پنجاب اور پنجابی زبان ہمارے دو ایسے عشق ہیں جن پر کوئی سمجھوتہ نہیں۔یہ واری کا بخار نہیں کہ ایک دن چڑھے اور دوسرے دن اترے۔یہ بخار عشق کا تپ ِ محرکہ ہے۔ لگاتار، دمبدم از مہد تا لحد۔علم بھی از مہد تا لحد ہوتا ہے۔ اس کی کوئی حد نہیں عشق بھی بے لگام ہے۔ افضل راز کو یہ عشق ہوئے ایک عمر ہو چکی۔ درمنداں دے سخن محمد دیہن گواہی حالوں جس پلّے پھل بدھے ہوون آوے بو رومالوں بخار کوئی بیماری نہیں یہ بیماری کی علامت ہے۔پنجابی سے محبت کا بخار ایک گوڑھے عشق کی علامت ہے۔افضل راز کا بخار " کانگاں" کے روپ میں لگا تار ہر سہ ماہی ظہور کرتا ہے۔کانگاں صوری اور معنوی دونوں اعتبار سے ایک اعلیٰ جریدہ ہے جو 1990 سے گجرات شہر سے منصہ ِ شہود پر آیا۔ سمجھنا چاہیے کہ اس کار ِ عشق کے پیچھے وہ کون سی پراسرار طاقت کارفرما ہے۔ پنجاب کے بارے میں انگریزوں کے مخاصمانہ رویے کو پنجابی زبان اور مابعد نوآبادیات کے تحت دیکھنے کی ضرورت ہے۔یہ ایک کمپلیکس صورت ِاحوال ہے اور کسی مضمون کی متقاضی ہے۔ تاہم یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ انگریزوں کی یہاں سے رخصتی کے بعد بھی پنجاب اور پنجابی زبان کیوں ایک غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ سکھ عہد پنجاب میں عین نصف صدی پر مشتمل ہے یعنی 1799 تا 1849۔اس عرصے میں سرکاری زبانیں فارسی اور پنجابی رہیں۔اور یہی دو زبانیں یہاں کی اکثریت مسلمان آبادی کی زبانیں تھیں۔اس پنجاب سلطنت میں تبت، کشمیر، پختون خواہ اور مٹھن کوٹ تک کا علاقہ شامل تھا۔اس سکھ مسلم پنجاب حکومت کا نعرہ یا ترانہ" دیغ تیغ فتح " تھا۔اس نعرے یا اعلامیہ کے تینوں الفاظ پر غور کریں تو اس میں صوبے کی اکثریت کی نفسیات کا عکاس ہے۔پہلی دفعہ پنجاب میں پنجابیوں کی حکومت قائم ہوئی تھی۔گورو نانک اور گرو گوبند کے فلسفے کے تحت جنگ میں فتح اور امن میں خوش حالی کے فرمان پر وہ حکومت قائم تھی۔گرو کا لفظ زیادہ تر گرو گوبند کے لیے استعمال ہوتا تھا۔بعد میں یہ سارے دس گروؤں کے لیے مستعمل ہو گیا۔اصل گرو گوبند ہی تھے۔اس عہد کا اصل اصول اکال سہائے تھا۔ ایسٹ انڈیا کے اپنے سروے کے مطابق ان پچاس سالوں میں پنجاب میں تعلیم کا معیار، سلیبس اور سہولیات اس ذریعہ ِتعلیم میں بہتر تھا جو انگریزوں نے باقی مفتوحہ علاقوں میں متعارف کروایا تھا۔خود Leitner W.G کے الفاظ میں کوئی مسجد کوئی مندر یا کوئی دھرم شالہ ایسا نہ تھا جہاں سکول نہ تھا۔سن سینتالیس کے بعد صورت ِ حال بہتر ہونے کی بجائے بدتر ہو گئی کہ ایک صدی کی حکومت کے دوران انگریز نے اپنے غلام کثیر تعداد میں پیدا کر لیے تھے اور یہاں کی زبان اردو بنا کر پنجابیوں کو"جاہل اور گنوار" بنانے کی باقاعدہ مہم شروع کی گئی جو آج تک جاری ہے۔ افضل راز پنجاب کے دل گجرات میں اسی مابعد نوآبادیت کے آگے بند باندھے کھڑے ہیں۔انہوں نے 1990ء سے ادبی پرچہ کانگاں جاری کیا جو پچھلے چوبیس سالوں سے جاری ہے۔کانگاں قدیم اور جدید پنجابی ادب کا امتزاج ہے۔زیر نظر پرچے میں چار ادیبوں کی کتب شامل ہیں۔ ایک حصہ تو پنجابی زبان کے عظیم محقق اور دانشور شہباز ملک کی کتب کی تفصیل اور ان کے دوسرے کارناموں کے لیے مختص کیا گیا ہے۔یہ عمارہ صائمہ کا مقالہ ہے جو انہوں نے ڈاکٹر عائشہ رحمان کی نگرانی میں مکمل کیا ہے۔اس میں شہباز ملک کی تمام کتب اور ان کے تفصیل دی گئی ہے۔یہ ایک تحقیقی مقالہ ہے۔ کانگاں کا دوسرا مشمولہ لاٹاں نام کی کتاب ہے جس کے شاعر اکرم باجوہ ہیں جس میں ان کی غزلیں نظمیں اور گیت شامل ہیں۔انہوں نے بابا فرید، باہو، میاں محمد بخش، مولوی غلام رسول عالم پوری، شاہ حسین، غلام فرید، ڈاکٹر فقیر محمد اور امین راہی کو شاعری میں خراج پیش کیا ہے۔عارف یار سوہلوی نے اپنے دیس پنجاب کے شہر جلال پور جٹاں کو یاد کیا ہے۔ شہر گجراتوں چڑھدے پاسے شہر جلال پور جٹاں چھمنب بریت زراعت اس دی رلیاں ملیاں وٹاں یہ درست ہے کہ مابعد نوآبادیات کے نوآبادیاتی افراد ایک مابعد نوآبادیاتی شناخت تیار کرتے ہیں جو مختلف شناختوں (ثقافتی، قومی اور نسلی نیز صنفی اور طبقاتی بنیادوں پر) کے درمیان ثقافتی تعامل پر مبنی ہوتی ہے جسے نوآبادیاتی معاشرے کی طرف سے سماجی طاقت کے مختلف درجات تفویض کیے جاتے ہیں۔ کانگاں کا سب سے آخری حصہ اگرچہ فرانک پاولوف کی فرانسیسی کہانی کا ترجمہ " بھوری سویر" کے نام سے کیا ہے۔خالد دھاریوال ایک باہنر ادیب ہیں ان کے اس ترجمے کو کانگاں کو اور وقیع کر دیا ہے۔ کتابوں پر انعامات کا سلسلہ بھی 2006 میں جاری کیا جو ہنوز کامیابی سے جاری ہے۔افضل راز نے پچیس سال کی عمر میں جو کام آغاز کیا تھا وہ اب بھی کامیابی سے جاری ہے۔پنجابی زبان کی جس طرح خدمات انہوں نے انجام دی ہیں وہ مابعد نو آبادیاتی عہد میں کسی سرکاری ادارے سے کم نہیں۔ کسی نیک خدا ترس بزرگ نے وفات سے قبل وصیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ میری قبر کو روزگار کا وسیلہ نہ بنا لینا۔ یہی کچھ ہماری پنجابی تہذیب، زبان اور ادب سے ہو رہا ہے۔ایسے ایسے مابعد نو آبادیاتی پنجابی زبان و ادب کی قبر بنانے کے فن کے ماہر ہیں کہ انہوں نے اسے مجاوری کا روپ دے دیا ہے۔کیسے کیسے ادبی مجاور ہیں شاہ دولے کے چوہے!!!