ہزار سال سے زائد کا عرصہ بیت گیا ، نہ اس چشمۂ فیض کی روانی میں کمی آئی اور نہ فیض پانے والوں میں، وہ ہستی جسے خزانۂ غیب سے اتنا کچھ عطا ہو ا ،کہ صدیو ں کی شبانہ روز تقسیم و ترسیل کے باوصف، اس کی گنج بخشی اور کرم گستری روزا فزوں ہے ، گزشتہ روز اس آستان ِمہر ومحبت پر آپؒ، یعنی حضرت داتا گنج بخشؒ کے 979 ویں یومِ وصال کی سہ روزہ تقریبات کا باقاعدہ آغاز و افتتاح رسمِ چادر پوشی سے ہوگیا ، اور پھر اس کے ساتھ سبیل دودھ کا بھی۔۔ حضرت داتاؒ صاحب نے اس شہرِ لاہور میں مقامی لوگوں سے دودھ کی نذر قبول بھی فرمائی اور پسند بھی، پنجاب بھر کی گجر برادری اور شیر فروشان، اس روایت کو نبھاتے ہوئے، جس وارفتگی اور شوق سے دودھ لے کر حاضر ہوتے ہیں ، اس کی مثال کا ملنا مشکل ہے ، لاکھوں لیٹر خالص دودھ ، جس کے لیے جدید پلانٹ نصب ہوجاتے ہیں ، پنجاب فوڈ اتھارٹی بھی اس موقع پر اپنی ٹیم کے ساتھ خیمہ زن ہے، جتنا پی سکتے ہوں پی لیں، بصورتِ دیگر دودھ کو ٹھنڈا کرنے اور عمدہ پیکنگ کا جدید نظام ہمہ وقت سرگرم عمل ہے ۔ یہ لنگر شریف ہے ساتھ لے کر جانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ حضرت داتاؒ صاحب کے یومِ وصال کے حوالے سے دو مختلف روایات--- ایک 9 محرم کی اور دوسری 19 صفر، بہرحال اگر تاریخ ِ وصال 9 محرم ہے تو 19 صفر آپؒ کے چہلم کی تاریخ ہے اور یوں دونوں ایام ہی بھر پورعقیدت و محبت سے منائے جاتے ہیں کہ 9 محرم کو آپؒ کے مزار کے غسل کی تقریب منعقد ہوتی ہے ، جسے روحانی دنیا میں بڑا بلند مقام حاصل ہے ،جبکہ 19 صفر کے ساتھ ، عرس شریف میں 20 صفر کا یوم--- سیّد الشہدأ حضرت امام ِ عالی مقام کے چہلم کی مناسبت سے عرس تقریبات کا حصّہ ہے ۔آپؒ کے سالِ وصال کے حوالے سے 465ھ معروف ہے ، اور یہی آپؒ کے مزارِ اقدس کے لوح پر بھی کندہ ہے ۔ اس سلسلے میں جامی کا قطعہ جو مزار شریف کے گرد، غلام گردش میں بھی تحریر ہے از حد محبت آمیز ہے۔ خانقاہ علی ہجویری است خاک جاروب از درش برادر طوطیاکن بہ دیدۂ حق بین تا شوی واقف بر اسرار چونکہ سردار ملک معنی بود سال و صلش برآیداز’سردار‘ یعنی :یہ علی ہجویر کی خانقاہ ہے ، اس کے دروازے سے جھاڑو کی خاک اٹھا ، اور اس کو اپنی آنکھ کا سرمہ بنا،تا کہ تو اسرار سے آگاہ ہوسکے ۔ چوں کہ آپ ملکِ معنی کے سردار تھے ، اس لیے اُن کا سال وصال لفظ ’’سردار‘‘ سے نکلتا ہے ۔ بہر حال ذکر ہورہا تھا کہ کل عرس کے افتتاح کا اور ہمیں کشف المحجوب کا پانچواں ایڈیشن پیش کرنے کی سعادت بھی میسر آ ئی ، گزشتہ عرصے میں’’ ہجویریاتـ‘‘ کے حوالے سے داتاؒ دربار میں جو وقیع اور عظیم الشان علمی ، تحقیقی و طباعتی کار ہائے نمایاں سر انجام پائے، ان میں حضرت داتا گنج بخشؒ کی تصنیفِ لطیف کے اس ماڈل نسخے کی طباعت و اشاعت اور ترویج و تشہیر لائق تحسین ہے ۔ زیر نظر اشاعتِ پنجم، بہ تعداد دو ہزار ، آپؒ کے 979ویں سالانہ عرس کے موقع پر ، آپؒ کے علمی و روحانی فیضان کا ذریعہ ہوگی ، جس کا بہت زیادہ کریڈٹ برادرِ عزیز مشتاق احمد ریسرچ آفیسر مرکز معارف اولیاء کے سَرہے ، جو دفتری جھمیلوں سے کھینچ کر ، اس کارِخیرکی بروقت انجام دہی کی طرف مجھے متوجہ اور مستعد رکھنے کا باعث بنتے ہیں ، میں، ان کے لیے ہمیشہ دعاگو ہوں،کہ میرے اس رفیق کار کواللہ ربّ العزت خیر و برکت سے سرفراز اور حضرت داتا گنج بخشؒ کے خصوصی فیضان سے متصف فرمائے۔ اس مبارک کتاب کی وجہ تسمیہ اور مقصدِ تصنیف کی بابت از خود حضرت الشیخ الامام الہجویریؒ فرماتے ہیں کہ : ’’اس کتاب کو ’’کشف المحجوبـ‘‘یعنی پنہاں کو عیاں اور سربستہ کو نمایاں کرنے سے موسوم کیا ہے ، تو اس سے میرا مقصد یہ ہے کہ طالب ِ حقیقت و معرفت پر، کتاب کے سرِورق اور عنوان ہی سے اس کے مضامین و مطالب عیاں ہوجائیں ، صاحبانِ بصیرت و طریقت اس کا نام سنتے ہی ، موضوعات و عنوانات اور نفسِ مضمون سے آگاہی پالیں۔‘‘ آپؒ فرماتے ہیں کہ : ’’اولیاء اور مقربانِ بارگاہِ الٰہی کے سوا، تمام مخلوقات و عالمیان ،رموز و اسرارِ خداوندی کے حقائق و معارف سمجھنے سے محجوب و مستور اور قاصر و خاسر ہیں، چونکہ یہ صحیفۂ علمیہ ،صراطِ مستقیم دکھانے، حق کی بابت بتانے،معارفِ طریقت و تصوّف سمجھانے اور بشریت کے حجاب اُٹھانے کے لیے احاطۂ تحریر میں آئی ، لہٰذا اِسے کسی اور نام سے منسوب و معنون کرنا موزوں خیال نہ کیا ۔‘‘ آپ ؒ فرماتے ہیں کہ: ’’ جس طرح حجاب کا اُٹھنا محجوب یعنی ’’ پوشیدہ‘‘ امر کی موت ہے ، اسی طرح’’حجاب‘‘کا آنا مکاشف یعنی ظاہر شدہ امر کے لیے ہلاکت کا باعث ہے ۔ ‘‘ آپؒ نے خواہشات نفسانی کو شریعت سمجھنے اور حُبّ جاہ اور غرور و تکبرکو’’ شان ِ علم‘‘ خیال کرنے والوں اور نفس کی پکار کو’’محبت‘‘ کہنے والوں سے بچنے کی تلقین کی ہے ۔ آپؒ نے غافل علماء ، ریا کار فقراء اور جاہل صوفیاء سے دُو رہنے کو کہا ہے ۔ آپؒ فرماتے ہیںہے کہ : ’’تصوّف، شریعت کی پاسداری کا متقاضی ہے ۔‘‘ مزید یہ کہ : ’’ اتنے ہی علم کا حصول فرض ہے جس پر عمل کیا جائے ۔‘‘ کشف المحجوب میں حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کا قول ، ولایت کی تعریف میں نقل کیا کہ : ’’اپنے اختیار اور ارادے سے قطعاً خالی جسم کا مالک بندہ صاحب ولایت ہے ۔‘‘ حضرت داتا گنج بخشؒ کی یہ تصنیف ِعظیم، آپؒ کی عمرِ مبارک کے آخری حصّے میں تحریر ہوئی اور اس کا غالب حصّہ لاہور میں ترتیب و تشکیل پایا ، یقینا اس عہد میںلاہورسرے سے ہی ایک غیر معروف قریہ،صاحبانِ علم و ہنر کے لیے نامانوس بستی تھی، جس کی بابت از خود فرماتے ہیں : ’’اس وقت اس سے زیادہ ممکن نہیں، اس لیے کہ میری کتابیں غزنی (حرسہا اللّٰہ ) میں رہ گئی ہیں اور مَیں ہند کے شہرلہانور میں جومضافات ِ ملتان میں سے ہے ، ناجنسوں کے درمیان گرفتار ہوںــ۔‘‘ کتابوں کی عدم دستیابی کا شکوہ دراصل ایک محقق اور سکالر کے وہ احساسات ہیں ، جو تحقیق و تدوین کے دوران اس کو دامن گیرہوتے اور بہتر سے بہتر کے لیے ، وہ کوشاں اور سرگرداں رہتا ہے ،اگرچہ آپؒ نے اپنی اس کتاب کو ،آیات، اشعار و اماکن اور امہات کتب دینیہ سمیت سینکڑوں حوالہ جات سے آراستہ کیا ،مگر آپؒ اس کو اپنے علمی پائے کے مطابق ابھی مزید بلند سے بلند تر کرنے کے خواہاں تھے۔ برادرم شیخ محمد حامد، جو اس پانچویں ایڈیشن کی طباعت و اشاعت کے اہتمام کا باعث ہوئے ، کے لیے بھی تشکر و تحسین!---- اللہ تعالیٰ ان کے جذبوں کو توانا اور فراواں ، ہماری اس سعی کواپنی بارگاہ میں قبول فرمائے ۔