کئی برسوں سے لگاتار کشمیری مسلمان تحریک آزادی کشمیرکے نامورہیروزافضل گورواورمقبول بٹ کی یاد میں اورعالمی ضمیرکوجھنجوڑنے کے لئے کشمر میںپڑتال کرتے ہیں ۔کشمیرکے شہید تحریک آزادی کشمیر کے ناقابل فراموش ہیرو زاور ایک ایسے روشن چراغ کے مانندہیں کہ جواپنی شہادت سے قبل اپنی لوسے بے شمارچراغ روشن کرچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج 2021 تک سرزمین کشمیر پربھارتی جبروقہر کے باعث ایک کے بعد ایک چراغ گل ہوتاچلاجا رہا ہے لیکن یہ چراغ ختم نہیں ہورہے۔ کشمیرکے ہرشہیدکی شہادت کی الگ الگ کہانی ہے لیکن سب نے ایک ہی عظیم مقصد ’’کشمیرکی آزادی ‘‘کے لئے اپنے جانوں کانذرانہ پیش کیا۔ چندیوم قبل تہاڑ جیل کے سابق آفیسر سنیل گپتا نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویومیں کہا کہ افضل گورو سے جینے کا حق چھینا گیا۔میں کئی بار ان سے ملااور وہ ہر بارکہتے تھے کہ وہ ناانصافیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ گپتا کا کہنا ہے کہ 9 فروری 2013ء کی صبح جب محمد افضل گورو کو چائے پیش کی گئی اور تھوڑی ہی دیر بعد بتایا گیا کہ اب آپ کی زندگی کی آخری گھڑی ہے۔تو انکے چہرے پر ایک پراعتماد مسکراہٹ آگئی۔یہ دیکھ کرمیں حیران ہوا ،اور چونک سا گیا کہ یہ کیا ماجرا ہے۔اس کے بعد ایک اور حیران کردینے والا نظارہ میری آنکھوں نے دیکھا کہ وہ بغیر کسی خوف کے پھانسی گھاٹ کی جانب چل پڑے۔ جس کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آزادی کے متوالوں کو پھانسی کے پھندوں سے ڈرایا نہیں جاسکتا ہے۔ اپنے آپ کودنیا کی سب سے بڑی نام کہلانے والے بھارت کے حکمرانوں نے نہایت غیر انسانی اور غیر اخلاقی رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوںکے جسد خا کی کو رسمی تجہیز و تکفین کے بغیر جیل کے صحن میں ہی دفن کر دیا لیکن ان کے اس طرزعمل نے کشمیری مسلمانوں کے سامنے کئی ایسی حقیقتیں جن پرپردے پڑے ہوئے تھے واشگاف کردیا ۔ 11فروری 1984ء کومقبول بٹ کودہلی کی تہاڑ جیل میں جبکہ 9 فروری 2013کو گرو پھانسی دے کر شہید کر دیا گیا لیکن ان دونوں عظیم شہادتوں نے جیسے حریت کے پروانوں میں ایک نئی روح پھونک دی۔دونوں تعلیم یافتہ اور خوش گفتار شخصیتیں تھیں۔ مقبول بٹ نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی ناپاک وجود کے خلاف عملی جدوجہدکی داغ بیل ڈالی اور اسلامیان کشمیرکوبھارتی غلامی سے نکلنے کے لئے مسلح جدوجہدکی راہ دکھادی ۔ یہ وہ وقت تھا جب پوری دنیا میں آزادی کی تحریکیں اپنے عروج پر تھیں اور مقبول بٹ شہید اور ان کے رفقائے کار کا ان تحریکوں سے متاثر ہونا بھی ناگزیر تھا ان ممالک میں الجیریا، فلسطین اور ویت نام شامل تھے۔ ڈوگرہ استبدادکے خلاف کشمیری مسلمانوں کے اعلان جہاد کے بعد یہ پہلاموقع تھاکہ جب مقبول بٹ نے12جولائی 1965ء کو میر پور میں محاذ رائے شماری کے ایک پروگرام میں عسکری ونگ کی تجویز اور قرارداد پیش کی تاکہ جلد سے جلد ریاست جموں کشمیر کو ہندوسامراج کے چنگل سے آزادی دلائی جا سکے۔آپ مقبوضہ کشمیرمیںمئی 1976ء کو ایک ہندوبینک کلرک کے قتل کے الزام میں گرفتار ہوئے اور11 فروری 1984ء کی صبح مقبول بٹ شہید کو تختہ دار پر جھلا دیا گیا۔آپ کے آخری الفاظ تھے مجھے کل پھانسی دے دی جائے گی اور مجھے کوئی پچھتاوا نہیں۔ میں اپنے لوگوں سے محبت کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ ریاست جموں کشمیر کے لوگ اس سچائی اور حق کو جان جائیں گے جن کے لیے میں ان تمام سالوں میں لڑتا رہا اور جس کے لیے میں آج خود کو قربان کر رہا ہوں۔ دھیمے لہجے میں گفتگو کرنے والے افضل گورو کی آنکھوں میںآلائے کلمہ الحق کی بالادستی اورکشمیرکی آزادی کے خواب تھے اوردل میں اسکی آرزو تھی۔لیکن ان کے یہ سارے خواب یہ سارے ارمان اور یہ ساری آرزوئیں اس وقت بکھرتی چلی گئیں جب افضل گورو کو2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ پرمسلح حملے کے الزام پر حراست میں لے لیا گیااور2013ء میں دہلی کی تہاڑ جیل میں تختہ دارپرچڑھایا۔افضل گورو کی شہادت نے تحریک آزادی کشمیر کا رخ ہی بدل کر رکھ دیا۔ اب ہر کشمیری، کے اندر ایک نیا ولولہ اور نیا جوش ہے۔ جو بھارتی ریاستی دہشت گردی تو جھیل رہے ہیں لیکن ان کے دلوں میں روشن آزادی کی شمع کو مودی اورنہ ہی اس کی فوج بجھا نہیں پائی۔ افضل کی حراستی شہادت ستم رسیدہ اہل کشمیر کے دلوں کوگہرازخم دے گئی تاہم جس وقاراورسکون کے ساتھ افضل نے تختہ دارکوچوما اسے کشمیر کی نئی نسل کوحوصلہ ملا اورانکی شہادت کشمیریوں کے لئے عہدنوثابت ہوئی ۔ افضل کوتختہ دارپرچڑھانے سے کشمیریوں کے اس ایمان ویقین میں مذید اضافہ ہوا۔ کشمیریوں کاعزم وہمت دیکھ کرقاتل دھنگ ہے کہ جوکٹ مرکربھی حق وانصاف کی علم کوتھامے ہوئے ہیں اوریہی زندہ قوموں کا شیوا رہا ہے ۔ زندہ قومیں کبھی ہمت نہیں ہارتیںاوروہ آخری دم تک ظلم اوربربریت کے خلاف صف آراء رہتی ہیں۔ واضح رہے کہ11 فروری 1984 ء کو کشمیر کے معروف اورعظیم آزادی پسند راہنما مقبول بٹ کو بھی دلی کی تہاڑجیل میں ہی پھانسی دی گئی تھی اوران کے جسدخاکی کو تہاڑ جیل میں ہی دفنا دیا گیا تھا۔ محمد مقبول بٹ شہیدنے میدان عمل میںاترکر باہمت حریت پسند ہونے کا عملی نمونہ پیش کیا۔ وہ ایک بہادر اور باہمت حریت پسند تھے، جنہوں نے کشمیری قوم سے متعلق کئی طرح کے مفروضوں کو غلط ثابت کردیا۔ سچی بات یہ ہے کہ افضل گوروکا جوڈیشل اورمقبول بٹ کے حراستی قتل سے بھارت نے اہل کشمیر یوںکویہ پیغام دیا کہ بھارت کی نظروں میں انکی زندگیوں کی کوئی اہمیت نہیںلیکن کشمیری بھارت کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ اپنے بنیادی حق کے حصول کے معاملے میں بھارت کے سامنے کبھی سپرانداز نہیں ہونگے۔ یہ حقیقت ہے کہ افضل کی پھانسی غیر منصفانہ اور جلد بازی میں اٹھائے جانے والابھارت کا یہ ایک ایساا قدام تھاکہ جسے کشمیری کبھی بھول نہیں پائیں گے ۔بلاشبہ افضل کی شہادت سے ایسے ہزارانجم پیدا ہوئے جواپنے پیدائشی حق سے کبھی دستبردا ر نہیں ہونگے کیوںکہ گوروکو اچانک پھانسی دیئے جانے سے انہیں یقین ہو گیا کہ کشمیریوں کے لئے انصاف نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ بہرکیف افضل گورواورمقبول بٹ کی دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دے کر شہید بلاشبہ یہ کشمیریوں کے اجتماعی ضمیر پر بھر پور حملہ تھا جوانتہائی تکلیف دہ اورپریشان کن تھا ۔یہ دلدوزسانحہ کشمیر کے ضمیر پرہمیشہ دستک دیتا رہے گا۔