متحدہ قومی موومنٹ نے انتخابات اور آئندہ حکومت سازی میں تعاون کے لئے منتخب مقامی حکومتوں کے اختیارات کی وسعت اور تحفظ کے لئے دستور میں چھبیسویں ترمیم کے لئے تجاویز کو بنیاد بنایا ہے۔ مجوزہ آئینی ترمیم کے مقاصد اور اس کے سیاسی اور آئینی مضمرات کیا ہو سکتے ہیں اور یہ وفاق کی سلامتی اور مستقبل کے لئے کتنی اہم ہے ۔اس کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔پاکستان ایک وفاقی ریاست ہے ۔آئینی طور پر اس کا حکومتی ڈھانچہ تین سطحی ہے ۔بالائی سطح پر وفاقی حکومت ،اس کے بعد صوبائی حکومت اور اس کی تیسری سطح مقامی حکومت پر مشتمل ہے ۔ بیشتر ترقی یافتہ ریا ستیں اس حکومتی تقسیم پر کامیابی سے عمل پیرا ہیں۔پاکستان میں منتخب مقامی حکومتیں آئینی تقاضہ ہیں۔ 1973 کے آئین کی شق 32 اور 140 ۔ اے میں مقامی حکومتوں کے قیام کی راہ ہموار کی گئی ہے ۔ اس آئین کی شق 32 کے الفاظ ہیں ’’ مملکت متعلقہ علاقوں کے منتخب نمائندوں پر مشتمل بلدیاتی اداروں کی حوصلہ افزائی کرے گی اور ایسے اداروں میں کسانوں، مزدوروں اور عورتوں کو خصوصی نمائندگی جائے گی۔‘‘ اسی طرح اس آئین کی شق 140 ۔ اے کے مطابق ’’ ہر ایک صوبہ قانون کے ذریعہ مقامی حکومت کا نظام قائم کرے گااور سیاسی ،انتظامی اور مالیاتی ذمہ داری اور اختیار مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو منتقل کردے گا۔ ‘‘ تاہم پاکستان میں اس آئینی تقاضے کو کم ہی اہمیت دی گئی ہے۔ اس ضمن میں دلچسپ حقیقت یہ رہی ہے کہ جمہوری حکومتوں کے ادوار میں اس کا قیام یا تو بالکل نظر انداز کیا گیا یا پھر انہیں بہت محدود مالیاتی اور انتظامی ختیارات کے ساتھ قبول کیا گیا۔ البتہ فوجی حکومتوں نے ( مصلحتا ہی سہی ) اس کے قیام پر زیادہ توجہ دی ہے۔ 1958میں ماشل لاء کے نفاذ کے بعد ایوب خان کی فوجی حکومت نے 1962 میںصدارتی طرز کا آئین نافذ کرتے ہوئے مقامی سطح پر منتخب نمائندوں کے ذریعہ بنیادی جمہوریت پر مبنی نظام کو متعارف کرایا جو 1969 میں ان کی حکومت کے اختتام تک ہی چل سکا ۔ 1969سے 1971تک یحییٰ خان کے ما رشل لا ء کا دور انتہائی ہنگامہ خیز رہا ۔اس کے بعد دسمبر 1971سے 1973تک ذوالفقار علی بھٹو کا ایک عبوری سیاسی دور رہا ۔ اگست 1973میں نئے آئین کے نفاذ کے بعد جولائی 1977تک سیاسی دور میں مقامی حکومتوں کے قیام پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔1977 میں آئین کو معطل کرتے ہوئے فوجی حکومت قائم ہوگئی۔جنرل ضیاء الحق نے 1979 میں منتخب بلدیاتی نمائندوں کے ذریعہ مقامی حکومت کے نظام کوایک بار پھرفعال کیا 1988 سے 1999 تک کے سیاسی حکومتوں کے ادوار میں یہ نظام ایک بار پھر تعطل کا شکار ہوگیا۔1999 میں جنرل پرویز مشرف نے سیاسی حکومتوں کا خاتمہ کرتے ہوئے اقتدار حاصل کرلیا۔ان کے اس غیر جمہوری اقدام سے قطع نظر یہ بات ان کے لئے لائق تحسین سمجھی گئی جب انہوں نے 2001 میں ایک نئے اور زیادہ بااختیار مقامی حکومتوں کے نظام کی بنیاد درکھی جو 2010 تک بڑی کامیابی کے ساتھ چلتا رہا۔2008 میں جب منتخب سیاسی حکومتیں قائم ہوئیں تو 2010 سے 2016 تک یہ نظام معطل رہا ۔ سیاسی حکومتوں نے پرویز مشرف کا متعارف کردہ بااختیار مقامی حکومتوں کے نظام کو تبدیل کرتے ہوئے 2016 میں محدود اختیارات کے ساتھ اس نظام کو فعال کیا گیا مگر اس طرح کہ نہ تو مالیات کے ضمن میں ان کے پاس ضروری ا ختیارات باقی رکھے گئے اور نہ ہی اس میں تسلسل کو روا رکھا گیا ۔ خود مختار منتخب مقامی حکومتوں کی غیر موجودگی کا سب سے زیادہ خمیازہ سندھ کے بڑے شہروں بالخصوص کراچی اور حیدر آباد کو اٹھانا پڑتا ہے۔سندھ میں پاکستان پپلز پارٹی بیشتر وقت حکمران جماعت کے طور پر موجود رہی ہے تاہم کراچی اور حیدرآباد میں اس کی سیاسی حمایت سندھ کے دیگر شہروں کی نسبت کم رہی ہے لہذا ان دو شہروں کی ترقی اور یہاں کے مسائل پر حکومت کی تو جہ بھی کم رہتی ہے پھر یہ کہ صوبہ کی سطح پر سیاسی حکومتیں انتظامی اور مالیاتی اختیارات نچلی سطح پر مقامی حکومتوں کو منتقل کرنے میں دلچسپی نہیںلیتیں۔صوبائی حکومتوں کا یہ طرز عمل ہر اعتبار سے غیر جمہوری اور غیر آئینی ہے ۔ اپریل 2010 میں اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعہ صو بوں کو زیادہ مالیاتی اور انتظامی خودمختاری حاصل ہوئی ہے ۔صوبوں نے وفاق سے تو اختیارات حاصل کرلئے مگر ان اختیارات کو مقامی حکومتوں تک منتقل نہیں کیا جو واضح طور پر آئین کے تقاضے سے روگردانی تھی ۔ 2016 میں قائم ہونے والی مقامی حکومتیں بیشتر مالیاتی اور انتظامیاختیارات سے محروم تھیں۔کراچی کے مئیر وسیم اختر اپنے منصبی دورانیے میںاس بات پر مستقل شکوہ کنا ںرہے اور وہ شہر کی ترقی میں کوئی قابل ذکر حصہ نہ ڈال سکے ۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنمائوں کے مطابق اب یہ ضروری ہو چکا ہے کہ حکومت کی تیسری سطح تک اختیارات کی منتقلی کو آئینی تحفظ حاصل ہو اور اس بات کو بھی یقینی بنایا جانا چاہیئے کہ جس طرح وفاق سے صوبوں کو مالیاتی وسائل کی تقسیم کو آئینی تحفظ حاصل ہے بعینہ اسی طرح صوبوں سے شہری اور بلدیاتی سطح تک مالیاتی وسائل کی تقسیم کو بھی آئینی تحفظ حاصل ہونا چاہیئے۔ اس کے لئے انہوں نے آئین میں چھبیسویں ترمیم کے لئے تین بنیادی تجاویز پیش کی ہیں : -1 بلدیاتی اور شہری حکومتوں کا آئینی تحفظ -2 آئین میں بلدیاتی محکموں کا تعین 3 -عام انتخابات کو مقامی حکومتوں کے انتخابات کی تکمیل سے مشروط کیا جانا متحدہ قومی مومنٹ کی جانب سے پیش کی جانے والی یہ تجاویز ایک ابتدائی پیش رفت ہے ان تجاویز کو مذید بہتر اور قابل عمل بنانے کے لئے سیاسی اور آئینی ماہرین کو توجہ دینی چاہیئے۔ حکومتی اختیارات میں شراکت کی وسعت جمہوری سیاسی نظام کا بنیادی مقصد ہوتا ہے جب تک اس کی تکمیل کے لئے سنجیدہ کوششیں نہیں کی جائینگی جمہوری سیاسی نظام کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ پائینگے۔ با اختیار مقامی حکومتوں کے قیام اور تسلسل سے ہی ان محرومیوں کا ازالہ ممکن ہو سکے گا جو عوامی بے چینی کا سبب بنتی ہیں اور جن کی بنیاد پر علاقائی عصبیت کو فروغ ملتا ہے اور کبھی علیحدگی پسندی کی آوازیں بلند ہوتی ہیں توکبھی نئے صوبوں کے قیام کے مطالبے سامنے آتے ہیں۔نچلی سطح پر فیصلہ سازی میں عوام کی شرکت کو فعال کئے جانے سے ہی پاکستان کے وفاق کو مستحکم اور محفوظ کیا جاسکتا ہے۔