ایک سیاسی جماعت جو عوام میں سب سے زیادہ مقبول جماعت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے وہ الیکٹیبلز پر اتنا زیادہ انحصار کیوں کررہی ہے ۔یا تو پارٹی اتنی مقبول نہیں کہ اپنے بل بوتے پر اکثریت حاصل کر سکے، یا اسے اپنی اہلیت پر اعتماد نہیں، یا پھر اسے الیکٹیبلز کو اپنانے پر مجبور کیا گیا ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو، یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ چونکہ الیکشن ہی ڈی فیکٹو کو قانونی حیثیت دینے کا واحد راستہ ہے، لہٰذا اشرافیہ قانون سازی کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی پر اپنی گرفت کو برقرار رکھنے کے لیے اتحاد بنا رہی ہے۔ اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ ناپسندیدہ دخل اندازی کرنے والوں، جیسے اصلاح پسندوں کو انتخابات جیتنے سے روکا جائے۔ تعجب کی بات نہیں کہ اکثر ایسے عناصر نہ صرف اصلاحات کی مخالفت کرتے ہیں بلکہ عوام کے حامی، خواتین کے حامی قانون سازی پر عمل درآمدمیں بھی رکاوٹ بنتے ہیں۔ جس کی وجہ سے میں ان کے لیے electable جیسی قابل احترام اصطلاح استعمال کرنے سے گریزاں ہوں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1990ء کی دہائی میں انہیں لوٹا یعنی ٹرن کوٹ کہا جاتا تھا۔ الیکٹیبلز کی تشہیر محض ان کی جیت کے اصل عوامل کو چھپانے کی کوشش ہے۔ لہذا، الیکٹیبلز کے رجحان کو اس زاویے سے جانچا جا سکتا ہے۔ آکسفورڈ ڈکشنری میں انتخابات کی تعریف "سیاسی دفتر کے لیے ووٹرز کے ذریعے ایک رسمی اور منظم انتخاب" کے طور پر کی گئی ہے۔ معروف پولسٹر پیٹرک مرے نے انتخابی صلاحیت کی تعریف کی ہے "انتخاب جیتنے کی قابلیت، جیسا کہ ووٹرز، پارٹی کے اندرونی، سیاسی پنڈتوں اور میڈیا کے ذریعے اندازہ کیا جاتا ہے"۔ لیکن مرے کی تعریف مغرب پر مرکوز معلوم ہوتی ہے، کیونکہ وہاں شہری آزادیوں کا احترام کیا جاتا ہے۔ ہماری صورتحال بہت کثیر الجہتی ہے۔ اس کے علاوہ ’’چھپے ہاتھ‘‘ انتخابی عمل میں ہیرا پھیری کرکے نتائج کو تبدیل کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی اکثریت کا میڈیا اور ریاستی اداروں پر اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے۔ مغرب کے برعکس، صرف چند لوگ ہی اہم معاملات میں اپنی آزاد مرضی کا استعمال کر سکتے ہیں۔ جیسے کہ پولنگ، جب کہ اہم اکثریت کسی نہ کسی دباؤ اور جبر یا فوری فائدے کے تحت ووٹ ڈالنے کی عادی ہو چکی ہے جیسے ووٹ کے لیے نقد رقم یا لالچ۔ حالیہ رپورٹس یہ بھی بتاتی ہیں کہ پاکستان کی 40 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور آمدنی اور عدم مساوات تیزی سے پھیل رہی ہے جبکہ اشرافیہ نے معاشرے، معیشت اور ریاستی مشینری کے ہر شعبے پر قبضہ کر رکھا ہے۔پاکستان کا انتخابی نظام بھی فطری طور پر امیروںکے لئے ہی فائدہ مند ہے کیونکہ اس کے ہوتے ہوئے وہ آسان جوڑ توڑ کر سکتے ہیں اس نظام میں کوئی ایک ووٹ سے بھی جیت سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں 239 فاتحین کی جیت کا فرق 5000 سے کم ووٹوں سے تھا۔ اگرچہ زیادہ تر حلقوں میں دو طاقتور الیکٹیبلز کا مقابلہ ہے۔ان میں درج ذیل خصوصیات میں سے زیادہ ہونے کا امکان ہے: 1) زمین کی ملکیت کا حجم اور فارم پر موجود خاندانوں کی تعداد؛ یا کاروبار کا سائز اور ملازمین کی تعداد۔ 2) رقم خرچ کرنے کی صلاحیت ۔ 3) اس کے براردری یا قبیلے کا سائز۔ 4) مزار کا متولی۔ 5) اقربا پروری ۔ ووٹوں کو متحرک کرنے والوں کے لیے نوکریوں کی تعداد اور حلقے میں خرچ کیے جانے والے ترقیاتی فنڈز۔ 6) بے ایمان ہونا - ووٹ خریدنے، زبردستی کے ذرائع استعمال کرنے اور حریفوں کو دھمکانے، منحرف ووٹروں کے خلاف چوری وغیرہ کے جعلی مقدمات درج کرنے وغیرہ میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کرنا۔ 8) پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ تعلقات۔ 9) انڈر ورلڈ اور مجرموں کے ساتھ تعلقات۔ 10) طاقتوروں کے لیے نرمی اور کمزوروں کے ساتھ سختی کارویہ۔ جبکہ ان الیکٹبلز کی اچھی صفات کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جیسے: 1) آسانی سے قابل رسائی اور حلقوں کی ضروریات کا جوابدہ ہونا۔ 2) فیاض اور ہمدرد ہونا۔ 3) پیشہ ورانہ اداروں یعنی بار ایسوسی ایشنز، پریس کلبوں، تاجروں کی انجمنوں وغیرہ کے ساتھ تعلقات۔ اسٹیبلشمنٹ اور انتظامیہ کے ساتھ اچھے تعلقات نے ہمیشہ کسی کو الیکٹ ایبل بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ اپنی حمایت سے دستبردار ہو جائے تو مذکورہ بالا صفات میں سے اکثر راتوں رات ختم ہو جاتی ہیں۔ الیکٹیبلز پارٹی کی رکنیت سازی اور انٹرا پارٹی انتخابات سے نفرت کرتے ہیں۔ تعجب کی بات نہیں کہ کوئی بھی پارٹی منشور کی بات نہیں کرتی۔ اس طرح وہ لیڈروں کو یرغمال رکھتے ہیں۔ تقریباً ہر الیکٹ ایبل نے غیر منصفانہ ذرائع سے دولت اکٹھی کی ہوتی ہے اور اپنے خاندان کے افراد کو اسمبلیوں تک پہنچایا ہوتاہے جس کے نتیجے میں جمہوریت کی سماجی جڑیں کھوکھلی ہوتی جاتی ہیں۔ درحقیقت وہ پرانے زمانے کے لوگ ہیں لیکن ’الیکٹ ایبل‘ بننے میں کامیاب ہو گئے۔ عمران خان درجنوں لوٹے گلے لگا چکے تھے جن میں سے اکثر نے چار سال بعد انہیں دھوکہ دیا۔ 1985ء کے الیکشن کے بعد سے الیکٹیبلز نے اپنے اسی کردار کو سچ ثابت کیا ہے۔ اس کے باوجود سیاسی قائدین انہیں گلے لگانا جاری رکھا ہوئے ہیں۔ اس سے مجھے ایک مشہور کہانی یاد آتی ہے۔ کچھوا اور بچھو گہرے دوست تھے۔ برسات کے موسم میں ان کی زمین سیلابی پانی میں ڈوب جاتی تھی۔ بچھو بہت پریشان ہوا اور کچھوے سے کہا کہ وہ اسے خشک زمین پر لے جائے کیونکہ کچھوے کے برعکس وہ سیلاب کے پانی کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ کچھوے نے اسے اپنی بڑی پیٹھ پر بیٹھنے کو کہا اور تیرنے لگا۔ آدھے راستے میں کچھوے کو اپنی پیٹھ پر کچھ عجیب سا محسوس ہوا اور اس نے بچھو سے پوچھا کہ کیا ہو رہا ہے؟ بچھو نے کہا، ’’میں اپنے ڈنک کی جانچ کر رہا ہوں کہ آیا یہ تمہارے سخت خول کو چھیدتا ہے‘‘۔ کچھوے نے وہ کیا جو وہ کر سکتا تھا۔ اس نے اپنی پیٹھ پانی کے نیچے ڈبو دی اور بچھو کو پانی میں جھٹک دیا۔ میں کسی کو بچھو نہیں کہنا چاہتا کیونکہ کچھ انسان خاص طور پر وہ لوگ جو دولت اور طاقت جمع کرتے ہیں وہ جانوروں سے زیادہ بدتر ہوتے ہیں۔ مگر جمہوریت کے لئے کچھوے کی طرح عوامی اور سیاسی جماعتوں کو اپنے درمیان الیکٹیبلز بچھوؤں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔