بچپن سے دیکھ رہے تھے مزنگ چونگی کی طرف سے آنے والی سڑک میانی صاحب قبرستان سے گزر کر ملتان روڈ کو چھوتی تو سامنے ایک خستہ حال عمارت نظر آتی۔کالج کے دنوں میں بس اکثر اسی طرف سے ہو کر جاتی۔ کئی بار دل چاہتا کہ آدھے منہدم میناروں‘ کونوں سے کھسکی ہوئی اینٹوں اور مٹتے ہوئے نقوش والی چوبرجی کے اندر داخل ہوں لیکن لوگوں نے اسے عوامی بیت الخلا بنا رکھا تھا۔دروازے کے ساتھ جو چبوترے سے باقی تھے ان پر کوئی ادھ ننگا‘ ذہنی توازن کھو چکا آدمی قابض ہوتا۔مغرب کی طرف والا حصہ بول و برازکی بدبو سے بھرا ہوتا۔عمارت کے سامنے تھوڑی جگہ خالی پڑی تھی۔محنت مزدوری کرنے کے لئے لاہور آئے بے گھر لوگ رات کو یہاں سو جایا کرتے۔یہ چوبرجی کے وہ پہلے نقوش ہیں جو دماغ میں محفوظ ہوئے۔ چوبرجی زیب النسا بنت اورنگزیب عالمگیر کے شاندار باغ کا مرکزی دروازہ بتایا گیا۔باغ والے حصے میں پونچھ روڈ اور نواں کوٹ کی آبادیاں بس چکی ہیں۔ان آبادیوں میں چوبرجی باغ تعمیر کرنے والوں اور اس کی دیکھ بھال کرنے والوں کی یادگاریں ہیں۔بہت سی یادگاریں ہوس زمین کی نذر ہو گئیں۔جو باقی ہیں ان کی شناخت تبدیل کر کے کچھ لوگ جھوٹ اور جعلسازی کا دھندہ چلا رہے ہیں۔ چوبرجی باغ میں ایک خوبصورت مقبرہ بنا۔ اکثر لوگ ملتان روڈ پر واقع اس مقبرے کو زیب النساء سے منسوب کرتے ہیں لیکن مآثر عالم گیری‘ سرسید کی آثار الصنادیدجیسی کتب میں بتایا گیا ہے کہ زیب النساء بنت اورنگزیب دہلی میں فوت ہوئی اور دلی شہر کے کابلی دروازے کے باہر اس کا مقبرہ بنایا گیا۔بعد میں یہاں سے ریل کی پٹڑی گزرنے کی وجہ سے یہ مقبرہ مسمار ہو گیا۔اس بابت 1919ء میں مولوی بشیر احمد دہلوی کی شائع ہونے والی کتاب سے بھی معلومات مل جاتی ہیں۔ چوبرجی دراصل ایک ڈیوڑھی ہے۔مغربی جانب دروازے پر ایک شعر نقش ہے: ساخت میابائی فخر النساء روضہ عالی ارم احتشام چوبرجی کی عمارت پر کئی لاکھ روپے خرچ ہوئے۔اس باغ کی وسعت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے اس کی ایک حد نواں کوٹ کی چار دیواری اور میانی صاحب کے ساتھ ملتی اور دوسری حد حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری اور پیر مکی کے مزار تک پہنچتی۔باغ کی مغربی دیوار کے نیچے دریائے راوی بہتا۔تقریباً ڈیڑھ سو سال قبل مولوی نور احمد چشتی نے لکھا کہ دریا کی وجہ سے باغ کی چار دیواری اور اس کے مکانات کی بنیادوں کو نقصان پہنچا‘ اب ان دیواروں اور مکانات کا کوئی پتہ نہیں ،صرف یہ دروازہ بچ گیا جسے ہم چوبرجی کہتے ہیں۔ اوپر شعر میں جس میاں بائی کا ذکر ہے وہ شہزادی زیب النساء کی کنیز یا آیا بتائی جاتی ہے۔باغ کی تعمیر کے دوران شہزادی نے دیکھ بھال کا اختیار میا بائی کو سونپ رکھا تھا۔باغ کی تکمیل پر شہزادی ملاحظہ کے لئے آئی تو اسے معلوم ہوا کہ لوگ اس باغ کو میا بائی کا باغ کہہ رہے تھے۔شہزادی نے اس وقت تک باغ میں قدم نہ رکھا جب تک یہ اعلان نہ کر دیا کہ وہ یہ باغ میابائی کی قابلیت اور خدمات سے خوش ہو کر اسے بخش رہی ہے۔بعد میں شہزادی نے اپنے لئے نیا باغ کچھ فاصلے پر نواں کوٹ میں بنوایا۔ پروفیسر علم الدین سالک اس کہانی کو بے سروپا قرار دیتے ہیں۔ان کی دلیل ہے کہ جب باغ تعمیر ہو رہا تھا تو اس وقت شہزادی کی عمر آٹھ نو سال تھی،(1642ئ)۔ محکمہ آثار قدیمہ نے زینبدہ بیگم کا کتبہ لگایا۔ایس ایم جعفر کے مطابق زینبدہ شاہجہاں کی بیٹی تھی۔ پھر معلوم ہوا کہ اس نام سے شاہجہاں کی کوئی بیٹی نہ تھی۔ محققین کا خیال ہے کہ یہ باغ شاہجہان کی بیٹی جہاں آرا نے تعمیر کرایا اور پھر اپنی کنیز میا بائی کو بخش دیا۔اس امر کی تائید نقوش لاہور نمبر میں دی گئی ایک روائت سے ہوتی ہے کہ 1646ء میں اورنگزیب نے اپنی بہن جہاں آرا کو لاہور سے خط لکھا۔وہ لکھتا ہے کہ ’’ہم نے کچھ عرصہ سرکار علیا کے باغ کی سیر کی۔اس کے تالاب اور عمارتیں جو ابھی ابھی بنی ہیں دیکھ کر بے حد مسرت ہوئی۔یہ جگہ نہایت عمدہ تفریح گاہ ہے‘‘۔ میا بائی کی قبر پونچھ ہائوس کے ایک گوشے میں ہے۔دو سال پہلے ایک دوست نے توجہ دلائی کہ کسی نامعقول انسان نے قبر کا وہ کتبہ اکھاڑ دیا جس پر میا بائی لکھا ہوا تھا۔اس کی جگہ مائی بخاری کے نام سے نیا کتبہ لگا دیا گیا۔ساتھ جو مقبرے کی عمارت ہے وہ چھوٹی اینٹوں سے بنی ہے۔قابض شخص نے آثار قدیمہ کی اس عمارت کے اندر سیمنٹ کا پلستر کر دیا۔حیرت کی بات یہ کہ کسی نے اس معاملے کا نوٹس لیا نہ کوئی کارروائی ہوئی۔اب وہاں ایک گدی نشین صاحب قابض ہو گئے ہیں اور اپنا دھندہ چلا رہے ہیں۔میا بائی کی قبر پر مائی بخاری کی شناخت لگا دی گئی ہے۔اس سارے کام کے دوران پونچھ ہائوس کا سرکاری عملہ اور اس عمارت کی دیکھ بھال پر مامور لوگ کیوں خاموش رہے اس کی بابت انکوائری کی ضرورت ہے۔ کوئی پندرہ سال قبل چوبرجی کی عمارت کے اردگرد صفائی کر دی گئی۔خستہ عمارت کی مرمت ہوئی اور سامنے ایک سبزہ زار بنا دیا گیا۔ بول و براز کا سلسلہ بھی رک گیا لیکن اورنج ٹرین کی تعمیر سے ایک بار پھر یہ عمارت زیر بحث آ گئی۔ اورنج ٹرین کے منصوبے کے لئے محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ کو اہمیت نہ دی گئی جس کے مطابق یہ منصوبہ چوبرجی کی عمارت کو کمزور کر سکتا ہے۔ باغ مٹ چکا اب چوبرجی ڈیوڑھی ہے‘ سمن آباد موڑ گزریں تو جہاں آرا کا مقبرہ ہے اور چوبرجی کے پاس پونچھ ہاوس میں میا بائی کی قبر ہے جس کا کتبہ بدل دیا گیا ہے۔