مملکت پاکستان میں مغربی تہذیب کی یلغارروکنے جبکہ اسلامی اقداراورمشرقی روایا کے تحفظ کے لئے سرگرم عمل جماعتوں اورتنظیموںمیں شامل پاکستان کی بڑی طلباء تنظیم اسلامی جمعیت طلباء کی جانب سے امسال بھی گزشتہ دنوںپاکستان کے تمام بڑے تعلیمی اداروں، کالج اور یونیورسٹی کیمپس میں یومِ حیا منایا گیا۔گلوبل ویلیج کا نعرہ مغرب سے آیا اور مغرب کے پیروکاروں نے اِسے پھیلایا جس کا مقصد یہی ہے کہ دنیا کو ایک تہذیب کے زیر اثر لایا جائے جہاں ایک نظام ہواور اِ سے وسری تہذیبیں قبول کریں۔ اب 14 فروری کے آتے ہی ویلنٹائن ڈے کی تیاری ہونے لگتی ہے۔ پہلے پہل یہ وباایک مخصوص طبقے تک محدود تھی آہستہ آہستہ خاص و عام کی تمیز بھی ختم ہو گئی اوراب ہمارے بعض تعلیمی اداروں میں بھی اس کا باقاعدہ سبق دیا جانے لگا ہے۔ہم اصل سبق بھول گئے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ نسل نو اپنی تہذیب سے بیگانہ ہوتی جا رہی ہے اپنے سلف اور آبا و اجدا سے ناآشنائی کا عالم یہ ہے کہ ہم احساس ذمہ داری سے واضح طور پرغفلت برت رہے ہیں۔بدقسمتی سے سیکولر اذہان کی حامل لوگ نام نہاد ترقی پسند افراد اور غیر ملکی این جی اوزکے ذریعے اسیزیادہ سے زیادہ فروغ دیا جا رہا ہے۔موجودہ دور میں امتِ مسلمہ میں فتنے پیدا ہورہے ہیں جس کے اثرات ہمیں مسلم امہ کی صفوں میں نظر آ آتے ہیں۔ انہی میں دورِ حاضر کا ایک تیزی سے پھیلنے والا فتنہ جسے ’’ویلنٹاین ڈے‘‘ہے جس نے مسلمان نوجوان نسل کو اپنے جال میں بری طرح جکڑ لیا ہے۔ موجودہ دور میں ایک مذموم سازش کے تحت باقاعدہ اس فتنے کو نہ صرف اجاگر کیا گیا ۔دشمنانِ اسلام کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ مسلمان جب تک دین سے جڑے ہوئے ہیں انکو شکست دینا ممکن نہیں ہے اس لئے انہوں نے ایسا منصوبہ تیار کیا کہ بغیر لڑے بھڑے مسلمانوں کی بنیادیں کمزور کرکے ان پر برتری حاصل کی جاسکے۔’’.ویلنٹاین ڈے ‘‘کو محبت کا دن قرار دے کرنوجوان نسل کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ بے راہ روی کا شکارمسلم لڑکے اور لڑکیاں، مرد و خواتین اس تہوار کو مناتے ہوئے اپنے اسلامی تشخص اورشناخت کو یکسر فراموش کردیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ کلمہ گو مسلمان اور رسول کے امتی ہیں اور بحیثیت مسلمان انکے لیے یہ قطعا جائز نہیں ہے کہ وہ کفار کی اندھی تقلید میں انکی ایسی رسوم ورواج کواپنا لیں جس کی ہمارا دین اور شریعت کسی طور بھی اجازت نہیں دیتا۔ سوال یہ ہے کہ اس شر کے فروغ میں برابر کے ذمے دار کون لوگ ہیں .۔اگر والدین اپنی اولاد کی صحیح اسلامی خطوط پر تربیت کریں اور انہیں دشمنانِ اسلام کے ان حملوں سے آگاہ کرتے رہیں اور اسی طرح اساتذہ بھی اپنے شاگردوں میں دینی تشحص بیدار کریں اور ان میں دین کا صحیح شعور پیدا کریں توپھر یہ ممکن ہی نہیں رہیگا کہ اسلام کے دشمن ان چور دروازوں سے مسلمانوں کی صفوں میں شبِ خون مار سکیں . اسی طرح ائمہ کرام اور علمائے دین کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ عصرِ حاضر کے تمام فتنوں اور خصوصا ایسے فتن جو مسلمانوں کے اخلاق ،انکی دینی حمییت اور انکے عقاید کی سلامتی کے لئے خطرے کا باعث ہوں انکی انہیں نہ صرف پوری شد ت کے ساتھ مخالفت کرنی چاہئے بلکہ مسلم امہ میں ان خطرات کے خلاف بیداری کی بھر پور مہم کا آغاز کرنا چاہئے اور اس کام کے لئے تمام دستیاب وسائل سے بھرپور استفادہ کرنا چاہئے۔ مسلم نوجوانوں، بھائیوں اور بہنوں، ماں اور بیٹیوں کو جان لینا چاہیے کہ ان کی صبح ،ا نکی شام اور انکی شب خدا کی یاد، اسکے محبوب کی سنت کی اتباع میں بسر ہو۔اس جوانی اور وقت کی قدر کی جائے کہ یہ دونوں چیزیں ایک بار رخصت ہوکر دوبارہ لوٹ کر نہیں آتیں.اپنے دن کوخدا کی اطاعت و فرمانبرداری میں بسر کر ے اور دعائے نیم شبی کا خود کو عادی بنائے۔ وہ اپنی آنکھوں کی اسطرح حفاظت کرے کہ وہ کسی نامحرم کے شوقِ دید سے آلودہ نہ ہوں نہ ہی عریانی اور فحاشی کو اپنے اندر سمو سکیں،اپنے کانوں کواسطرح آلودگی سے بچا کہ وہ کسی کی غیبت نہ سنیں اور نہ کوئی فحش بات اور کلام ان تک پہنچے ،اپنی زبان کی اس طرح حفاظت کرو کہ نہ کسی کی غیبت کی مرتکب ہو نہ اس سے کسی کی دل آزاری ہو اور نہ ہی دشنام طرازی کاذریعہ بنے،تمہارے ہاتھ تمہارے پاوں غرض ایک ایک عضو خداکی مرضی کا تابع بن جائے۔سب سے بڑھ کر تمہارا دل جو تمام آرزں ،تمناں اور خواہشات کا منبع اور مرکز ہے وہ خدا کا مطیع اور فرماں بردار بن جائے تو پھر تمہیں خود کو خوش کرنے کے لئے کسی ویلنٹاین ڈے کی ضرورت محسوس نہ ہوگی کیوں کہ خدا اور اسکے رسول کی سچی محبت کا راز پالینے کے بعد کسی اور کی محبت کی ضرورت او ر گنجائش باقی نہیں رہتی.۔ ہمیں عفت و پاکدامنی کو ہاتھ سے چھوٹنے نہ دینا چاہئے اور اپنی تہذیب و تمدن ، ثقافت وروایات کو اپنا نا چاہیے ۔اغیار کی اندھی تقلید سے باز رہنا چاہئے تاکہ دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کر سکیں ۔مسلم معاشرے میں اس غیراسلامی تہوار کی پذیرائی اور قبولیت کی ذمہ داری جہاں سٹلائیٹ چینلز، انٹرنیٹ اور ان مسلم ممالک کے میڈیاپر عائد ہوتی ہے وہاں والدین اور اساتذہ پریہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ طلبہ اور طالبات کے ساتھ ویلنٹائن جیسی فضول اور بے ہودہ روایت کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اس دن کو ’’یوم حیا ‘‘کے طور پر منائیں، تمام بڑے شہروں، یونیورسٹی اور کالجز میں حیا کا کلچر عام کرو کے عنوان کے تحت کام کرنے کی ضرورت ہے۔جس میں طلبہ و طالبات کومسلسل یہ احساس دلایاجائے کہ مسلم نوجوان مغربی تہذیب کے بجائے محمدی تہذیب کا چاہنے والا ہے۔ یوم حیا کے حوالے سے تعلیمی اداروں میں لیکچرز، مذاکروں اور سیمینارز کا اہتمام کیاجائے، یوم حیا کے حوالے سے ہینڈ بلز تقسیم کیے جانے چا ہئیںاور مسلمانوں میں حیا کے متعلق احساس کو اجاگر کرنے کیلئے دعوتی مہم چلائی گئی۔ کہ ویلنٹائن ڈے جیسی بیہودگی نو جوانوں کور مغربی تہذیب کے دلدل میں دھکیل رہی ہیں۔ اسلام ہمیں حیا کا درس دیتا ہے لہٰذا ہمیں حیا کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔