پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق مایہ ناز کپتان اور آل راؤنڈر شاہد آفریدی کے متعلق بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق کھلاڑی نے ایک سوال کے جواب میں ظریفانہ انداز میں کہا تھا ’شاہد آفریدی بہت بے عزتا کھلاڑی ہے‘۔ہربجھن سنگھ کے کہنے کا مطلب یہی تھا کہ شاہد آفریدی کریز پہ زیادہ دیر نہیں ٹکتا (اِسی لئے اْس کی اپنی عزت نہیں)مگر جتنی دیر وہ کریز پہ ٹھہرتا ہے اس سے کم گیندوں پر مخالف ٹیم کے بیٹس میں کو بھی آئوٹ کر دیتا ہے۔شاہد آفریدی کی جارحانہ بیٹنگ کے انداز نے دنیا بھر کے کروڑوں افراد کو اْن کا مداح بنایا۔شاہد آفریدی چند لمحات یا چند منٹوں کے لئے کریز پہ آتے تو پورا سٹیڈیم ’بوم بوم آفریدی‘ کے نعروں سے گونجنے لگتا۔ جب تک وہ کریز پہ ٹھہرتے تو شایقین کرکٹ میں عجیب زندہ دلی رہتی۔ مگر جونہی وہ آؤٹ ہوتے تو ساتھ ہی سٹیڈیم پہ خاموشی طاری ہوجاتی۔ ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان یونس خان نے خوشی اور تکلیف کی ملی جلی کیفیت میں بتایا کہ فیصل آباد میں میچ چل رہا تھا اور وہ 75 سکور پر کھیل رہے تھے۔دوسری جانب کھیلتا ہوا کھلاڑی آؤٹ ہوا تو شاہد آفریدی کا نمبر تھا۔ کیونکہ یہ ٹیسٹ میچ تھا اِس لئے ایک روزہ میچ کی طرح ہلہ گلہ نہیں تھا مگر اِس دوران جونہی شاہد آفریدی کریز پہ آیا تو پورا گراؤنڈ بوم بوم کے نعروں سے گونج اْٹھا۔ صرف اِتنا ہی نہیں بلکہ اگلی گیند پر شاہد آفریدی نے چھکا مارا اور ساتھ ہی اگلی گیند پر آؤٹ ہوکر پویلین کی راہ لی مگر شاہد آفریدی کے ایک چھکے نے پورے گراؤنڈ میں وہ جان ڈال دی جو وہ پچھتر رنز سکور کرنے پر بھی شائقین کرکٹ میں جوش و خروش نہ لاپائے جو شاہد آفریدی کے ایک چھکے نے کردکھایا تھا۔ یونس خان نے کہا کہ عزت و ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ کچھ دن پہلے پاکستان کے سابق مایہ ناز دنیا کے تیز ترین باؤلر شعیب اختر کا ایک انٹرویو نظر سے گزرا۔ جس میں شعیب اختر انٹرویو کرنے والے سے پوری صاف گوئی سے کہہ رہے ہیں کہ وہ تو کھلاڑی ہیں ہی نہیں۔ اْن کی گفتگو کا مطلب تھا کہ نہ تو اْنہوں نے سب سے زیاد ہ وکٹیں لی ہیں، نہ تو ایک روزہ یا ٹیسٹ میچوں میں اْن کی سب سے زیادہ وکٹیں ہیں۔ صرف ایک گیند کی بدولت وہ تاحال عالمی سطح پر دنیا کے تیز ترین فاسٹ باؤلر مانے جاتے ہیں۔حالانکہ ایک اور انٹرویو میں اْنہوں نے سابق فاسٹ باؤلر محمد آصف کی لاجواب تعریف کی۔ شعیب اختر کے بقول وہ تو محض تیز گیند پھینکا کرتے تھے مگر محمد آصف تو گیند سے موسیقی کا کام لیتا تھا۔ وہ جب چاہتا جس طرف چاہتا گیند کو اْسی طرف سوئنگ کرادیتا تھا اور دنیا کے بہترین بلے باز چکرا کے رہ جاتے تھے۔ محمد آصف کے علاوہ پاکستان اور دیگر عالمی ٹیموں میں بہترین فاسٹ باؤلرز ہوگزرے ہیں مگر جو عزت و مرتبت کرکٹ کے میدان میں شعیب اختر کو نصیب ہوئی وہ کسی اور فاسٹ باؤلر کو نصیب نہیں ہوئی۔ اِس کی کیا وجہ ہے؟ شعیب اختر کے بقول انہوں نے زندگی بھر اپنی ماں کو ’ناں‘ نہیں بولا مگر اْن کی والدہ جو بھی حکم دیتی رہیں شعیب اختر من و عن اْس پہ عمل کرتے آرہے ہیں۔ شعیب اختر نے ماں کو حقیقی معنوں میں ایک ایسی ہستی مان لیا ہے جو خدا کے بعد اِس دھرتی پہ شعیب کے لئے رحمتوں اور برکتوں کا سایہ ہے۔ یقیناً شاہد آفریدی کے ساتھ بھی کوئی ایسی کہانی ضرور ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد آج بھی شاہد آفریدی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ اِس عارضی زندگی میں دولت و شہرت کم لوگوں کے نصیب میں آتے ہیں۔ آج کی پاکستان کرکٹ ٹیم پہ نظر دوڑائیں توکرکٹ کے شائقین کو پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کی’کور ڈرائیو‘ مدہوش کردیتی ہے۔ اْسی طرح شاہین شاہ آفریدی کے پہلے اْوور کی پہلی چھ گیندوں میں جو جادو چھپا ہے اْس کا اْثر صرف کرکٹ شائقین ہی محسوس کرسکتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی وہ عطاء ہے جو منتخب شدہ بندوں کو نصیب ہوتی ہے۔ والدین سے محبت ایک ایسا مقام ہے جو انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتاہے۔ حضرت ِ اویس قرنیسے منسوب والدین سے داستانِ محبت نے تو کئی اصحاب ِ رسولﷺکو عقیدت میں مبتلا کردیاتھا۔ حضرت ِ اویس قرنی کی رسول اکرم ﷺسے عقیدت، انسیت اور محبت کی داستان ایک سچے عاشقِ رسول ﷺکے کردار کا تعین کرتی ہے۔ چونکہ حضرت اویس قرنی اپنی والدہ کی خدمت کے طفیل ساری زندگی رسول اکرم ﷺکے دیدار سے محروم رہے مگر آپﷺحضرت اویس قرنی کے سینے میں پلنے والی محبت سے بخوبی واقف تھے اِس لئے آپﷺ نے خلیفہ ِ دوم حضرت ِ عمرابن خطابؓ سے فرمایا کہ وہ جب حضرت ِ اویس قرنی سے ملیں تواْن سے اپنے لئے اور اْمت کے حق میں دعا کروائیں۔ ایسی کئی امثال تاریخ کا حصہ ہیں کہ جنہوں نے والدین کی عزت اور خدمت کی اللہ تعالیٰ نے اْنہیں نہ صرف روز ِ قیامت بلکہ اِسی دنیا میں بھی اجر ِ عظیم سے نوازا۔ پچھلے کئی روزسے کچھ واقعات سوشل میڈیا کی زینت بنے ہوئے ہیں جن میں بچوں نے اپنے والدین سے بدترین سلوک کیا اور بے یارو مددگار والدین کو مدد کے لئے پولیس سمیت دیگر اداروں کا سہارا لینا پڑا۔ ہم مسلمان ہیں ہم اْس نبی ﷺکی اْمت ہیں جن کا اْمتی ہونے کے لئے انبیاء نے دعا فرمائی۔لیکن ہم اپنے پیارے نبی ﷺ کی تعلیمات کو بھولتے جارہے ہیں، ہم اْن کے احکامات پہ عمل درآمد کرنے سے قاصر ہیں۔ ہمیں صحیح معنوں میں اجتماعی اور انفرادی طور پر معافی مانگنا ہوگی۔ ہمارے علمائے کرام کو اِس نازک پہلو کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ ہمارے اساتذہ ِ کرام کو اپنے لیکچر میں پانچ منٹ طلبہ و طالبات کی اخلاقی تربیت میں صرف کرناچاہئیں۔ ہمارے مذہب میں بہترین نیکی بہترین اخلاق اور حسن ِسلوک کو کہا گیا ہے۔ ہمیں تو والدین کی خدمت اور اْن سے حسن ِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ ہمیں تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اپنے بوڑھے والدین کے متعلق روز دعا کرتے رہا کریں کہ اے اللہ اْن سے عفو درگزر والا معاملہ فرما۔ خدارا اپنی دنیا و آخرت مت خراب کیجئے۔ ابھی بھی وقت ہے سیدھے راستے کی طرف لوٹ آئیں اس سے قبل کہ دیر ہوجائے۔