ابراہم لنکن نے کہا تھا ’’کسی قوم کی طاقت اس کے لوگوں کے گھروں میں ہوتی ہے۔‘‘افراد اپنی ذات سے اٹھ کر ملک کے لئے سوچیں تو قوم بنتی ہے۔ جب ملک کا مفاد ذات برادری اور علاقے کے پیمانوں میں تولا جائے تو ملک کمزور ہونا شروع ہوتا ہے ۔ حکمرانوں کو عوام کی تائید و حمایت حکومت کو اعتماد اور قوم میں جذبہ حب الوطنی پیدا کرتی ہے۔ پاکستانیوں کی اپنے ملک سے محبت اور تعمیر و ترقی کی خوہش کا اندازہ گزشتہ دنوں نگران وزیر اعظم کو ایرانی تیل اور سمگلنگ کے حوالے سے پیش کی جانے والی رپورٹ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایرانی تیل کی سمگلنگ میں 29 سیاستدان اور 90 سرکاری حکام ملوث ہیں جبکہ ایرانی بارڈر سے ملحقہ علاقوں میں 76 ڈیلرز تیل سمگلنگ میں ملوث ہیں۔ ایران سے پاکستان کو سالانہ 2 ارب 81 کروڑ لٹر سے زیادہ تیل سمگل ہوتا ہے جس کے باعث پاکستان کو سالانہ 60 ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہو رہا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 722 کرنسی ڈیلر حوالہ ہنڈی کے کاروبارمیں ملوث ہیں، سب سے زیادہ 205 ڈیلر پنجاب، خیبرپختونخوا میں 183، سندھ میں 176، بلوچستان میں 104، آزاد کشمیر میں 37 اور اسلام آباد میں 17 ڈیلرز حوالہ ہنڈی کا کاروبار کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک بھر میں 995 پمپ ایرانی تیل کی فروخت کا کاروبار کرتے ہیں۔ پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس او) کی گاڑیوں کے ایرانی تیل کی سمگلنگ میں ملوث ہونے کا انکشاف بھی ہوا ہے ۔گویا پاکستانی معیشت کے ساتھ کھلواڑ سرکاری اداروں کی چھتر چھایا میں ہو رہا ہے ۔ ہر کوئی ہر سطح پر اپنی استعداد کے مطابق اپنے ہی ملک کی معیشت کو تباہ کرنے پے تلا ہوا ہے۔ اپنے مفاد میںملک کا نقصان کرنے والے صرف پاک ایران سرحد پر ہی نہیں ملک بھر میں اور ہر ادارے ہر شعبہ میں موجود ہیں۔ پاکستان کو افغانستان کی غیر قانونی تجارت سے سالانہ 3 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ افغان تاجر ٹرانزٹ ٹریڈ کے ٹرکوں پر لگے ٹریکنگ سسٹم کو غیر مؤثر کر دیتے ہیں۔ ٹرکوں سے سامان سستے داموں پاکستان کی بلیک مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے جبکہ ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں سمگلنگ اور منشیات کی خریدو فروخت کا کام بھی کیا جاتا ہے۔ افغان تاجروں کی جانب سے جعلی بل تیار کیے جاتے ہیں۔ ٹرانزٹ ٹریڈ کی سمگلنگ کی آڑ میںسامان کی کسٹم ڈیوٹی سے بچا جاتا ہے۔ افغانستان کے نام پر درآمدات کے کثیر اضافے کی وجہ سے پاکستان میں مصنوعی فلیمنٹ سے بنے کپڑے کی مصنوعات میں 48 فیصد، الیکٹرونکس آلات میں 62 فیصد، ٹائرز اینڈ ربڑ میں 42 فیصد ، چائے میں 51 فیصد، مشینری میں 34 فیصد،سبزی پھلوں کی درآمدات میں 46 فیصد کمی ہوئی ہے۔جبکہ ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت افغان درآمدات میں 67 فیصد اضافہ ہوا، جس کی مالیت فروری-23 2022ء میں 6.71 بلین امریکی ڈالر تک جا پہنچی جبکہ گزشتہ سال یہ درآمدات 4 بلین امریکی ڈالر تھیں۔ایک طرف پاکستانی ہیں جو اپنے فائدے کے لئے ملکی معیشت کو خود تباہ کر رہے ہیں تو دوسری طرف 4 دھائیوں سے پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزیں ہیں جو پاکستان کے گلی محلوں میں سٹے بھیچ کر، جوتے پالش کر کے اور کچرے سے پلاسٹک چن کر جو یہاں تک کہ سمگلنگ سے بھی جوکماتے ہیں اس کو ڈالر میں تبدیل کر کے اپنے وطن کی معیشت کا سہارا بن رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق افغان تاجر اورسمگلرز ہر روز کم از کم 50 لاکھ ڈالر سرحد پار سمگل کر رہے ہیں۔ ہر ہفتے افغانستان کا مرکزی بینک مارکیٹ سے کم از کم ایک کروڑ 70 لاکھ ڈالر خریدتا ہے۔ افغان مرکزی بنک کے کھلی مارکیٹ سے غیر قانونی طور پر ملک میں آئے ڈالر خریدنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان حکومت کس قسم کے معاشی مسائل سے نبرد آزماہے اور افغان قوم کسی طرح اپنی حکومت کی مدد کر رہی ہے۔ بھلے ہی ڈالرز کی افغانستان سمگلنگ سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو پڑے روپے کی قدر تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ جائے۔ معاشی ماہرین کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ کرنسی افغانستان سمگل کی جا رہی ہے اور یہ فوری منافع دینے والا کاروبار بن چکا ہے۔ افغانستان کو یومیہ ایک سے ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی ضرورت ہے جس کا نصف پاکستان سے سمگل کیا جا رہا ہے۔یہ کام کس طرح کیا جا رہا ہے اور کون کر رہا ہے اس کا اندازہ گزشتہ دنوںایف آئی اے کی کارروائی سے لگایا جا سکتا ہے کوئٹہ کے علاقے ہزارہ ٹائون میں صرف ایک مکان سے ملزمان مشتاق خان اور آغا اعجاز کو حراست میں لیا گیا۔جن کی نشاندہی پر مکان میں چھپائے گئے ایک کروڑ ڈالرز برآمد ہوئے ۔ صرف کوئٹہ ہی نہیں ملک کے ہر حصے میں ہر کوئی ملک کو ڈبونے میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں غیر قانونی کرنسی ایکسچینج اور ہنڈی حوالہ کے کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف ایف آئی اے نے گزشتہ ایک سال کے دوران 440 کارروائیاں کیں اور 44 دکانوں کو سیل کیا جب کہ 519 افراد کو گرفتار کرکے ان سے ایک کروڑ 80 لاکھ ڈالربھی برآمد کیے۔ایف آئی اے نے گزشتہ 3 ماہ میں44 افراد کو گرفتارکرکے مقدمات درج کیے گئے۔کرنسی ڈیلر اپنے ملک کی کرنسی کی بے توقیری میں ملوث ہیں۔ کے پی کے میں چوک یادگار میں قائم کرنسی مارکیٹ تیسرے نمبر پر آتی ہے۔ پہلے نمبر پر کراچی کی کلفٹن میں قائم مارکیٹ اور دوسرے نمبر پر لاہور کے سوا بازار میں مارکیٹ ہے۔نپولین ہل نے کہا تھا ’’طاقت اور ترقی مسلسل کوشش اور جدوجہد سے ہی آتی ہے‘‘۔ اب حکومت نگران حکومت نے عسکری قیادت کے تعاون سے ملکی معیشت کو پائوں پر کھڑا کرنے کے اقدامات کا آغاز کیا ہے جس کے اثرات ڈالر کی قدر میں نمایاں کمی کی صورت میں دکھائی بھی دے رہے ہیں مگر حقیقی ترقی اس صورت میں ہی ممکن ہو سکتی ہے جب حکومت کے ساتھ قوم کا ہر فرد قومی مفاد میں اپنا مفاد دیکھے۔ایسا اسی صورت ہوگا جب بقول اعتزاز احسن: ریاست ہو گی ماں کے جیسی ہر شہری سے پیار کرے گی اورقوم کا ہر فرد خود کو پہلے پاکستانی اور بعد میں پنجابی، سندھی، پٹھان، سرائیکی اور بلوچ سمجھے گا۔