وہی ہو ا جس کے خدشات لانگ مارچ کے شروع میں سامنے آرہے تھے۔وزیر آباد میں عمران خان کے کنٹینر پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک شخص جاں بحق ہوا ، عمران خان کی ٹانگ پر گولیاں لگیں اورکچھ لوگ زخمی بھی ہوئے۔اللہ کا شکر ہے کہ اس نے قوم کو کسی بڑے سانحہ سے محفو ظ رکھا ۔ جو شخص جاں بحق ہوا اور جس طرح اس کے بچوں کی تصویر میڈیا پر آئی ہے اسے دلوں کو دہلانے اور ذہنوں کو جھنجوڑنے کے لئے کافی ہونا چاہیے۔ مگر شائد ایسا نہیں ہوگا۔ بالخصوص پاکستانی سیاست دان بہت مضبوط اعصاب کے مالک ہیںان کے نزدیک ایک انسان کی جان کی کیا اہمیت ؟ وہ محض ایک ووٹ ہے کم ہو گیا تو کیا ! سڑکوں پر سیاست کا یہ انداز انہیں مقبولیت کے زعم مبتلا رکھتا ہے ان کے لئے یہ ہی باعث اطمنان ہے۔ سیاست اب جس پر خطر نہج پر آچکی ہے وہاں سے اب واپسی کو ممکن بنایا جائے اس سے پہلے کہ کہیں دیر نہ ہو جائے۔مقام حیرت ہے کہ وہ جنہیں قوم کی قیادت کا زعم ہے انہیں قوم کی ذرا فکر نہیں۔ قوم کی مشکلات جن میں ہر روز اضافہ ہی ہو رہا ہے ۔روزمرہ ضروریات کی اشیاء لوگوں کی دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہیں ۔غربت کی لکیرسے نیچے رہنے والی آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ ( ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میںکل آبادی کا 39.3 فیصد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے ) ۔ اس سے نکلنے کی کوئی تدبیر اور لائحہ عمل سیاست دانوں کے پاس ، یوں لگتا ہے ، نہیںہے اور نہ اس کی انہیں کو ئی فکر ہے۔ اگرچہ دعویٰ سب یہ کرتے ہیں کہ ان سے زیادہ قوم کا ہمدرد کوئی نہیں ۔ قوم کی ہمدردی کے انکے سارے دعوے اور اعلانات محض نمائشی اور وقتی مفادات کے لئے ہوتے ہیں۔ موجودہ سیاسی کشیدگی جو اب ایک بحران کی شکل اختیار کرچکی ہے۔اورسیاسی اختلافات بڑھتے بڑھتے دشمنی کی حدود میں جا چکے ہیں ۔ سیاست دانوں میںبحرانوں سے نمٹنے کی اہلیت یا تو مفقود ہو چکی ہے ۔معاشی ترقی کے لئے سیاسی اور انتظامی ماحول کا سازگار ہو نا بہت ضروری ہے۔مقامی اور غیر مقامی سرمایہ کاروں کو اس کے بغیر سرمایہ کاری کے لئے آمادہ نہیں کیا جاسکتا ۔معیشت کی ترقی کا پہیہ رواں رکھنا تب ہی ممکن ہو سکے گا جب ملک میں سیاسی استحکام ہو ،امن وامان کی صورتحال اطمنان بخش ہو،اور حکومت کے پاوئں سیاسی زمین پر مضبوطی سے جڑے ہوئے ہوں؎۔ پاکستان کے معاشی اور سیاسی عدم استحکام کی موجودہ صورتحال میں کورونا کی وبا اور پھر سیلاب کی ناگہانی آفات کے ساتھ ساتھ سیاست دانوں کی عاقبت نااندیشی اور سیاسی مفاد پرستی کا بڑا حصہ ہے۔ سیاست دان سیاسی تنازعات کو حل کرنے کے لئے سیاسی اور جمہوری اداروں کے بجائے سڑکوں پر حل کرنے کی روش اختیار کرنا زیادہ موثر سمجھتے ہیں ۔ گزشتہ کئی سالوں سے اس رجحان میں بہت تیزی سے اضافہ ہواہے بالخصوص عمران خان کے احتجاجی سیاسی رویوں نے اسے ایک مستقل طرز سیاست کی حیثیت دے دی ہے۔ 2014 میں جب وہ انتخابات کے نتائج سے مطمئن نہیں تھے تب انہوں نے اسلام آباد میں اس وقت کی وفاقی حکومت کے خلاف چار ماہ کا دھرنا دیا ۔ اور ان کے دھرنے سے نہ صرف یہ کہ اسلام آباد کی انتظامی ،سماجی اور سیاسی صورتحال متاثر رہی بلکہ چینی حکومت کے سربراہ کا سی۔پیک کے تناظر میں کیا جانے والا اہم دورہ بھی التوا کا شکارہوا۔پھر یہ کہ ان کا 120 دنوں سے بھی زائدکا دھرنا بے نتیجہ ہی رہا۔ گزشتہ اپریل میںجب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا وہ اور ان کی جماعت کے اراکین قومی اسمبلی سے مستعفی ہوکر گزشتہ آٹھ ماہ سے احتجاج کی سیاست کے لئے سڑکوں پر آئے ہوئے ہیں ۔ اس پر مستزاد وزیر آبا د میں عمر ان خان کے کنٹینر پر فائرنگ کے واقعہ نے پہلے سے موجود کشیدہ سیاسی ما حول کو انتہائی سطح تک پہنچادیا ہے۔اس واقعہ کے بعد عمران خان اور ان کی جماعت کے دیگر قائدین نے جو طرز عمل اختیار کیا ہے وہ سیاسی و عسکری اداروں کے لئے اشتعال انگیز ی پر بھی مبنی ہے جس کی پاکستان کی ریاست ہر گز متحمل نہیں ہو سکتی ۔ عمران خان ایک مقبول سیاسی قائد ہیں انہیں اور ان کی جماعت کے دیگر قائدین کو ملک کی نازک معاشی صورتحال کا بخوبی علم ہے ۔سڑکوں پر کی جانے والی سیاست لوگوں کو جن مشکلات سے دوچار کرتی ہے ۔اس سے واقفیت بھی انہیں ہوگی۔ انتظامی مشینری جس طرح اپنے اصل فرائض کو چھوڑ کرسڑکوںپر مصروف ہو جاتی ہے ۔سیاست دان اس دعوے اور وعدے کے ساتھ سیاست میں آتے ہیں کہ وہ ملک و قوم کو ترقی کی سمت لے کر جائینگے،لوگوںکے روزگار ، جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنائینگے مگر ہوتا کیا ہے۔ اقتدار میں آکر سیاست دانوں کو ’’ اقتدار ہر قیمت پر ‘‘ زیادہ عزیز ہو جاتا ہے اور لوگوں کے مسائل اور مشکلات قرار واقعی توجہ حاصل نہیں کر پاتے۔لانگ مارچ یا کسی بھی نوعیت کا احتجاج خواہ کتنا ہی پر امن ہو اس سے جہاں لوگوں کے روزمرہ معمولات میں مشکلات پیدا ہوتی ہیںوہاں ملک کی معیشت بھی متاثر ہوتی ہے ،سیاسی طور پر تویہ بات دلیل کے طور پر کہی جاتی ہے کہ احتجاج کرنا ان کا آئینی حق ہے مگر ایسا احتجاج جو ملک کی معیشت اور سماجی نظم کو بری طرح متاثر کردے اس پر قوم وملک کے خیر خواہوں کا سیاست سے بالا تر ہو کر سوچنا بھی ضروری ہے۔ سیاسی اداروں کی موجودگی میں سڑکوں پر سیاست کے اس رجحان سے ملک کی سلامتی کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں ۔ اب اس طرز سیاست سے مراجعت بہت ضروری ہوگئی ہے ۔ پاکستان کی معاشی صورت حال مسائل و مشکلات کی حدوں سے بھی آگے جا چکی ہے قرضوں کابوجھ ناقابل برداشت ہو چکا ہے ۔ قومی اسمبلی میں پیش کردہ اعداد وشمار کے مطابق 31 مئی 2022 تک پاکستان کے ذمہ مجموعی غیر ملکی قرضہ کا حجم 126 ارب ڈالر ہو چکا تھا۔ اگر صورت حال سنبھالنے کے لئے فوری اور حقیقی اقدامات نہ کئے گئے تو قرضوں کی ادائیگی ریاست کے لئے ممکن نہیں رہے گی۔سیلاب کی حالیہ تباہی نے پہلے سے کمزور معیشت کو ’’ انتہائی نگہداشت ‘‘ (INTENSIVE CARE) کے مرحلے تک پہنچا دیا ہے۔سیلاب زدہ علاقوں کا معاشی اور سماجی ڈھانچہ پوری طرح تباہ ہو چکا ہے اس کی بحالی کے لئے جہاں مالیاتی وسائل ، منصوبہ بندی اور بھرپور حکومتی توجہ ضروری ہے وہاں انتظامی اور سیاسی سطح پر استحکام بھی ضروری ہے جو سر دست موجود نہیں ۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاست دان ، ادارے تمام اختلافات کو بھلا کر مشترکہ اقدامات کے لئے کوشش کریں ۔ یہ سیاست کا نہیں ریاست کی بقا کا معاملہ ہے۔کاش یہ بات ہر سطح پرجتنی جلد سمجھ لی جائے بہتر ہے اس سے پہلے کہ کہیں دیر نہ ہو جائے۔