کچھ لوگ ڈپریشن کا گٹھڑ ہر وقت کمر پر لادے اس تلاش میں رہتے ہیں کہ کہاں کوئی ملے اور وہ اپنی گانٹھ اس کے سر رکھیں۔ میرے جاننے والوں میں بھی کچھ ایسے ہیں۔ انہی میں سے ایک کا فون میں دو تین دن سے اٹینڈ نہیں کر رہا تھا۔ آج سویرے تیار ہوکر دفتر کو نکلنے لگا تو ڈور بیل بجی۔ دروازہ جو کھولا تو آگے وہی صاحب کھڑے تھے۔چہرے پر پریشانی کی بھوت ناچتے تھے۔ نہ سلام نہ دعا، نہ حال نہ احوال۔ چھوٹتے ہی بولے ’’یار وہ الو کا پٹھا مزارع پیسے نہیں بھیج رہا۔ اب تو اس نے تیری طرح فون ہی سننا چھوڑ دیا ہے۔ بڑا کمینہ ہے یار وہ۔ (پتہ نہیں کمینے کا یہ خطاب میرے لئے تھا یا مزارعے کے لئے) اور سنو ڈاکٹر کے پاس گیا تھا ۔اس نے نئی سنادی، کہتا ہے دمہ ہوگیا ہے۔ لو بھلا دمہ کیوں نہ ہو، پرانا مکان ہے، دیواروں سے دن رات چونا مٹی جھڑا کرتا ہے۔ گرد و غبارتو گھر کے مستقل مکیں ہیں گویا‘‘۔ جذبات کی شدت سے منہ میں آیا کف نگلنے کو انہوں نے لمحے بھر کا توقف برتا ۔ اس وقفے کا فائدہ اٹھا کر میں کچھ کہنے کو لب وا کر ہی رہا تھا کہ ان کا ریکارڈ پھر سے بجنے لگا۔’’ یار بیوی سے بہت تنگ ہوں، نہ بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہے نہ مجھ پر توجہ۔ نفسیاتی مریضہ ہے یار، مجھے تو سمجھ نہیں آتا کن کرموں کی سزا ملی ہے مجھے اس عورت کی صورت۔ اوپر سے میرے بہن بھائی۔۔! سب کے سب ایک نمبر کے خود غرض اور لالچی، کسی کو پروا ہی نہیں میری۔ بلا بلا کے تھک گیا کہ آؤ اور اپنی بھابھی کو سمجھاؤ مگر مجال ہے کوئی آیا ہو۔ بیوی کے رویے سے بچے الگ خراب ہورہے ہیں، باپ کا لحاظ تک نہیں۔ منجھلے کی سن لو۔ کل شام صحن میں کدکڑے مارتا پھرتا تھا، اسے کہا کچھ شرم ہوتی ہے، حیا ہوتی ہے، چلو بیٹھ کے پڑھو۔ معلوم ہے کیا بولا؟‘‘ ایک ثانئے کو وہ خاموش ہوئے، میں بوکھلایا ہوا تھا، اس اچانک سوال کو قطعی ناتیار۔مگر ان کو بھی جواب کے انتظار کی تاب کہاں تھی۔ میری ہاں ناں کا انتظار کئے بغیر بولے ’’کہتا، آپ نے پڑھ کے کیا کرلیا جو میں نہیں کر پاؤں گا۔ توبہ باپ کے ساتھ ایسی گستاخی۔۔!! اب ایسے بدتمیز بچے ہوں، بدلحاظ بیوی ہو، خستہ مکان ہو اور خود غرض بھائی بہن تو دمہ ہی ہوگا۔ اوپر سے مزارع ایسا خبیث کہ پیسے دبائے بیٹھا ہے بے شرم ۔ توبہ توبہ علاج کو کوڑی نہیں۔۔۔‘‘ روداد یہاں تک پہنچی تھی کہ میرے اوسان جو اس طولانی داستاں نے خطا کر دئیے تھے، قدرے بحال ہوئے۔ بے بسی کا گولہ جو میرے تلووں سے اٹھا تو پورے بدن کو جھنجھناتا دماغ میں جاکر پھٹا۔ میں نے اتنے زور سے دائیں بائیں سے لاکر دونوں ہاتھوں ان کی آنکھوں کے عین سامنے جوڑے کہ صاحب کا دمہ زدہ پتلا سا منہ تالی میں آتے آتے رہ گیا۔ ’’او بھائی! معاف کردے، اللہ کا واسطہ ہے بس کر۔ میرا سینہ پھٹ جائے گا۔ دفتر جانے کو تیار کھڑا ہوں اور تیری دکھ بھری کہانی ختم نہیں ہورہی۔ آگے کا سارا دن خدا جانے کیسے گزرے گا۔ یار کبھی تو کوئی خوشی کی، ہنسی کی، کھیل کی بات کرلیا کر۔ میں اسی لئے تیرا فون نہیں سن رہا تھا۔‘‘ ان کے چہرے پر مظلومیت اور خود ترسی کی ہوائیاں اڑنے لگیں اور دکھ کے سائے مزید گہرے ہوگئے۔ ’’دوستوں کے بھی خون سفید ہوگئے ہیں۔ سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔ کسی کو میرا خیال نہیں،‘‘یہ کہہ کر وہ عطاء اللہ عیسی خیلوی کا یہ گیت زیر لب گنگناتے ہوئے اپنے موٹر سائیکل کی طرف چلے ’’کسے دا نئیں کوئی ایتھے یار سارے جھوٹے نیں۔۔۔ جھوٹیاں محبتاں تے پیار سارے جھوٹے نیں‘‘ ایک اور دوست ہیں ہمارے، شاعر تو ہیں ہی، اخبارات میں مضامین بھی لکھا کرتے ہیں۔ ان کو ہمہ وقت ناقدریٔ عالم کا گلہ رہا کرتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان میں جتنے بھی لکھنے والے ہیں سب کے سب نااہل ہیں اور صرف اپنی خوشامد اور پی آر کی وجہ سے بڑے بڑے نام بنائے پھرتے ہیں۔ ملک بھر میں نہ تو ان کی سطح کا کوئی شاعر ہے اور نہ قلم کار۔ ان کا ماننا ہے کہ جینوئن لوگوں کی اور ان کے ٹیلنٹ کی اس ملک میں کوئی قدر نہیں۔ مشاعروں پر متشاعروں کا قبضہ ہے‘ اسی لئے بتیس سال سے انہوں نے مشاعروں کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔خدا بھلا کرے منتظمین کا کہ انہوں نے بھی ہمارے دوست کے بائیکاٹ کی لاج رکھی۔ نہ بتیس برس پہلے کبھی ان کو مشاعرے میں مدعو کیا ، نہ آج کرتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ لوگ جو اپنی تحریروں کی اصلاح لینے ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہا کرتے تھے، آج نام ور ادیب شمار ہوتے ہیں اور کئی کئی کتابوں کے مصنف ۔ یہ سب بتا کے وہ کہا کرتے ہیں ’’بس جی سب پی آر کا چکر ہے‘‘۔ آپ ان صاحب کے پاس گھنٹوں بیٹھے رہئے، حرام ہے کسی ایک شخص کے بارے میں بھی ان کی زبان سے کلمہ خیر ادا ہوجائے۔ ان کی نظر میں ہر شخص کی چھوٹی بڑی کامیابی موقع پرستی اور دو نمبری کی مرہونِ منت ہے۔ ایک وہی بااصول ہیں اور اناپرست، اسی لئے ترقی نہیں کرسکے۔ ان کے پاس کچھ وقت گزار کر اٹھیں تو آپ کو ساری دنیا دو نمبر نظر آنے لگتی ہے۔ اسی جلاپے میں گھل گھل کر وہ ذیابیطس، فشارِ خوں اور پتہ نہیں کون کون سی بیماری کی لپیٹ میں ہیں۔ ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ ان کا سامع بھی ان جیسی کیفیات کا شکار ہوکر ویسی ہی بیماریوں میں مبتلا ہوجائے۔ سوال یہ ہے کہ کوئی آپ کے مسائل اپنے سر کیوں لے؟ سبھی اپنی اپنی الجھنوں میں الجھے ہیں اور اپنے اپنے مسائل کے اسیر۔کسی نے کہا تھا کہ غم بانٹنے کی چیز نہیں پھر بھی دوستو اِک دوسرے کے حال سے واقف رہا کرو یہ نصیحت بسروچشم۔’’ بندہ، بندے داد ارو‘‘ والا محاورہ بھی تسلیم مگر اعتدال بھی کسی شئے کا نام ہے۔ ہر ملاقات میں اور ملاقات کے ہر ہر پل کے دوران کوئی بھی مسلسل آپ کا دردوغم اور رنج و الم نہیں سن سکتا۔ ہر شخص کی برداشت کی ایک سطح ہوتی ہے۔کسی سے حال بانٹتے ہو ئے اگر آپ اس کا پیمانہ ماپنے کی صلاحیت اور آگاہی رکھتے ہیں تو ٹھیک وگرنہ لوگ آپ کو دیکھ کر راستہ بدلنے میں حق بجانب ہیں۔ ٭٭٭٭٭