الیکشن کا موسم آگیا ہے لیکن ایسی گہما گہمی نہیں جس کا تذکرہ کیا جا سکے۔ سیاسی ماحول میں کچھاؤ اور تناؤ موجود ہے، عام پاکستانی کو متوجہ کرنے کے لیے سیاسی جماعتیں منشور پیش کررہی ہیں، حالات کی بہتری کے وعدے وفا کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ درست ہے کہ بعض کام بعض لوگوں کے لئے آسان اور دوسروں کے لیے مشکل ہوتے ہیں لیکن ناممکن کسی کے لیے نہیں لیکن نامعلوم کیوں ہمارے سیاستدان اقتدار میں آنے کے بعد اپنے کئے گئے وعدوں سے یوں منہ موڑ لیتے ہیں، جیسے وہ اپنے وعدوں کی پاسداری کے قائل نہیں ،وہ ہمیشہ اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ لوگوں کی خوش گمانیاں ان کے وعدوں سے جڑی ہوئی ہیں، ان کی پرفارمنس اور ڈیلیوری کا ایک ذائقہ ہوتا ہے، یہ ان کا ٹیسٹ ہوتا ہے، جس میں وہ بار بار ناکام ہو جاتے ہیں پھر اگر کوئی ان سے پوچھے کہ آپ تو وعدہ خلاف نکلے آپ نے جھوٹ بولا تھا ،آپ نے اپنی انتخابی مہم کی پوری عمارت جھوٹ پر آباد کی تھی۔ آپ جن مشکلات مسائل اور مزاحمت کا بہانا بنا رہے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں۔ جب بھی کوئی رہنمائی کا دعویٰ کرتا ہے اور لوگوں کو بتاتا ہے کہ اگر اسے حق حکمرانی مل گیا تو وہ عام لوگوں کی زندگی میں ایک انقلاب برپا کردے گا۔ اس سے زیادہ مشکل ، زیادہ تکلیف دہ مسائل بلکہ انہیں تو معاشرے کی جانب سے نفرت اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا، یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے انبیاء تھے، مسائل اور مشکلات کا سامنا تو ان لیڈروں کو بھی کرنا پڑا جنہوں نے اپنی قوموں کو نئی توانائی اور روشن منزلیں دکھائی۔ مسائل کا سامنا تو دنیا کے تمام تخلیق کاروں کو بھگتنا پڑا ۔ اس طرح کے مسائل کا سامنا تو دنیا کے تمام سائنسدانوں کو بھی سہنا پڑا اس طرح کا پالا تو دنیا کے تمام تاجروں اور صنعتکاروں کو بھی کرنا پڑا۔ دنیا میں جو بھی شخص معاشرے کو تبدیل کرنا چاہتا ہے یقیناً وہ اس تبدیلی کے لئے خود میں مطلوبہ ٹیلنٹ کا تعین بھی رکھتا ہو گا ۔ یہ تو ایک ملک ۲۵ کروڑ کی قوم کا معاملہ ہے ۔ آپ میں سے قوم جس کو بھی رہنمائی کے لئے چنے گی، یہ تو اس کو فیصلہ کرنا ہے کہ اپنے لوگوں سے کم از کم سچ تو بولے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ میں سے کوئی بھی ایسے بلند و بانگ دعوے کرکے عام لوگوں کو بے وقوف بنا لے گا ،بعد میں آپ کوئی نہ کوئی عذر پیش کردیں گے ۔ وہ تمام لیڈر جو اس رہنمائی کے امیدوار ہیں، یہ سب اس قوم کے آزمودہ ہیں، اس کا فیصلہ بھی یہ لیڈرز تمام اپنے اپنے طور پر کرلیں دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ جب جب قوم نے آپ کو اپنی رہنمائی کے لیے چنا آپ نے کیا وعدے کیے تھے، آپ کیا کرسکتے تھے اور آپ کیا نہیں کرسکے دنیا میں ہر اچھے کام کرنے والے کی اپوزیشن ہوتی ہے ۔ آپ لوگ کتنے سچے کھرے نیک اور باصلاحیت ہیں اس کا فیصلہ آپ کی اپوزیشن کرتی ہے ۔ یہ عذر کافی نہیں کہ آپ وقت گزرنے کے بعد قوم کو بتائیں کہ ہم اس لئے ڈیلور نہیں کر سکے کہ فلاں صاحب نے رکاوٹ ڈالی وہ کام ہی نہیں کرنے دیتے تھے ۔ کبھی آپ کہیں کہ یہ مافیاز کی کارستانی تھی کہ ہم ناکام ہو گئے کبھی آپ قدرتی آفات کو اپنی خراب کارکردگی سے نتھی کردیں میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جب آپ میدان عمل میں آتے ہیں تو آپ کو قیادت کے حوالے سے تمام تر حالات کا ادراک کیوں نہیں ہوتا ۔ آپ ملک کی معاشی ، اقتصادی صورتحال کی گھتیاں سلجانے کے لئے کوئی فارمولا کیوں تیار نہیں کرتے ۔ کیا ہمارے کسی بھی لیڈر کو اس بات کا ادارک ہوتا ہے کہ وہ قوم سے جو وعدے کررہا ہے، اسے کس طرح پورا کرے گا۔ پیپلزپارٹی نے اپنے منشور میں کہا ہے کہ وہ 300یونٹ تک بجلی مفت کردے گی۔ ان کا کوئی بھی نقراط یہ سمجھا دے کہ یہ خوشنما دعویٰ ان حالات میں کیسے ممکن ہے ۔ نوازشریف کی پارٹی کا دعویٰ ہے کہ وہ مہنگائی پر کنٹرول کرے گی، ملک کو ایشین ٹائیگر بنائے گی۔ وہ بھی کم از کم یہ تو بتائیں کہ وہ آخر کونسے کونسے اقدامات کریں گے، جن سے ملک کی اقتصادیات اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل ہو سکے گی۔ ان دونوں جماعتوں نے ماضی میں جو وعدے کیے تھے، وہ کسی حد تک پورے ہوئے۔ عمران خان نئے دور، نیا پاکستان ، آزادی کے جو نعرے لگاتے رہے، انصاف کے بول بالا کے حوالے سے ان کا کو استعدلال ہے، ریاست مدینہ بنانے کا جو خواب تھا پونے چار سال کی حکومت میں اس کا کیا بنا۔ وہ کس سے آزادی چاہتے ہیں ؟ فرض کیجئے وہ امریکہ کی غلامی سے آزادی چاہتے ہیں تو وہ صرف یہ بتا دیں کہ اپنے دور حکومت میں ان کی حکومت نے کتنے قرضے لیے، یہ قرضے انہوں نے کن بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے حاصل کیے، یہ ادارے امریکہ کے کتنے زیر اثر ہیں ۔ کیا انہوں نے اپنے اقتدار کو دمام دینے اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے اسٹبلشمنٹ کی طاقت کو استعمال نہیں کیا۔ وہ انصاف کی بات کرتے ہیں کیا انہوں نے اپنے دور اقتدار پاکستان کے عدالتی نظام میں اصلاحات کرنے کی کوشش کی، ان تینوں بڑی سیاسی جماعتوں سے کرنے کے لئے تو یوں سینکڑوں سوالات ہیں، جن میں سے وہ کسی ایک کا بھی جواب نہیں دے سکیں گے۔ سب کچھ نہ کچھ اپنی اپنی کارکردگی گنوائیں گے۔ اپنی مجبوریاں بیان کریں۔ لیکن ایک عام آدمی یہ جانتا ہے کہ من حیث القوم ہم آگے نہیں بڑھے پیچھے کی جانب کھسک رہے ہیں۔ عام پاکستانی کی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ اکثریت کے لیے دو وقت کی روٹی ایک مسئلہ بن گئی ہے کرپشن بڑھی ہے۔ ناانصافی بڑھی ہے مافیاز طاقتور ہوئے ہیں۔ اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان گہرے ہورہے ہیں پھر یہ تمام سیاسی لیڈرز اور بااختیار بتائیں کہ یہ کونسا نظام حکومت ہے جس میں بتدریج عام لوگوں کے مسائل میں اضافہ کیا ہے دنیا کے ملکوں میں فی کس آمدنی بڑھی ہے ہمارے ہاں کم ہوئی ہے آخر کوئی تو وجہ ہے کہ ہم مشکلات کی دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں۔ اب مواقع گھٹتے جا رہے ہیں آمدنی اور اخراجات میں توازن نہیں رہا ہے سونے پر سہاگا یہ ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز ایک میز پر بیٹھنے کو تیار نہیں ۔ پولیٹیکل پولرائزیشن بڑھ رہی ہے پورا معاشرہ بتدریج مایوسی کی طرف جا رہا ہے ۔ بڑی تعداد میں ہنر مند لوگ ملک چھوڑنے میں عافیت سمجھ رہے ہیں۔ ہم پورے نظام کو ایڈہاک بنیادوں پر چلا رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ برسراقتدار اور بااختیار کو نہ مسائل اور مشکلات کا ادراک ہے نہ ہی ریاست اپنی بنیادی ذمہ داری یعنی رعایا کو تحفظ اور انصاف فراہم کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بنیادی سوال یہی ہے کہ کیا ملک پہلے سے زیادہ متحد ہے یا منقسم ۔کیا ہماری حیثیت بہتر ہوئی یا زوال پذیر پاکستان کا عام شہری مطمئین ہے یا پریشان ۔ کون مقبول ہے کون غیر مقبول ان تینوں پارٹیوں میں سے کوئی اقتدار میں آئے گا ۔ لیکن میرا ذاتی تھیسس یہ ہے کہ اللہ ہم سے ناراض ہے اس کی وجہ ہمارے برسراقتدار اور با اختیار لوگوں کے ساتھ ساتھ من حیث القوم ہمارے اعمال سے وہ خوش نہیں ۔ اس موضوع پر پھر تفصیل سے لکھوں گا میرا یہ تھیسس ممکن ہے سو فیصد درست نہ ہو کہ جب تک ہم اللہ کو نہیں مناتے بات نہیں بنے گی لیکن ہم اللہ کی ناراضی کو مسترد نہیں کر سکتے ۔