کراچی کی زندگی میں شاید بہت سے لوگوں کی نظر میں وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جب دارالحکومت کراچی سے منتقل ہوا۔اکتوبر 1958ء میں ایوب خاں نے عنان اقتدار سنبھالنے کے بعد اس بات پر بڑی سنجیدگی سے غور شروع کر دیا کہ کراچی وفاقی دارالحکومت کے لئے موزوں شہر ہے بھی یا نہیں۔آزادی کے بعد سے لے کر اگلے دس سال میں اس شہر میں بھارت سے ہجرت کر کے آنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا تھا۔کم وسائل کے باوجود لوگوں میں نئے ملک میں آزادی کا تصور ایک بڑا رومان پرور تھا۔نئی بستیوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ شہر کا چہرہ نکھر رہا تھا۔31جنوری 1959ء کو میجر جنرل یحییٰ خان کی صدارت میں ایک اعلیٰ سطحی کمیشن قائم کیا گیا جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ کراچی کی کاروباری‘ صنعتی‘ رہائشی ضروریات‘ امکانات اور مستقبل میں ان کے پھیلائو کا جائزہ لے۔اندازہ کیا جائے کہ گنجان بستیوں پر مشتمل یہ شہر آئندہ سالوں میں کن مسائل سے دوچار ہو سکتا ہے اور کیا ایسی صورتحال میں ایک پرامن اور پرسکون دارالخلافہ کے طور پر کراچی اپنی اٹھان کی رفتار ، وقار اور شان و شوکت کو برقرار رکھ سکے گا جس کی ضرورت آنے والے وقت میں مختلف شعبوں میں پڑ سکتی ہے۔بالآخر 12جون 1959ء میں نتھیا گلی میں منعقدہ اعلیٰ اختیاراتی اجلاس میں باضابطہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ راولپنڈی کے قریب سید پور قصبے میں 22مربع میل کے رقبے پر پاکستان کے نئے دارالحکومت کی تعمیر کی جائے گی۔ابتدائی طور پر ضروریات کے لئے 1200رہائش گاہوں کی تعمیر اور چند درجن دفاتر کی تعمیر کے آغاز کا فیصلہ کیا گیا ان عمارات کی تعمیر کے لئے ابتدائی طور پر 50کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا گیا تھا اسپیشل ٹرینوں کے ذریعے وفاقی ملازمین کو کراچی سے راولپنڈی شفٹ کیا گیا۔ ایسے تمام ملازمین کو دو ماہ کی پیشگی تنخواہیں ادا کی گئیں۔20اکتوبر 1959ء کو پہلی اسپیشل ٹرین وفاقی ملازمین کو لے کر راولپنڈی روانہ ہوئی۔راولپنڈی پہنچنے پر ریلوے اسٹیشن پر وفاقی ملازمین کو شاندار انداز میں خوش آمدید کہا گیا۔انجن کو پھولوں سے لاد دیا گیا۔فوجی بینڈ بجائے گئے اور اسٹیشن پر تمام مسافروں کی پرتکلف خاطر تواضع کی گئی ۔اس موقع پر صدر ایوب نے ایک مختصر لیکن جذباتی تقریر میں کراچی کے عوام کی محبتوں اور شفقتوں کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں کے ذہنوں میں اپنی ترقی و خوشحالی کے حوالے سے کسی قسم کے خدشات اور اندیشے نہیں ہونے چاہئیں۔یہ شہر صنعت و تجارت کا سب سے بڑا مرکز اور پاکستان کی واحد بندرگاہ ہے۔ آپ کے لئے میں ہمیشہ نہ صرف نیک تمنائوں کا اظہار کرتا ہوں بلکہ آپ کی ترقی اور خوشحالی کے لئے حکومت ہر ممکن کام کرے گی۔اس لئے میں آپ سب کا اور اس بڑے شہر کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ اس طرح دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہو گیا۔یہ وہ دور تھا جب آزادی کی اس سرزمین پر سلطنت برطانیہ کا سورج غروب ہوئے ایک دھائی کا عرصہ ہی گزرا تھا۔ آزادی کی روشنی کی طرف لپکنے والے ہزاروں مہاجرین کے لئے یہ صبح امید کا دور تھا ۔ان لوگوں کے لامتناہی خواب تھے۔ ایسے لوگ جن کے دل میں ایک نئی زندگی کی امید اور اپنے نئے ملک پاکستان میں ایک نئی ابتدا کے عزم سے لبریز تھے۔ وہ ملک جسے بے مثال جدوجہد اور عظیم قربانیاں دے کر حاصل کیا گیا تھا۔ اپنے لئے سائبان، ملازمت، اپنے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کی خواہش ہر خاندان کی سوچ کا مرکز تھی۔در حقیقت ہندوستان سے ہجرت کرنے والوں کا اپنا ایک پس منظر تھا۔ اپنی اقدار‘ تہذیب و تمدن تھا ۔اب ایسا لگتا ہے بہت کچھ بدل گیا ہے ۔کچھ امیدیں پوری نہیں ہوئیں اور کچھ بکھر گئیں۔ایوب خان کے دور میں کراچی میں صنعتی ترقی کے نئے باب کا اضافہ ہوا یہاں مختلف نئی صنعتیں قائم ہوئیں ۔سائٹ کے پورے علاقے میں 60اور 70کی دہائی میں کارخانوں کی چمنیوں سے اٹھتے دھوئیں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ ملک ترقی کر رہا ہے، پیداواری صلاحیت اور استعداد بڑھ رہی ہے ۔کارخانوں کے باہر مین گیٹ پر اس دن مزدوروں کی ضرورت کا بورڈ بھی آویزاں نظر آتا۔جو دہاڑی والے مزدوروں کے لئے ایمپلائمنٹ ایکسچینج ثابت ہوتا تھا۔یہ ایک پرسکون‘ محفوظ اور ترقی کرتا کراچی تھا۔ایوب خان کے اقتدار کے ابتدائی سالوں کو آج بھی پرانے لوگ اس حوالے سے یاد کرتے ہیں جب کسی کی مجال نہیں تھی کہ کوئی ملاوٹ کر سکے یا حکومت کے طے کردہ نرخوں سے کوئی چیز مہنگی بیچ سکے۔پورے شہر میں صرف 13تھانے تھے۔ آپ ایک سرے سے دوسرے سرے تک چلے جائیں پولیس کی کوئی گاڑی کوئی ناکہ اور کوئی پوچھ گچھ پوائنٹ دکھائی نہیں دیتا تھا ۔کیونکہ لوگوں کو پتہ تھا کہ قانون توڑنے کی سزا کیا ہوتی ہے ۔لیکن جب ایک دہائی اقتدار میں رہنے کے بعد ایوب خان کے خلاف تحریک چلی تو کراچی نے اس میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔ اس کی بے شمار وجوہات کے ساتھ ساتھ کراچی کا مقامی اور قومی سیاست میں متحرک کردار تھا ۔بھٹو صاحب کا دور اس اعتبار سے ہمیشہ یاد گار رہے گا کہ اس کے دوران ہزاروں پاکستانی جوق در جوق ملازمتوں کے حصول کے لئے مشرق وسطیٰ کے ممالک کا رخت سفر باندھ رہے تھے۔آمدنی میں اضافے کے سبب اس کے براہ راست خوشگوار اثرات پاکستان بھر کے طرز معاشرت اور رہن و سہن پر نمودار ہوئے یعنی آمدنی کے اضافے نے Stadard of livingمیں بہتری لانا شروع کر دی۔ دوسری طرف بھٹو صاحب کی نیشنلائزیشن کی پالیسی نے ترقی کرتی صنعتی ترقی اور بنکنگ کے شعبے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور صنعتی شعبے میں جس رفتار سے ترقی اور سرمایہ کاری کے امکانات روشن تر ہو رہے تھے اس میں بریک لگنی شروع ہو گئی۔یہ بھی عجیب بات تھی کہ جس وقت بھٹو صاحب نیشنلائزیشن کی پالیسی کو نافذ العمل کرنے کی کوشش کر رہے تھے اس وقت دنیا ڈی نیشنلائزیشن کی پالیسی پر گامزن تھی۔پرائیویٹائزیشن کا عمل توانا ہو رہا تھالیکن مسلم امہ کے پاکستان کے ساتھ انتہائی خوشگوار تعلقات کے سبب پاکستان کی مالیاتی بیلنس شیٹ مستحکم رہی۔ہاں لیکن سرمایہ کار ی کے رجحان پر منفی اثرات مرتب ہو رہے تھے ۔ ساتھ ساتھ روس کے تعاون سے کراچی میں اسٹیل مل کا قیام بھٹو صاحب کی ایک بڑی کامیابی تھی جس کے سبب اس صنعت میں پاکستان پر خوشگوار اثرات مرتب ہوئے۔ بھٹو صاحب کے دور میں لینگوئج بل اور بعد میں کوٹہ سسٹم کے اجراء نے بھی کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں اور دیہی علاقوں میں لسانی بنیادوں پر ایسی خلیج کی بنیاد ڈالی جس نے سندھ کی معاشرت‘ تمدن اور تہذیب میں نئے سوال کھڑے کر دیے اور صوبے میں لسانی بے چینی کو ہوا دی۔ان عوامل کی متعدد وجوہات ہیں اور یہ تقسیم شکوے شکایتوں اور اپنے اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ نت نئی الجھنوں اور غلط فہمیوں کا سبب بنی اور کراچی اس سے براہ راست سب سے زیادہ متاثر ہوا۔