وزیر اعظم پاکستان نے پی ٹی آئی حکومت کے تین سال مکمل ہونے پر ایک تقریب سے خطاب کیاجس میں اپنی حکومت کی 3 سالہ کارکردگی کا جائزہ پیش کیا بلکہ بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے بھی اپنی حکومت کی پالیسی کو واضح طور پر دنیا کے سامنے رکھا۔وزیر اعظم نے اپنی پالیسی کو دہرایا کہ پاکستان اب کسی اور کی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔وزیر اعظم نے امریکہ کو بھی باور کرایا کہ پاکستان نے امریکہ کی جنگ میں حصہ لے کر ہزاروں جانوں کی قربانی دی اور اس کے بدلے پاکستان میں 480کے قریب ڈرون حملے کئے گئے۔ جب امریکہ کا مطلب پورا ہو گیا تو پاکستان پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ستر ہزار جانوں کی قربانی دینے کے باوجود امریکہ پاکستان پر ہی حملے کرتا رہا اور اس دوران پاکستان کی معیشت بھی تباہ ہو گئی۔اب پاکستان کو امریکہ کی شکست کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔عمران خان نے کہا کہ اب ہم نے طے کر لیا ہے کہ آئندہ اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔اس میں معاونت کاری ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ کسی حکمران نے امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ہے اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کو نسبتاً آزاد خطوط پراستوار کیاہے۔اس کی بنیادی وجہ وزیر اعظم کی ذاتی جرات اور انکے ذاتی مفادات کا کسی بڑی طاقت سے نہ جڑا ہونا ہے۔جن حکمرانوں نے ماضی میں یورپی ممالک میں اپنی جائیدادیں بنائی ہیں اور ناجائز دولت اکٹھی کی ہے وہ کس طرح اپنے ملک کے مفادات کا سوچ سکتے ہیں۔افغانستان میں طالبان کی فتح نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی صحیح خطوط پر گامزن ہے۔پاکستان مخالف قوتیں آج دربدر ہو کر مختلف ممالک میں پناہ کی تلاش میں ہیں۔مودی،اجیت دوول اور دیگر بھارتی لیڈر خود اپنے ملک میں شدید تنقید کی زد میں ہیں۔تین چار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری طالبان کی فتح کی نذر ہو چکی ہے اور بھارت کا اپنا میڈیا مودی سرکار کو ناکام ترین خارجہ پالیسی کے طعنے دے رہا ہے۔مستقبل قریب میں بھارت کا افغانستان میں کوئی کردار نظر نہیں آتا۔پی ٹی ایم اور دوسری پاکستان مخالف قوتیں بھی طالبان کی زد میں ہیں اور انہیں سخت وارننگ مل چکی ہے کہ وہ اپنا اسلحہ حکومت کے حوالے کریں اور آئندہ افغانستان کی سرزمین سے انہیں پاکستان مخالف کارروائی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔یقینا یہ پاکستان کیلئے ایک بڑی کامیابی ہے اور اسکا کریڈٹ موجودہ حکومت کو جاتا ہے۔ وزیر اعظم نے یورپی ممالک کی افغانستان پر بلاوجہ تنقید کی بھی مخالفت کی ہے۔طالبان نے اپنی پالیسی سامنے رکھ دی ہے کہ دشمنوں کے لئے بھی عام معافی کا اعلان کر دیا ہے اور ہر قسم کے انسانی اور نسوانی حقوق کی پاسداری کا عندیہ دیا ہے۔طالبان نے بین الاقوامی قوانین کا بھی احترام کرنے کا اعلان کیاہے۔اس کے باوجود بعض ممالک بلاوجہ تنقید کر رہے ہیں کہ شاید طالبان اپنے اعلانات پر عمل نہیں کریں گے۔وزیر اعظم نے صاف طور پر کہا ہے کہ فی الحال طالبان امن کی بات کر رہے ہیں اور ان کی مدد کی جانی چاہیے۔اگر وہ اپنے اعلانات پر عمل نہیں کریں گے تو اس وقت اس کے بارے میں سوچا جائے گا۔وزیر اعظم نے پلوامہ آپریشن کے جواب پر بھی پاکستانی افواج کو خراج تحسین پیش کیا اور بتایا کہ اس آپریشن کے بعد ان کا یقین اور پختہ ہو گیا ہے کہ طاقتور افواج کی ہمارے ملک کو کتنی ضرورت ہے۔انہوں نے ماضی میں فوج پر اپنی تنقید کا بھی ذکر کیا۔وزیر اعظم نے کہا کہ فوج عدلیہ اور دیگر اداروں سے بھی غلطی ہو سکتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اپنی تقریروں میں فوج کو نشانہ بنایا جائے اور بھارت کی زبان بولی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ان تین سالوں میںانہیں سب سے زیادہ تکلیف اس وقت ہوئی جب چند لوگوں نے فوج کے خلاف تقریریں کیں اور فوج کے خلاف بھارت کی زبان بولی۔یہ فوج ہی ہے جس کی وجہ سے ہم بھارت کو منہ توڑ جواب دے سکے۔انہوں نے مشکلات سے نبٹنے میں مدد دینے پر افواج پاکستان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ وزیر اعظم نے قانون کی حکمرانی پر بھی بڑی تفصیل سے بات کی اور بتایا کہ جب حکمران طبقہ قانون کی حکمرانی نہ مانے تو ملک تباہ ہو جاتے ہیں انہوں نے آصف زرداری اور شریف خاندان کے دور میں قانون کی حکمرانی نہ ہونے کا ذکر بھی کیا۔وزیر اعظم نے اپنے دور کی معاشی اصلاحات اور معاشی ترقی کا بھی ذکر کیا کہ وہ اب درست سمت میں گامزن ہے۔انھوںنے یہ دعویٰ بھی کیا کہ 2025ء تک پاکستان میں دس نئے ڈیم بن جائیں گے اور پاکستان میں سستی بجلی مہیا ہو گی۔خواتین کی وراثت کے حوالے سے بھی قوانین بنانے کا کریڈٹ اپنی حکومت کو دیا اور یکساں نصاب رائج کرنے پر بھی فخر کا اظہار کیا۔کسانوں کیلئے خوشحالی کی سکیمیں اور عام لوگوں کیلئے ہیلتھ کارڈ کا اجرا بھی پی ٹی آئی حکومت کا کارنامہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تمام باتیں کافی حد تک درست ہیں اور پی ٹی آئی اس میں فخر محسوس کرنے میں حق بجانب ہے۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اس حکومت کا تقریباً دو تہائی عرصہ حکومت گزر چکا ہے اور ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے اور بہت سے وعدے پورے کرنے باقی ہیں۔پولیس کے نظام میں اصلاحات نہ ہونے کے برابر ہیں۔عدالتی نظام کی ناگفتہ بہ حالت تمام برائیوں کی جڑ ہے۔پاکستان میں انصاف نہایت مہنگا اور طریقہ کار خامیوں سے پر ہے۔پاکستان میں جرائم اور حکمرانی کا ایک عجیب و غریب گٹھ جوڑ دیکھنے میں آتا ہے۔آج ہی ایک حکومتی ایم پی اے کے خلاف خاتون کو ہراساں کرنے کا مقدمہ درج ہوا ہے۔اگر ہمارے عوامی نمائندے اس طرح کی حرکتوں کے مرتکب ہوں گے تو عام مجرموں کا ہاتھ کون روکے گا۔مجھے یقین ہے کہ یہ ایم پی اے بھی اسے سیاسی انتقام قرار دے گااور آخر کار قانون کی گرفت سے نکل جائے گا۔پی ٹی آئی کی حکومت میں آج تک کسی بڑے مجرم کو سزا نہیں مل سکی۔نہ کوئی جیل گیا ہے اور نہ کسی نے عوام کا لوٹا ہوا پیسہ واپس کیا ہے۔آخر یہ کس کی ذمہ داری ہے۔عوام تو حکومت کو ہی اس کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔عوام اپنے ووٹ سے حکومت کا انتخاب کرتے ہیں اور حکومت سے ہی یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرے۔عدالتی اصلاحات اور انتظامی اصلاحات حکومت کی ذمہ داری ہے نہ کہ عوام کی۔ راولپنڈی میں ایک مدرسے کے مہتمم نے سولہ سالہ طالبہ سے زیادتی کی ،گرفتاری کے وقت مزاحمت بھی کی۔بہرحال پولیس نے گرفتار کر لیا۔اس کیس میں حکومت کی کیا ذمہ داری ہے۔یہ ایک کیس ہے ایسے متعدد کیس اخبار میں بھی رپورٹ نہیں ہوتے۔اگر عمران خان چند پرانے حکمرانوں کو گرفتار کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ طاقتور کو قانون کے نیچے لے آئے ہیں تو یہ ان کی خوش فہمی ہے۔یہاں قدم قدم پر طاقتور دھونس جما رہا ہے اور غریب عوام انصاف کے منتظر ہیں۔تحریک انصاف کچھ تو انصاف کرے اس سے پہلے کہ ان کا اقتدار غروب ہو جائے یا عوام بھی قانون اپنے ہاتھ میں لے لیں۔