ادارتی صفحے پر سیاست اور حالات حاضرہ کے "ہائی پروفائل "مسائل پر بات ہوتی ہے۔سیاست کا یہ تماشہ دہائیوں سے اسی طرح جاری ہے۔ ہر نوع کی اشرافیہ ارباب اختیار واقتدار کے مفادات کا تحفظ اس مظاہر سیاسی عدم استحکام اور معاشی زوال پذیری میں بھی ابھی ٹائم رہتا ہے۔ نقصان سفید پوش پاکستانی کا ہو رہا ہے جس کی چنگیر سے روٹی بھی چھینی جا چکی۔پاکستان میں غربت کی شرح بلامبالغہ ساٹھ ستر فیصد تک تجاوز کر چکی ہے۔غریب وطن سخت مشکل سے دوچار ہے۔خوفناک مہنگائی ہاتھوں میں ریت کی طرح پھیلتی ہوئی آمدنی کے ساتھ زندگی کرنا مشکل تر ہوتا جارہا ہے ۔غلام نبی ایک پارک میں ڈیلی ویجز پر کام کرتا ہے ۔ وہ سکیورٹی گارڈ ہے ایک دن بھی چھٹی کرتا ہے تو اس کی تنخواہ کٹ جاتی ہے۔اس کے لیے یہ غیر انسانی اصول کس نے بنایا کہ اسے ایک دن کی چھٹی کا استحقاق بھی حاصل نہیں۔ گزشتہ دس سال میں اس کی تنخواہ صرف 25000 ہوئی۔ ہے اور اگر مہنگائی کی بات کریں تو گزشتہ دو تین سالوں میں مہنگائی خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ غلام نبی کریانے کی دکان پر سوداسلف لانے بھی گھبراتا ہے، پچھلے 6 مہینوں سے اس کے ساتھ یہی ہو رہا ہے وہ کچھ لینے کے لئے جاتا ہے تو جیب میں پڑے ہوئے پیسے کم ہو جاتے ہیں اور۔ وہ شرمندہ ہوکر سوداسلف لیے بغیر ہی کبھی وایس لوٹ آتا ،کبھی دکاندار سے ادھار کر لیتا ہے یہ محلے کا دکان دار ہے اس کے ساتھ آس پاس کے گھروں کا ادھار چلتا ہے۔گھر میں گوشت تو پہلے بہت کم بنتا تھا صرف دال اور سبزیوں پر گزارہ ہوتا تھا لیکن اب یہ حال ہے کہ دال بھی پہنچ سے باہر ہے اور سبزیوں کاتو کچھ نہ پوچھیں ایک کلو پیاز خریدنا بھی اس کی جیب پر بھاری پڑ رہا ہے، ان حالات میں اس کے خاندان نے فیصلہ کیا کہ وہ دن میں ایک دفعہ کھانا بنائیں گے۔ پچھلے دنوں وہ ؎ خاندان میں ہونے والی ایک شادی پر گئے تو اس کے بچوں نے کئی مہینوں کے بعد مرغی کا گوشت کھایا ورنہ اس دوران اس نے گوشت خریدا ہی نہیں ۔بس بڑا بچہ بیمار ہوا تو اس نے بیوی کو ایک پاؤ مرغی کا گوشت لادیا اس بھلی مانس نے شوربہ بنا کر اچھی بھلی ہانڈی بنا دی یوں شوربے کے ساتھ ایک ایک بوٹی سب کے حصے میں آگئی ۔ بڑا بچہ سخت بیمار ہوگیا تھا چھوٹی موٹی بیماری میں تو محلے کے کمپوڈر ہی سے دوائی لے کر بچوں کو کھلا دیتا ہے لیکن اس بچے کو ہسپتال لے جانا پڑا پورے پانچ ہزار بچے کی بیماری پر خرچ ہوگئے 25 ہزار روپے تنخواہ میں سے پانچ ہزار نکل جائیں تو غلام نبی کی تو سمجھیں معاشی صورت حال ہی ہل کر رہ گئی۔ ایک اور کہانی سنیں یہ کہانی ایک فیکٹری ورکر عبد الرشید کی ہے۔یہ فیکٹری ورکر شیخوپورہ کے نواح میں ایک فیکٹری میں کام کرتا ہے جو معاشی صورتحال کے پیش نظر بند ہو چکی ہے ،عبدالرشید ان سینکڑوں فیکٹری ورکروں میں شمار ہوتا ہے جو بے روزگار ہو چکے ہیں اب ان کے کمانے کا کوئی ذریعہ نہیں رہا مگر ان کے اخراجات وہی ہیں عبدالرشید کی بیوی گھر میں کپڑے سیتی ہے جس سے تھوڑا بہت گزارا ہوجاتا ہے۔ تین وقت کھانے کا تصور پہلے بھی اس کے گھر میں نہیں تھا دو وقت کی روٹی مشکل سے پوری ہوتی تھی اور اب بمشکل ایک وقت کی روٹی پوری ہوتی ہے۔سردیوں کے موسم میں گیس کا بحران ہے ،بجلی نہیں آتی ،لکڑیاں بہت مہنگی ہیں، کھانا بنانے کے لیے کبھی کبھی سلنڈر میں گیس بھروائیں تو ڈھائی سو روپے کلو گیس بھری جاتی ہے جو بمشکل دو دن چلتی ہے۔عبدالرشید سوچتا ہے کہ وہ کیا کریں وہ اسی ادھیڑ بن میں رہتا ہے کیونکہ اس کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ چھوٹی سی دکان ڈال سکے۔ عبدالرشید کو حالات حاضرہ سے لگاؤ ہے وہ خبریں بھی سنتا ہے اور ٹیلی ویڑن پر آنے والے سیاسی ٹاک شوز بھی بڑی توجہ سے دیکھتا ہے۔اس کی ساری زندگی مختلف سیاسی جماعتوں کے سیاست دانوں کی جھوٹی تقریروں سے باندھی ہوئی امیدوں کے سہارے گزر گئی وہ یہی سوچتا رہا کہ اب فلاں پارٹی کی حکومت آئے گی تو غریب کے حالات بدلے گی۔ سال تو کیا کئی دہائیاں گزر گئیں اس کے حالات تو نہ بدلے بلکہ اس کی معاشی حالت بد سے بد تر ہوتی چلی گئی۔پاکستان کے لاکھوں لوگوں کی طرح وہ بھی سیاستدانوں سے مایوس ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ اسے تو ایک وقت کی روٹی کے لالے پڑے رہتے ہیں دوسری طرف وہ خبروں میں سیاستدانوں کی اربوں کھربوں کی مالی بدعنوانیوں کی خبریں سنتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے ۔کوئی گھڑیاں بیچ کر کروڑوں کما رہا ہے کسی نے لندن میں اربوں روپے کے فلیٹس بنا لیے۔وہ اپنے گھر کے خستہ مکان میں بیٹھ کر ٹی وی کی جگمگاتی سکرین پر سیاستدانوں کی چمکتی دمکتی، مہنگی گاڑیوں سے انہیں اترتے چڑھتے دیکھتا ہے اور پھر اپنے زندگی کی بدحالی اور خستہ حالی پر نگاہ ڈالتا ہے تو اسے یہ دو مختلف دنیائیں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ محض اتفاق کی بات ہے کہ گذشتہ سال جب وہ اپنی بڑی بیٹی کی رخصتی کے لیے پریشان رہتا تھا انہی دنوں مریم نواز اپنے بیٹے کی شادی رچا رہی تھی۔ وہ ہر روز ٹی وی پر شادی کی یہ لمبی لمبی تقریبات دیکھتا اور حیران پریشان رہتا ،خود اس کی نیند اڑ چکی تھی کہ بیٹی کو رخصت کیسے کرے گا نہ اس کے پاس بیٹی کو دینے کے لیے جہیز کے پیسے تھے نہ سو پچاس مہمانوں کو کھانا کھلانے نے کی سکت تھی وہ تو بھلا ہو کہ اس کی درزن بیوی سے کپڑے سلوانے والی کچھ سخی دل باجیوں نے فی سبیل اللہ اس کی بیٹی کی شادی میں مالی مدد کی ،پھر اس کی بیوی کی ڈالی ہوئی کمیٹی بھی بر وقت کام آگئی توکچھ نہکچھ گزارا ہوگیا کہ عبدالرشید اپنی بیٹی کو رخصت کر سکا شادی کی تقریب کیا تھی ، حسرتوں اور ناتمام خواہشوں کا ایک بجھا ہوا الاؤ تھی جس کا خیال اسے آج بھی نمناک کردیا ہے ۔ادارتی صفحہ پر حالات حاضرہ کے ہائی پروفائل ایشوز کے درمیان غربت کی یہ کہانیاں چھپتی رہیں گی۔شاید کسی اہل اختیار واقتدار کی نگاہ سے گزریں۔۔شاید۔!!