سسپنس اور ہنگامہ خیزی سے بھر پور سیاسی فلم کا ہر منظر ایک نئے منظر کو تخلیق کر رہا ہے۔خمار آلود آنکھوں اور تھکے لہجے میں گفتگو کرتے غیر یقینی کا شکار یہ لوگ سیاسی تنائو کے اس ماحول میں حالات سے بے نیازی کی ایسی ایکٹنگ کر رہے ہیں جس پر انہیں سچ مچ آسکر ایوارڈ ملنا چاہیے ۔کیا یہ مان لیا جائے کہ مذاکرات‘ بات چیت اور مکالمے کے تمام راستے بند ہو گئے ہیں، کوئی ادارہ یا شخص ایسا نہیں بچا جس کی بچھائی ہوئی میز پر سب بیٹھ جائیں۔ سب فریق بن گئے ہیں۔آصف علی زرداری صاحب اس حوالے سے کچھ کر سکتے تھے۔ وہ سندھی روایات کے امین بن سکتے تھے لیکن وہ جس طرح تحریک انصاف کے ملبے سے اپنا محل بنانے کے چکر میں پڑ گئے ہیں اس نے ان کی ایک کلیدی حیثیت کو بھی کمزور کر دیا ہے۔کوئی تو ہو جو اس سلگتی آگ پر پانی کے چند چھینٹے ڈال سکے۔ سب کہہ رہے ہیں کہ ہم نے بنیادی فیصلے نہیں کئے تو خدانخواستہ ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔ بعض ماہرین تو یہ تک کہہ رہے ہیں کہ اگر نئے حالات تقاضوں اور ضرورتوں کے مطابق آئین میں کچھ بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے تو اس پر بھی غور کر لیں۔ ہمارے پاس سنبھلنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔90ء کی دہائی میں نواز شریف کے دور حکومت میں بے نظیر بھٹو نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا فیصلہ کر لیا۔پیپلز پارٹی کی تیاریاں مکمل ہو گئیں ، لانگ مارچ کو حکومت کے خلاف طبل جنگ تصور کیا جا رہا تھا۔بے نظیر بھٹو کو ایک خصوصی جہاز سے لاہور سے راولپنڈی لایا جاتا ہے۔جی ایچ کیو میں جنرل وحید کاکڑ پورے تپاک سے سابق وزیر اعظم کا استقبال کرتے ہیں۔آرمی چیف کا کہنا تھا ہم بدنظمی اور انتشار کے متحمل نہیں ہو سکتے، کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ لانگ مارچ ملتوی کر دیں۔بے نظیر نے ایک لمحے سوچ کر کہا میں آپ کی بات سے متفق ہوں کیا میں ایک فون کر سکتی ہوں‘ ’’کیوں نہیں‘‘ جنرل نے یہ کہتے ہوئے اپنا لینڈ فون بے نظیر کی طرف بڑھا دیا۔بے نظیر نے خود نمبر ملایا اور تحکمانہ انداز میں ہدایت دی کہ اگلے دن اس لانگ مارچ کو ملتوی کر دیا جائے جس کی لاہور میں تمام تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔بے نظیر بھٹو کا فون سننے والے کوئی اور نہیں ان کے انتہائی قریبی ساتھی سلمان تاثیر تھے۔فون پر ہدایت دینے کے بعد پیپلز پارٹی کی چیئرمین نے فوج کے سربراہ سے کہا کہ ہم نے آپ کی بات مان لی۔ جنرل وحید کا جواب تھا میڈم ہم آپ کے فیصلے کی قدر کرتے ہیں۔یہ وہی وحید کاکڑ تھے جنہوں نے اس وقت بھی پاکستانی سیاست میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔جب نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں ان کے اس خطاب کے بعد جس میں انہوں نے کہا کہ ایوان صدر سازشوں کی آماجگاہ بن گیا ہے اور یہ کہ وہ نہ ڈکٹیشن لیں گے اور نہ ہی کسی کی ڈکٹیشن مانیں گے۔ اس کے بعد صدر غلام اسحق خان نے 58-2Bکا اختیار استعمال کرتے ہوئے نہ صرف ان کی حکومت برخاست کر دی بلکہ قومی اسمبلی بھی تحلیل کر دی۔نواز شریف نے صدر مملکت کے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں پٹیشن داخل کر دی اور جسٹس نسیم حسن شاہ کی سرکردگی میں سپریم کورٹ نے صدر مملکت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے پر بحال اور اسمبلیوں کے اسٹیٹس کو بھی دوبارہ ایکٹو کر دیا۔نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کا عہدے سنبھالنے کے بعد صدر غلام اسحق سے محاذ آرائی کو اپنی برطرفی کے مقام سے دوبارہ شروع کیا۔صدر اور وزیر اعظم کی کشمکش کا طول پکڑتا دیکھ کر جنرل وحید کاکڑ کور کمانڈر راولپنڈی کے ہمراہ ایوان صدر پہنچے جہاں وزیر اعظم بھی اس میٹنگ میں شریک ہوئے۔ اپنے ایکشن میں کھرے سمجھے جانے والے جنرل نے وزیر اعظم نواز شریف سے کہا کہ ملک کا انتظامی ڈھانچہ ایوان صدر اور وزیر اعظم ہائوس کے مابین کھینچا تانی کے سبب مفلوج ہو کر رہ گیا ہے ۔ قومی اقتصادیات اور ترقی کی شرح نمو تنزلی کا شکارہے۔ اس کیفیت سے نکلنے کے لئے ضروری ہے کہ وزیر اعظم رضا کارانہ طور پر استعفیٰ دیدیں اور نئے انتخابات کا اعلان کیا جائے۔ نواز شریف نے موقف اختیار کیا کہ صدر غلام سحق بھی مستعفی ہو جائیں تو وہ بھی استعفیٰ دینے کے لئے تیار ہیں۔یہ بھی پاکستان کی تاریخ کا ایک دلچسپ موڑ تھا کہ ملک کے صدر اور وزیر اعظم نے ایک ساتھ اپنے اپنے استعفے آرمی چیف کو تھما دیے۔ 24گھنٹے کے اندر ملک کی ان دونوں اعلیٰ ترین شخصیات نے الگ الگ قوم سے خطاب کیا ڈھکے چھپے الفاظ میں اپنا موقف بیان کیا اور اپنے اپنے گھروں کی راہ لی۔نئے انتخابات منعقد ہوئے اور بینظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی دوسری بار اقتدار میں آ گئی۔ آج ہم وقت اور حالات کے کتنے موڑ کاٹ کر کہاں تک آ پہنچے ہیں۔ ٹوٹے ہوئے تاروں کو جوڑ کر پارٹیاں بن رہی ہیں۔لوگ ایک دوسرے سے سوال پوچھتے ہیں کہ جیتا ہوا میچ ایسے بھی ہارا جاتا ہے حماقت اور غلط اندازوں کا خمیازہ ہے اور ساری گھن گرج ختم ہو گئی ہے، صرف سرگوشیاں رہ گئی ہیں۔ صرف اندیشے ہیں جو ہر لمحے خوفزدہ کر رہے ہیں ۔نان اسٹاپ ایکشن مووی ہے جس کے ہر منظر میں سسپنس ہے۔تحریک انصاف کی قیادت کو سب ہی سمجھا رہے تھے کہ وہ ان ٹیڑھے سیدھے راستوں پر پیشقدمی سے رک جائے، پیچھے مڑ کر دیکھیں کہ وہ کتنی ریڈ لائن پھلانگ چکی ہے ۔ اپنے اپنے مورچوں میں بیٹھ کر اہل سیاست جس طرح ایک دوسرے پر وار کر رہے ہیں وہ خود فیصلہ کریں کہ ٹکرائو کی اس کیفیت سے وہ کمزور ہوئے یا توانا۔ایک دوسرے کو دیوانہ وار زیر کرنے کے چکر میں انہوں نے ملک سماج اور سیاست کو کیا دیا۔ خود کو ہر کمزوری اور غلطی سے مبرا اور بے نیاز سمجھنے کی پالیسی اختیار کر کے انہوں نے وطن عزیز کو کس نہج پر پہنچا دیا کہ یہ سیاست کا نہیں قومی سیاست کا مسئلہ بن گیا ہے۔ اب سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ان حالات میں انتخابات وقت مقررہ پر ہو سکیں گے یا نہیں۔10اپریل 2022ء کو پی ڈی ایم کمزور وکٹ پر بغیر تیاری کے میدان میں کود پڑی تھی۔اقتدار میں آنے کے بعد اپنے بے شمار کڑوے کسیلے فیصلوں اور حماقتوں کے سبب وہ اپنا سیاسی اثاثہ گنوا بیٹھی۔شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانا بھی (ن) لیگ کی غلطی تھی کیونکہ وہ ان کا سب سے قیمتی مہرہ اور تابناک چہرہ تھے۔9مئی سے پہلے پی ڈی ایم کا الیکشن میں تاخیر کرنے کی وجہ تحریک انصاف تھی۔9مئی کے بعد صورتحال یکسر بدل گئی ہے۔اگر انتخابات وقت مقررہ پر ہوئے جو اکتوبر یا نومبر میں ہو سکتے ہیں، اس کا نتیجہ خواہ کچھ بھی نکلے اور جس کے انعقاد کا امکان بھی ففٹی ففٹی ہے ۔ بنیادی سوال پھر بھی یہی ہے کہ عوام کیا سوچ رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک گھٹن اور مشکل وقت ہمارے دروازے پر کھڑا ہے ہمیں پیٹ پر پتھر باندھنے پڑیں گے، ہم باندھ لیں گے پر یہ تو ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ہم بھوکے سوئیں اور اشرافیہ کے اللے تللے اسی طرح جاری رہیں۔ آخری داستان میں آخر ٹریجڈی کیوں ہے ؟ ذرا سوچیں ! ٭٭٭٭٭