لیجیے رمضان کا آغاز ہو چکا اور ہم نے اب اپنی مسلمانی ثابت کرنے کے لیے ہر چیز پر ناجائز منافع خوری کر نی ہی کرنی ہے۔مجال ہے کہ ہمارے روزے ،نمازیں، تراویح ہمیں ناجائز منافع خوری سے روکیں۔کئی عرب ملکوں میں اس ماہ مبارک کے ساتھ بڑی بہت خوب صورت روایتیں جڑی ہوئی ہیں۔ رمضان کے آغاز پر ہی ضرورت زندگی کی تمام چیزوں میں خاطر خواہ کمی کر دی جاتی ہے تاکہ امیر غریب تمام رمضان کی برکتوں سے فیض یاب ہو سکیں پھر عید کی آمد کی وجہ سے بھی کپڑوں جوتوں میں ڈسکاؤنٹ آفر کیا جاتا ہے تاکہ تمام لوگ عید کی تیاریاں کر سکیں۔ یہ خوب صورت جذبہ ہے کہ اس طرح ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے آسانی پیدا کرتا ہے اور خود بھی زندگی میں آسانیاں سمیٹتا ہے۔صرف مسلم ممالک ہی میں نہیں بلکہ امریکہ ،برطانیہ، آسٹریلیا جیسے غیر مسلم ملکوں میں بھی بڑے بڑے سٹورز پر مسلمانوں کو رمضان ڈسکاؤنٹ دیا جاتا ہے۔لیکن ہم تو پاکستانی ہیں خیر سے اور ہماری روایتیں بھی دنیا سے الگ ہی ہیں۔ یہ بدبختی نہیں تو اور کیا ہے کہ ادھر رمضان کارحمتوں کا مہینہ قریب آ رہا ہوتا ہے ادھر مڈل کلاس سے لے کر سفید پوش عام پاکستانی، آنے والی ممکنہ مہنگائی سے پریشان ہوتا ہے کہ مہنگائی کے وہ جھکڑ چلیں گے کہ اس کی قوت خرید کو اڑا لے جائیں گے۔ یہی روایت ہم برس ہا برس سے دیکھ رہے ہیں افسوس یہ چلن ہر سال ہوتا ہے ہر سال حکمران بھی دعوے کرتے ہیں کہ مہنگائی پر قابو پا لیا جائے گا۔سرکاری سطح پر بھی وہی گھسے پٹے دعوے اور بیانات دہرائے جاتے ہیں کہ ناجائز منافع کی اجازت نہیں دی جائے گی ،قیمتیں کنٹرول کی جائیں گی لیکن ہوتا وہی ہے جو اس وقت ہو رہا ہے۔ سرکار کی یہ کارکردگی اسی نوعیت کی ہے کہ جب دہشت گرد حملہ کر کے تباہی اور بربادی کا سامان کر جاتا ہے تو پھر سرکاری بیان آتا ہے کہ دہشت گردوں کو تباہی پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔سو رمضان میں پورا معاشرہ اس بدبختی کی لپیٹ میں نظر آتا ہے ناجائز منافع خوروں کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہیسرکاری مشینری اس مافیا کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ رمضان سستے بازار لگانے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اپ باقی دکانداروں کو من مانی قیمتیں وصول کرنے کی کھلی چھٹی دے رہے ہیں۔رمضان المبارک میں پھلوں کا خریداری میں اضافہ ہوتا ہے بیسن گھی کی کھپت بڑھ جاتی ہے اور اب تک ان اشیاء سمیت تمام چیزوں کی قیمتیں دگنی ہو چکی ہیں۔ سوائے خبروں کے پنجاب حکومت کا وجود کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔یہ صورتحال ہم ہر سال دیکھتے ہیں ہر سال اس پر ٹی وی چینلوں پر خبریں چلتی ہیں، اسپیشل پیکج بنتے ہیں، کالم نگار کالموں میں اس کا تذکرہ کرتے ہیں لیکن سرکار کی مشینری قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ ناجائز منافع خوری کرنے والوں کو سخت سزائیں دینی چاہیںلیکن سزائیں کون دے گا ایسا لگتا ہے کہ قیمتوں کو کنٹرول کرنے والی سرکاری مشینری بھی ناجائز منافع خوروں کے ساتھ ملی ہوئی ہے اور وہ ان سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ رمضان المبارک میں ہمارا منافقت سے بھرا چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوتا ہے ،یوں تو یہ منافقت سارا سال ہی جاری رہتی ہے لیکن رمضان میں اس کی ہوا ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ ایک طرف مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے دوسری طرف معاشرے میں بے چینی مہنگائی ناجائز منافع خوری اور خرید و فروخت میں دھوکے اور بددیانتی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جھوٹ بولنا ہمارے نزدیک برائی ہی نہیں۔جھوٹ کے بارے حکم ہے کہ جو جھوٹ بولتا ہے نیکی کا فرشتہ اس سے 40 میل دور چلا جاتا ہے۔ ایک جھوٹ کی کوکھ سے انگنت نئے جھوٹ پیدا ہوتے ہیں اور آہستہ آہستہ پورا معاشرہ ہی جھوٹ کے اس گرد و غبار کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔جھوٹ کے اس کاروبار نے فضا میں نحوست اور بدبختی کی ایک سموگ ہم پر تان دی ہے جس نے ہمیں اپنے حصار میں لیا ہوا ہے۔ہم دھوکہ دہی جھوٹ اور بددیانتی سے اللہ کی برکتوں کو خود سے دور کر دیتے ہیں۔ درجہ چہارم کے ملازم سے لے کر ایک حکمران تک، ایک بیوروکریٹ ،جنرل ، جج اور خاکی اور کاروباری اشرافیہ ،مزدور دکان دار تاجر صحافی اینکر کالم نگار ہر شخص اپنے حصے کا جھوٹ بولتا ہے روزی صرف بھوک اور پیاس کی مشقت نہیں ہمیں معاملات کو بھی درست کرنا چاہیے۔ ہم ہی تو ہیں جو سوشل میڈیا پر دوسروں کو اخلاقیات کے لیکچر دیتے ہیں مگر اپنی اخلاقیات یہ ہے کہ رمضان میں پہلیسے مہنگی چیزوں پر اپنی طرف سے رمضان ٹیکس لگا کر مزید مہنگا بیچتے ہیں حتی الامکان کوشش کرتے ہیں کہ خریدنے والے کو دھوکے میں رکھا جا سکے۔ ہم ہی تو ہیں جو سوشل میڈیا پر خرید و فروخت میں آن لائن ایسے ایسے حیران کن دھوکے کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ہماری جینز میں کچھ ایسی میوٹیشن ہوچکی ہے کہ ہم دھوکے فراڈ اور بددیانتی کے نئے نئے طریقے اخذ کر نے میں ماہر ہیں۔ ہمارا دماغ بددیانتی فراڈ دھوکہ دہی میں اتنا چلتا ہے کہ ایمازون کی انٹرنیشنل مارکیٹ میں جب ہم گوروں کے ساتھ بھی دھوکہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر ہمارے ہزاروں اکاؤنٹس ایمازون کی کمپنی کو معطل کرنے پڑتے ہیں۔بحیثیت مسلمان ہماری اخلاقی اقدار کیا ہیں جن چیزوں کا پرچار ہم سوشل میڈیا پر کرتے ہیں اور لوگوں کے پیچھے ہم لٹھ کے پڑے رہتے ہیں کیا ہم نے اپنے لیے بھی ویسے ہی اخلاقی معیار طے کیے ہیں۔ ہم سیاست دانوں کو برا بھلا کہتے ہیں اور ان پر تنقید کرتے ہیں حکمران بھی ہمارے ہی کردار کا عکس ہیں۔اس رمضان بھوک پیاس کی مشقت کاٹنے کے ساتھ اپنے کردار کو بھی بہتر کرنے کی کوشش کریں۔ایک سوال روزہم خود سے ضرور پوچھیں کہ آج اللہ تعالی کے لیے روزہ رکھا اللہ کے لیے بھوک پیاس کی مشقت کاٹی تو اپنے معاملات میں ہم اس حد تک کھرے رہے؟اللہ اور رسول کے باقی احکامات پر ہم نے کتنا عمل کیا؟ اپنے آس پاس خود سے جڑے ہوئے لوگوں کو ہم نے آسانی دی یا ان کی زندگیوں کو مشکل سے دوچار کیا؟میرے ساتھ آپ بھی روزانہ یہ سوالات خود سے پوچھیںاور ان کے جواب تلاش کریں۔ ٭٭٭٭٭