایٹمی دھماکے کرنے کی وجہ سے لگی تھیں۔ حالانکہ ہم بھی وہی تھے اور ہمارا ایٹم بم بھی ویسے ہی تھا، لیکن اب ہماری سرزمین کی ضرورت تھی اور ہمارے ’’جوانانِ کار‘‘ بھی چاہئے تھے، تو ہم پر نوازشات شروع ہو گئیں۔ چند ماہ کے اندر ہی امریکہ نے پاکستان پر ڈالروں کی بارش شروع کر دی۔ دو سال یعنی 2002ء اور 2003ء میں ہمیں ڈیڑھ ارب ڈالر دیئے گئے جبکہ جون 2003ء میں جارج بش نے تین ارب ڈالر کے ایک پانچ سالہ پیکیج کا اعلان کر دیا۔ اسی ماہ یعنی 24 جون 2003ء کو پرویز مشرف کو امریکی صدر نے اپنی کیمپ ڈیوڈ والی رہائش گاہ پر بُلا کر دنیا بھر کے صحافیوں کے سامنے اس کا ہاتھ پکڑ کر "A Friend of United State" ’’امریکہ کا ایک دوست‘‘ کہا۔ مشرف کے اس دورے کے دوران دو عدد معاہدوں پر بھی دستخط ہوئے جس کے تحت ہمیں کاروباری سہولیات دی گئیں۔ صرف پانچ کروڑ ڈالر کی سالانہ امداد کے بدلے ہم نے پاکستان کی سرزمین کو بارود کی بُو اور خون کے دھبوں سے بیس سال آلودہ کئے رکھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے یہ بیس سال پاکستانی تاریخ کے بدترین سال تھے۔ ہم نے اپنا امن، سکون، اطمینان اور خوشحالی سب کچھ امریکی خواہشات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ستر ہزار شہریوں اور سات ہزار کے قریب سیکورٹی ممبران کی قربانی کے باوجود، امریکی بے وفائی کا عالم یہ تھا کہ اس کی سرپرستی میں افغانستان کی سرزمین سے ہم پر بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے قبائلی علاقوں میں باقاعدہ بھارتی سفارت خانوں کی مدد سے مسلسل دہشت گردی ہوتی رہی۔ اس جنگ کے آخر میں ہمارے ہاتھ کیا آیا، ایک زخم خوردہ پاکستان اور مغربی سرحدوں پر آباد اپنے مسلمان پڑوسی کی بداعتمادی، جو ہمیں اپنی بیس سالہ جنگ میں دشمنوں کا ساتھی سمجھتا رہا۔ افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد دونوں ملکوں میں جیسی ہم آہنگی کی فضا پیدا ہونا شروع ہوئی تھی، اس کے بعد، عالمی سیاست کا ایک ادنیٰ سا طالب علم بھی یہ اندازہ کر سکتا تھا کہ اس معمولی سی دوستی کو بھی امریکہ پسند نہیں کرے گا۔ اگست 2021ء سے ہم سے ایک بار پھر 2001ء والے مطالبات شروع کر دیئے گئے۔ امریکہ چاہتا تھا کہ ہم اسے افغانستان پر ’’گہری نظر‘‘ رکھنے کے لئے زمینی اور فضائی سہولیات فراہم کریں۔ جبکہ دوسرا مطالبہ وہی تھا کہ ہم چین کی طرف دیکھنے کی بجائے بھارت سے اپنے تعلقات کو بہتر بنائیں۔ یہی مطالبات ہم سے 2001ء میں بھی کئے گئے تھے اور ہم نے امریکہ کو ان دونوں معاملات میں جب یقین دلا دیا تو پھر ہمارے لئے امریکی امداد کی راہیں ہموار ہو گئیں۔ امریکی کانگریس کو 4 اپریل 2003ء کو جو رپورٹ پیش کی گئی اس کے الفاظ یوں تھے۔ "The United States received a June 2002 pledge from Islamabad that all "cross-border terrorism" will be ended, and it encourage a cease-fire along the Line of Control and renewed dialogue between Islamabad and New Delhi." ’’امریکہ کو جون 2002ء میں اسلام آباد کی طرف سے یہ عہدنامہ وصول ہوا، کہ وہ اپنے بارڈر کے پار ہر قسم کی دہشت گردی کو ختم کر دے گا اور بھارت پاکستان لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کی حوصلہ افزائی کرے گا اس کے ساتھ ہی وہ اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان مذاکرات کا آغاز بھی کرے گا‘‘۔ اس اقرارنامے کے بعد ہی پاکستان کی مدد کا آغاز کیا گیا۔ آج بھی کچھ نہیں بدلا، مطالبات بھی وہی ہیں اور ہمیں ہدایات بھی ویسی ہی مل رہی ہیں۔ ان ہدایات پر عمل درآمد تو عمران خان کی حکومت بدلنے سے ایک سال پہلے ہی اس وقت شروع ہو گیا تھا جب جنرل باجوہ نے ملک بھر کے صحافیوں کو بُلا کر ان کے سامنے یہ عرضداشت پیش کی تھی کہ ہمارے ٹینک بوسیدہ اور معاشی حالات خراب ہیں اور ہم بھارت سے جنگ نہیں لڑ سکتے، اس لئے آپ لوگ رائے عامہ ہموار کریں۔ (جاری ہے)