گھاناکے سابق صدر کوامے نکرومہ (kwame Nkumah)نے کمزور ممالک کی آزادی کی حقیقت ان الفاظ میں بیان کی تھی ’’طاقتور قومیں کمزور قوموں کا مقدر ان کی مرضی کے بغیر بالکل اسی طرح لکھتی ہیں جس طرح ایک مجسمہ ساز نرم مٹی کی مرضی پوچھے بغیر اپنی خواہش کی تسکین کے لئے مجسمے بناتا ہے۔ دو عظیم جنگوں کے بعد دنیا میں طاقت کے مراکز کے ساتھ کمزور اقوام پر حکمرانی کے طریقے بھی تبدیل ہوئے۔ ملک فتح کرنے کے بجائے اقوام کو طاقتوروں کی مرضی اورضرورت کے مطابق فیصلے قبول کروانے کے لئے مجبو ر کرنے کے لئے بساط بچھائی جانے لگی ۔ مختلف خطوں میں مفادات کے تحفظ کے لئے مہرے تشکیل دیے گئے۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی ریاست کی موجودگی عرب ریاستوں کی حقیقی آزادی اور مجسمہ ساز کی بہترین مثال ہے۔ 1948ء میں طاقتوروں نے عربوں کے عین قلب میں یہودی ریاست قائم کرنے کا فیصلہ کیا عرب ممالک آزادی کے وہم کا شکار ہوئے اور دو ریاستی فارمولا تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ طاقتور کو انکار کا مطلب اپنے ہی حق سے جبری دستبرداری کی صورت میں نکلا۔ فلسطینیوں نے گزشتہ 76برسوں میں اپنی زمین پر جب جب مزاحمت کے ذریعے اپنا حق جتلانے کی کوشش کی تب تب انہیں اپنی زمین کے کچھ حصوں سے محروم کر دیا گیا۔ یقین نہ آئے تو 1948 ، 1967، 1973ء کی جنگوں میں فلسطینیوں نے کیا کھویا کیا پایا دیکھ لیں۔ کچھ عالمی سیاست کے پنڈت تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اسرائیل کو جب فلسطینیوں کی مزید زمین ہڑپنی ہوتی ہے فلسطین سے اسرائیل پر حملے ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہر حملے کے بعد امت مسلمہ میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے اعلان ہوتے ہیں جو بدقسمتی سے محض فلسطینی عوام کے لئے صبر کے مرہم پر ہوتے ہیں کہ عالمی خواہشات کے مطابق فلسطینی سر تسلیم خم رکھیں۔گو کچھ حلقوں کی طرف سے عالمی شطرنج چلی جانے والی چالوں کی گتھی سلجھانے کی کوشش بھی ہوتی رہیں ہیںمگر فلسطین کے مقدر کے فیصلے ہمیشہ ہی طاقتور مجسمہ سازوں کے ہاتھ میں رہے ہیں۔ 7اکتوبر کو دنیا نے طوفان الاقصیٰ کا نظارہ کیا حماس کی طرف سے اسرائیل کے دفاعی حصار توڑنے پر مسلم دنیا بھلے ہی کسی واہمے کا شکار ہو کر مگر عالمی سطح پر اس اچانک حملے اور اسرائیل کے ردعمل پر عالمی منظر نامے پر نظر رکھنے والے مسلسل خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔ پہلا اشارہ تو خود واحد سپر پاور امریکہ کی ریاست جارجیا کے 14ویں ڈسٹرکٹ سے تعلق رکھنے والی ریپبلکن جوری ٹیلر گرین نے خود حماس کی طرف سے حملے میں امریکی اسلحہ استعمال ہونے کا انکشاف کر کے دے دیا۔ جوری ٹیلر نے سوال اٹھایا ہے کہ اسرائیل پر حملے کے لئے حماس کے پاس امریکی ہتھیار کیسے پہنچے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ جوری ٹیلر پہلی نہیںجنہوں نے یہ سوال اٹھایا بلکہ حملے سے پہلے خود اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو بھی کہتے رہے ہیں کہ امریکہ یوکرین جنگ کے لئے جو اسلحہ بارود فراہم کر رہا ہے وہ بارود اور ٹینک شکن ہتھیار اسرائیل کی سرحد پر جمع ہو رہے ہیں۔ نیتن یاہو ہی کیونکہ پلٹز انعام یافتہ صحافی سیمور ہرش نے تو یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے جو امداد یوکرائن کو دی جا رہی ہے اس میں ہر 10ڈالر میں سے چھ ڈالر یوکرین سے باہر منتقل ہو رہے ہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ ایسا صرف یوکرائن اور اسرائیل کے معاملے میں ہی نہیں اس سے پہلے سعودی عرب اور یمن کے حوثیوں کے درمیان جنگ میں امریکہ نے جو اسلحہ سعودی عرب کو حوثیوں کو کچلنے کے لئے فراہم کیا تھا یہی ہتھیار حوثیوں کے استعمال میں ہونے پر بھی دنیا بھر میں سوالات اٹھے تھے۔ ایسا ہی شام میں بھی ہوا کہ امریکہ جو اسلحہ ہ بشار الاسد حکومت کو گرانے کے لئے دیتا رہا وہی اسلحہ عراق ترکی سمیت دیگر خطوں میں استعمال ہوا ۔یوکرائن کو فراہم کئے جانے والے ہتھیار صرف فلسطین ہی میں نہیں بلکہ چاڈ اور نائجیریا میں بھی استعمال ہورہے ہیں۔ امریکی اسلحہ کی اتنی بڑی تعداد میں خود امریکی اتحادیوں کے خلاف استعمال ہونے سے بہت سے حلقوں کی جانب سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں مگر طاقتور کی نفسیات بتاتی ہیں کہ طاقت کسی کمزور کے سوال کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتی۔ یہ فلسفہ مئی 2022ء کو اس وقت ایک بار پھر درست ثابت ہوا جب ریپبلکن سینیٹر رینڈ پال نے امریکی کانگریس سے درخواست کی تھی کہ امریکہ جو 40بلین ڈالر کی امداد یوکرین کو فراہم کر رہا ہے کی نگرانی اور حساب کتاب کے لئے انسپکٹر جنرل تعینات کیا جائے مگر کانگریس نے سینیٹر رینڈ پال کی درخواست بھاری اکثریت سے مسترد کر دی تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی کانگریس بھی یہ نہیں چاہتی کہ امریکہ دنیا بھر میں جہاں جہاں اسلحہ بھجوا رہا اس کا علم دنیا کو یہاں تک کہ خود امریکی حکومت کو بھی ہو۔ حماس کے حملے کے بعد جہاں اسرائیل نے فلسطینی علاقوں میں جس طرح سے تباہ کن بمباری کی ہے اور فلسطینیوں کی عمارتیں تباہ کیں ہیں اس سے عالمی جنگی ماہرین یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ اسرائیل ان علاقوں کو اس طرح تباہ کر رہا کہ بعد میں ان کو نئے سرے سے آباد کرے۔ظاہر ہے یہاں نئی یہودی بستیاں ہی آباد ہوں گی۔ عالمی سیاسی منظر نامے پر نظر رکھنے والے حماس کے حملوں کو روس امریکہ تعلقات بالخصوص امریکہ کی یوکرائن کو مدد کے حوالے سے دیکھ رہے ہیں ان حملوں کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر یوکرائن کی مدد بند کرنے کے لئے دبائو بڑھے گا اور شاید یوکرائن میں روس کا آپریشن اپنے منطقی انجام کو بھی پہنچ جائے اسی طرح اسرائیل کی توسیع کا منصوبہ کی تکمیل کے بعد عرب ریاستوںکو بھی فلسطین کے پاس جو کچھ بچا ہے اس کو دو ریاستی فارمولے کے مطابق تسلیم کرنے پر مجبور کیا جائے،حماس کے اسرائیل پر حملوں کے بعد روس کے صدر پوٹن نے بھی اس کھیل کو امریکہ کی چال قرادر دیتے ہوئے فلسطین کی مکمل حمائت کا اعلان کیا ہے تو دوسری طرف یو اے ای نے حماس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جو بھی ہو،ہو گا وہی جو مجسمہ ساز چاہے گا جس کا اعتراف خود نوم چومسکی بھی کر چکے ہیں کہ امریکہ اپنے دوست ممالک کو اتنا کمزور نہیں ہونے دیتا کہ وہ تباہ ہو جائیں اور اتنا مضبوط بھی نہیں کہ وہ خود کو حقیقی طور پر آزاد سمجھنے لگیں۔۔