مرزا غالبؔ نے کہا تھا:بازیچۂ اطفال ہے دنیا میرے آگے۔ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے۔دنیا کیا ہے؟ ایک تماشا گاہ ہی تو ہے اور یہ سارا کھیل تماشا بچوں ہی کا تو ہے۔انسان کتنا ہی بڑا ہو جائے‘ عقل و شعور میں کتنا ہی پختہ ہو جائے لیکن حقیقتاً رہتا بچوں ہی کی طرح ہے۔اتنا ہی خام اور ناسمجھ۔ اپنے آپ کو کتنا ہی عقلمند اور باشعور سمجھے لیکن اس کا انجام بتاتا ہے کہ وہ کتنا ناواقف اور عقل میں کتنا کورا رہا۔جن چمکتی چیزوں کو سونا سمجھ کر ان کی طرف لپکتا رہا اور انہیں حاصل کرنے کے لئے بچوں کی طرح مچلتا رہا ان کی حیثیت صحرا میں سراب سے زیادہ نہ تھی۔پس اے لوگو! ہوش کے ناخن لو اور مت بھاگو اپنی خواہشوں کے پیچھے۔آخر آخر میں تھک جائو گے اور کچھ ہاتھ نہ آئے گا ایک تھکن کے سوا۔لکھتے لکھتے جی اُوب جاتا ہے۔نصیحت کرتے کرتے خود پہ غُصّہ آنے لگتا ہے۔حق کی بات‘ نصیحت کی بات۔ آج دنیا کے بازار میں ان کی کوئی قیمت نہیں۔انسان ترقی و تعمیر کے ایسے منازل طے کر چکا ہے کہ اسے نصیحت کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے عبرت وہ پکڑے جس کی نگاہ‘ نگاہ عبرت ہو اور نصیحت اسے کی جائے جو نصیحت سننے کے لئے تیار ہو۔ دنیا میں کیسے کیسے خونچکاں واقعات پیش آتے رہتے ہیں غالباً تھائی لینڈ میں ایک نیم پاگل شخص نے بچوں کے ٹیک کیئر ہوم میں اندھا دھند گولی چلا کر بے شمار بچوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا اور پھر اپنے گھر جا کر بیوی کو قتل کر کے اپنے آپ کو بھی مار ڈالا ہے یہ کیا ہے؟ ایک جنونی اور دیوانہ شخص جسے جیل سے نکل کر آزادی سے زندگی گزارنے کی اجازت دی گئی اور وہ دوسروں کی زندگی کے لئے خطرہ بن گیا۔یہ ہمارے اردگرد کیا ہو رہا ہے؟ ایک صحافی کے بیٹے نے اپنی بیوی کو کس بے دردی سے قتل کر دیا۔ہاں روزانہ اخبارات ایسے ہی خبروں سے بھرے رہتے ہیں۔زمین پہ پہلا گناہ قتل ہی کا تھا اور خلق آدم سے پہلے فرشتوں نے خداوند تعالیٰ سے یہی سوال کیا تھا کہ کیا تُو ایسی مخلوق کو پیدا کرے گا جو زمین پہ فتنہ و فساد برپا کرے گی اور ایک دوسرے کا خون بہائے گی اور خدا وند تعالیٰ نے جواب دیا تھا کہ میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔خدا کیا جانتا تھا جو فرشتوں کو معلوم نہ تھا۔ نہیں اس کا کوئی حتمی جواب آسمانی کتابوں میں نہیں ملتا کہ وہ کیا راز تھا جو خدا کے علم میں تھا اور فرشتے جس سے ناواقف تھے اور انسان بھی جسے نہیں جانتا۔لیکن فرشتوں نے جو کچھ کہا تھا۔وہ پورا ہو کے رہا۔خدا کی زمین انسانی خون سے لہولہان ہے۔خون جو ۔۔۔آدم کے بعد سے بہہ رہا ہے اور بہتا ہی چلا جا رہا ہے۔انسان‘ انسان کو مار ڈالتا ہے۔جو کام درندے اور حیوان نہیں کرتے وہ انسان کر ڈالتا ہے۔طاقتور ملکوں کے پاس مہلک ہتھیار‘ خوفناک بم اور ایسے اسلحے ہیں جو دیکھتے ہی دیکھتے منٹوں میں اس زمین کو خاک اور راکھ کا ڈھیر بنا سکتے ہیں۔یہ کیوں ہے؟ اس لئے کہ انسان اپنے ہی جیسے دوسرے انسان سے خوف زدہ ہے۔وہ اپنی حفاظت کے لئے اور خود کو طاقتور بنانے کے لئے اسلحوں کے انبار اور بموں کی قطار درقطار بنانے پہ مجبور ہے۔لیکن اس کا نتیجہ کیا ہے؟ جو وسائل اور دولت انسانوں کو فلاح و بہبود پہ خرچ ہونا چاہیے وہ انسانوں کو مٹانے اور انہیں فنا کرنے پہ لگ رہے ہیں۔طاقت کا توازن۔ہاں طاقت کا توازن قائم کرنے ہی میں انسان اپنا توازن کھو بیٹھا ہے اور یہ زمینی فتنہ و فساد سے بھی بھر گئی ہے۔چند ممالک طاقت کا منبع و مرکز ہیں اور بے شمار ممالک ہیں جن پر ان ہی چند ملکوں کی معاشی حکومت قائم ہے۔ ہمارے ہاتھوں میں بھی کشکول ہے اور ساتویں ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود گداگری ہماری مقدر ہے۔اس سے زیادہ افسوس ناک حقیقت اور کیا ہو گی؟ پس ہمیں چاہیے کہ اپنے احوال پہ غور کریں اور سوچیں کہ ہم اپنے پائوں پہ کیسے کھڑے ہو سکتے ہیں؟ اور ہم ایسا کیا کریں کہ ہماری حمیت اور غیرت کا جنازہ نہ نکلے۔ہم دنیا میں ایک باوقار اور باعزت قوم کی طرح زندہ رہ سکیں۔مجھے یاد ہے یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران ایک دن حالات حاضرہ کے مضمون کی کلاس میں ہمارے استاد مختار زمن صاحب نے لیکچر دیتے دیتے بہ زبان انگریزی فرمایا تھا کہ ہم دنیا کے عظیم گداگر ہیں we are great begger of the worldاور یہ سن کر ہمارے سرشرم سے جھک گئے تھے۔ہر بچہ ہماری قوم کا مقروض پیدا ہوتا ہے اور ہم کم و بیش ہر دور میں بدعنوان قیادتوں کے سائے میں سانس لیتے رہے ہیں۔قانون طاقتوروں کے لئے مکڑی کا جالا اور کمزوروں کے لئے لوہے کا جال ہے ۔سفارش ‘اقربا پروری‘ رشوت ‘ کک بیکس اور ظلم و ستم اور استحصال ہمارے کاروبار حکومت کا جزو لاینفک ہے۔تو پھر ہم کیسے عزت و آبرو کے ساتھ اپنا شمار دنیا کی باعزت اقوام میں کرا سکتے ہیں؟ لیکن مسئلہ تو یہی ہے کہ سوچنے والے اختیارات سے محروم ہیں اور جن کے پاس اختیار و اقتدار ہے ان کے پاس گز گز بھر کی لمبی زبانیں ہیں۔وہ بولتے بولتے نہیں تھکتے اور ہم سنتے سنتے تھک جاتے ہیں۔سوچنے والے کم ہیں بہت ہی کم اور عبرت پکڑنا تو ہم نے سیکھا ہی نہیں۔ بچپن سے پڑھتے آئے ہیں کہ ہمارا ملک مظلوم مسلمانوں کی پناہ گاہ ہو گا۔اسی عزم کے ساتھ یہ ملک وجود میں لایا گیا تھا لیکن آج یہ ملک سراپا مظلوم ہے اور اس پہ ظلم کرنے والے دوسرے نہیں خود ہم ہیں۔ہمارے حکمران اور سیاست دان ہیں۔سو کوئی اور تو نہیں ہے پس خنجر آزمائی میںہم ہی قتل کر رہے ہیں ۔ یہ ایک المیہ ہے جس پر جتنا رویا اور فریاد کیا جائے کم ہے۔ سولن نے کہا تھا کہ میں نے روم میں عجیب بات دیکھی ہے کہ یہاں دانش مند تقریریں کرتے ہیں اور احمق فیصلے کرتے ہیں۔ہاں ہمارے ہاں کی صورت حال بھی اسی سے کچھ مختلف نہیں۔ہاں یہ ضرور ہے کہ جن احمقوں کو یہاں فیصلے کا اختیار حاصل ہے وہ خود کو دانش مند ہی سمجھتے ہیں۔اگر درست فیصلے کئے جاتے تو ملک کا یہ حال تو نہ ہوتا۔ان ہی فیصلوں اور فیصلوں کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم پہ کیسے لوگ حکمران رہے ہیں۔آج کی بات نہیں پچھتر برسوں سے یہی تو پھر راہ نجات کیا ہے؟ایک کہانی میں بتایا گیا کہ جنگل میں ایک شکاری کا ایک شیر نے پیچھا کیا۔شکاری بھاگا اور ایسے کنوئیں میں گر گیا جس کے اوپر گھاس اُگی تھی اس نے کنوئیں کی دیوار پر اُگی گھاس کو پکڑ لیا اس نے اوپر دیکھا تو شیر جھانک رہا تھا‘ نیچے دیکھا تو ایک اژدھا منہ کھولے تھا۔جس گھاس کو اس نے پکڑ رکھا تھا اسے ایک چوہا کتر رہا تھا اور شکاری کے قریب ہی شہد کا چھتا تھا۔ہر طرف موت ہی موت کھڑی تھی۔شکاری نے کیا کیا؟اس نے شہد کا چھتا توڑا اور مزے سے شہد کھانے لگا۔یہی اس کے پاس سب سے اچھا آپشن تھا ہم لوگ بھی شہد کھا رہے ہیں۔ہمارے پاس واحد آپشن یہی ہے۔!