سیالکوٹ میں ہونے والا سانحہ ،جس میں ایک سری لنکن شہری کو مشتعل ہجوم نے مارکر جلادیا، دہشت گردی کے حملے سے کہیں زیادہ خوفناک ہے۔ پورا پاکستان سہم کر رہ گیا ہے اور مہذب دنیا حیرت زدہ کہ آخر تین عظیم مذاہب (ہندومت، بدھ مت اور اسلام) کے وارث ممالک کے شہری وحشی کیوں بن گئے ہیں۔ اگرچہ سیاسی و معاشی مقاصد کے حصول میں مذہب کے استعمال کی یہ پہلی مثال نہیں لیکن ملک کے معروضی حالات میں ایسے واقعے کا رونما ہونا لمحہ فکریہ ہے۔ ہجومی تشدد کے واقعے نے ملک کی ساکھ کو ہی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ حکومت کو بھی عالمی برادری میں خفت کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ ا س کا دھیان حکومتوں سے مخصوص کاموں (مہنگائی کے خاتمے،ادارہ جاتی اصلاح اور مالیاتی استحکام) میں کم جبکہ مذہبیت کے فروغ میں زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ مالیاتی، انتظامی اور محصولاتی نظام میں اصلاحات لانے کے لیے ووٹ مانگنے والی حکومت اقتدار میں آکر ملک کو قرونِ وسطٰی میں واپس دھکیلنے میں لگی ہوئی ہے۔ مذہبی معاملات تقدس کے دائرے میں آتے ہیں۔ اخلاق و کردار کی تعمیر میں راہنمائی اور فلاحی سرگرمیاں ایسی ذمہ داریاں ہیں جو اس ادارے سے متعلق ہیں۔ آخر اس ملک کی اشرافیہ مذہب کو دنیاوی بکھیڑوں میں گھسیٹنے پر کیوں تلی ہے؟ اگر مذہب کی واقعی کوئی خدمت کرنی ہے تو علما کو راغب کریں کہ وہ سیاست، جسکا مطمع نظر لوگوں کی عزت نفس اور معیار زندگی میں اضافہ کے لیے انتظامی اقدامات کرنا ہے، میں دخیل ہونے کی بجائے درس اخلاق اور فلاحی سرگرمیوں میں دلچسپی لیں۔ بجائے مدرسوں کے نصاب میں اصلاح کر کے اسے جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے ، اساتذہ کو تنخواہیں اور طلبا کو وظیفے دینے کے، حکومت نے پورے تعلیمی نظام کو ہی تلپٹ کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہبی اشرافیہ کے سیاسی کردار کو فروغ دینے میں موجودہ حکومت اپنے پیشرووں کو بھی مات دے گئی ہے۔ نیتوں کا بھید خدا جانتا ہے کہ حکمران مذہب سے کتنے مخلص ہیں، پریشان کن بات یہ ہے کہ پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانے کا عہد اگر پورا نہ ہوا تو پھر کیا ہوگا؟ وہ اعلیٰ کردار اور پارسائی کے حامل لوگ کہاں سے لائیں گے ،جنہوں نے ایسی ریاستِ مدینہ قائم کی تھی؟ کیا لوگ اس حکومت سے کسی ایسے کارِ خیرکی توقع رکھیں جس نے پچھلے تین سال میں ملک کوسرمایہ دارانہ نظام کی جھولی میں ڈال دیا ہے، امیر لوگوں کو ٹیکسوں میں رعایتیں جبکہ غریبوں کی کھال ادھیڑی ہے؟ جس ملک کی معیشت سود پر استوار ہو، معاشی ناہمواریاں رواج بن گئی ہوں اور امیروں اور غریبوں کے درمیان خلیج دن بدن بڑھتی جارہی ہو، ایسے میں مساوات، عدل اور پرہیزگاری کے دعوئوں کا اور وہ بھی ان لوگوں کے منہ سے جو سب خرابیوں کی جڑ ہیں، کیا نتیجہ نکلے گا؟ سکولوں کے نصاب میں قرآن ِ مجید کو شامل کیا ہے تو اس کے قرار واقعی احترام کو کتنا یقینی بنایا گیا ہے ؟ کیا ضمانت ہے کہ فتنہ پرور عناصر اساتذہ اور طالب علموں پر بے حرمتی کا الزام نہیں لگائیں گے؟ کیا بچے کتابِ مقدس کے مندرجات کو اپنے بستوں میں، پیٹھ پر لاد ے پھریں گے یا سکولوں میں اسے مناسب جگہ پر رکھنے اور پڑھانے کا مناسب ماحول بھی فراہم کیا جائیگا؟ بہتر نہیں تھا کہ مذہبی تعلیم کا مسئلہ خاندان پر چھوڑ دیا جاتا کہ وہ جس طرح چاہیں اپنے بچوں کو اس سے آراستہ کریں۔ اگر تجربہ ہی کرنا ہے تو مذہب جیسے مقدس معاملے میں ہی کیوں؟ احترامِ آدمیت، مذہب کا نصب العین ، کو انتظامی اقدامات سے کیوں نہیں فروغ دیا جاسکتا جو کہ حکومت کی اصل ذمہ داری بھی ہیں؟ اس وقت جب معیشت پر جمود طاری ہے،قومی مجموعی آمدنی کی نسبت محصولات کی شرح دس فیصد سے زیادہ نہیں، اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکا ہے اور عام آدمی مہنگائی کے بوجھ تلے کراہ رہا ہے، لاقانونیت کے واقعات کا وقوع پزیر ہونا حکومت کی ساکھ پر کاری وار اور اس کی اہلیت پربہت بڑا سوالیہ نشان بن گیاہے۔ قابلِ غور بات ہے کہ یہ واقعہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے صنعتی زون میں ہوا ہے اور اس کا شکار ایک ایسے ملک کا شہری ہوا ہے جو پاکستان کا برصغیر میں قابلِ اعتماد دوست ہے جو ہر مشکل وقت میں اس کے ساتھ کھڑا ہے اور اس معاملے میں اس نے اپنے قریبی ہمسائے، بھارت ، کی بھی کبھی پرواہ نہیں کی۔سوموار کو ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں وزیر اعظم نے کہا ہے کہ آئندہ اس طرح کے واقعات کو برداشت نہیں کیا جائیگا اور یہ کہ اس امر کو یقینی بنانے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کو بروئے کار لایا جائیگا۔ واقعے میں ملوث افراد کی پکڑ دھکڑ بھی زور و شور سے جاری ہے اور انہیں قرارِ واقعی سزائیں دینے کا عہد بھی کیا جارہا ہے۔ یوں حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ یہ شدت پسندی کا مقابلہ کرنے کیلیے ایک تو تیار نہیں ہے دوسرے یہ معاملے کی سنگینی کو یکسر نہیں سمجھ پارہی۔ یہ حقیقت بھی عیاں ہوچکی ہے کہ اب تک اس نے اپنی توانائیاں ایسے معاملات پر صرف کی ہیں جو اس سے متعلق ہی نہیں تھے۔ جو کام کرنے کے تھے وہ یا تو شروع ہی نہیں کیے جاسکے یا پھر انہیں بے ڈھنگے انداز میں سرا نجام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ حالات میں سدھار کی بجائے خرابی آئی ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے تناظر میں وفاقی اختیارات واضح تھے لیکن ٹیکسوں کے نظام میں اصلاحات ، برآمدات کا فروغ، اخراجات میں کمی ، تعزیراتی قوانین میں ترمیم، مالی ،عدالتی اور اتنظامی اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی پر اس کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے. اسی طرح امن و امان ، تعلیم، صحت اور معاشی و معاشی ترقی کی ذمہ داری صوبوں کی ہے جنہوں نے اسے مقامی سطح پر منتقل کرنا ہے۔ کسی نے اپنا کام نہیں تو نہیں کیا لیکن بنے بنائے معاملات میں ٹانگ اڑا کر خرابی ضرور پیدا کی ہے۔