اسٹیون میگی نے کہا تھا کہ کرپٹ حکمران سب سے پہلے اپنا زہر نظام عدل کے رگ و پے میں انڈیلتے ہیںکیونکہ کرپٹ عدلیہ کے بغیر حکمرانوں کے لئے کرپشن کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔قائد اعظم نے بھی فرمایا’’ میں یہ نہیں کہتا کہ ہندوستان کے علاوہ دنیا کے کسی ملک میں کرپشن نہیں ہے مگر ہمارے ملک میں صورتحال بدتر ہے۔بانی پاکستان کی ناگہانی موت کے بعد کرپشن کا ناسور پورے جسد پاکستان میں پھیل گیا۔حکمرانوں نے اپنی بدعنوانی کے دفاع کے لئے وکیل کے بجائے جج خریدنے شروع کئے لوٹ مار میں افسر شاہی کو حصہ دار بنایا تو پھر اندھیر نگری چوپٹ راج کے مقولہ کے مصداق پاکستان اور پاکستانیوں سے کھلواڑ شروع ہوا۔ نظام عدل کے ساتھ اس بڑھ کر مذاق اور کیا ہو سکتا ہے کہ ملک کا وزیر اعظم عہدے پر ہو بھائی سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ ہو اوران کے ماتحت ادارے وزیر اعلیٰ اور اس کے خاندان کے خلاف کرپشن کے مقدمات بنائیں ۔باپ وزیر اعلیٰ ہو اوربیٹا اور داماد مقدمات سے بچنے کے لئے ملک سے فرار ہو جائیں۔ ستم در ستم تو یہ ہے کہ اقتدار ملنے کے بعد باپ بیٹے پر جن اداروں نے مقدمات بنائے وہی ایک ایک کر کے بے گناہی کے سرٹیفکیٹس بانٹنے لگیں۔ سابق وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور ان کے بیٹے سلمان شہباز کے خلاف کرپشن کے مقدمات جس سرعت سے ختم ہوئے اس پر تو عمران خان کے ناقد بھی لکھنے پر مجبور ہوئے۔’’وزیر اعظم شہباز شریف کے صاحبزادے سلمان شہباز منی لانڈرنگ کیس سے باعزت بری ہو گئے جب حکومت اپنی ہو وزیر اعظم گھر کا ہو تو مقدمات ایسے ہی ختم ہوتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست کا یہی دستور ہے ہر آنے والی حکومت اپنے سیاسی رہنمائوں اور اپنی آل اولاد کے کرپشن کیس ایک ایک کر کے ختم کرواتی ہیں جبکہ مخالفین کے خلاف جھوٹے سچے مقدمات بنوا کر انہیں جیلوں میں ڈلواتی اور عدالتوں کے چکر لگواتی ہے‘‘ معروف کالم نگار نے مخالفن پر مقدمات بنوانے کی بات کی درست ہے مگر یہاں تو معاملہ الٹ رہا کہ شہباز شریف کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے ان پر بدعنوانی کے مقدمات بنے ان کا داماد اور بیٹا ان کے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے ملک چھوڑ کر چلے گئے، تحریک انصاف کے اقتدار میں عمران خان مقدمات کو منظقی انجام پر پہنچانے کے بجائے ان مقدمات کی تفاصیل مرچ مسالحہ لگا کر پیش کرتے رہے۔ عمران خان میں بھی اتنی اخلاقی جرات نہ تھی کہ وزیر اعظم کے عہدے پر اعلان کرتے کہ وہ وزیر اعظم ضرور ہیں مگر کرپشن کے مقدمات پر کارروائی ان کے اختیار میں نہیں موصوف بھی کرسی سے اترنے کے بعد اپنی بے بسی کے انکشافات اور ’’اصلی حکمران ‘‘کا واویلا کر رہے ہیں۔ سلیمان شہباز کے خلاف جب منی لانڈرنگ کا کیس بنایا گیا تھا تو ثبوتوں کے انبار ایف آئی اے نے میڈیا کے سامنے رکھے تھے عدالتوں نے انہیں مفرور قرار دیا چالان جب پیش ہوا تو اس پر بھی کوئی شکایت نہ کی لیکن جب شہباز شریف وزیر اعظم بنے تو پہلے ان کے خلاف ایک ایک کر کے کیس ختم ہونا شروع ہوئے پھر سلیمان شہباز کی واپسی ہوئی اور ان کے لئے بھی باعزت بری ہونے کا سلسلہ شروع ہوا ۔شائد اس لئے ہی فیض نے کہا تھا: جس دیس کی کورٹ کچہری میں انصاف ٹکوں پر بکتا ہو جس دیس کا منشی قاضی بھی مجرم سے پوچھ کے لکھتا ہو جس دیس میں غربت ماؤں سے بچے نیلام کراتی ہو جس دیس میں دولت شرفاء سے نا جائز کام کراتی ہو اس دیس کے ہر اک لیڈر پر سوال اٹھانا واجب ہے اس دیس کے ہر اک حاکم کو سولی پہ چڑھانا واجب ہے فیض کا مطالبہ اپنی جگہ مگرہمارا نظام عدل، ہمارا احتساب کا نظام، ہمارے ادارے آئین و قانون پر نہیں حکمران کے اشاروں پر چلتے ہیں نظام عدل مجرموں اور کرپٹ اشرافیہ کی ڈھال بن چکا ہے۔ جب اشارہ ہو تا ہے 16ارب کی کرپشن، 25 اکائونٹس میں غیر قانونی لین دین، 113گواہان، سب کے سب ملزم کی بے گناہی کی دھائی دینے لگتے ہیں۔ اورنگزیب بٹ نامی شخص جس کے اکائونٹ 50لاکھ شہباز شریف کے اکائونٹ میں منتقل ہو ئے وہ عدالت میں گواہی دینے سے انکار کر دیتا ہے حالانکہ پہلے ایف آئی اے میں وہ تسلیم کر چکا کہ یہ رقم پارٹی ٹکٹ لینے کے لئے دی تھی۔ سابق وزیر اعظم کے سولہ ماہ کے دور اقتدار میں جس شہباز سپیڈ سے ملک میں مہنگائی بے روزگاری بڑھی اس سے بھی کئی گنا رفتار سے ان کے اور ان کے بیٹوں پر مقدمات ختم ہوئے پاکستان کے صاحبان اقتدار کا کمال دیکھئے کہ جس دن وزیر اعظم کے عہدے کا حلف لیا اس دن فرد جرم عائد ہونا تھی اور جس دن وزیر اعظم کا عہدہ چھوڑا اس دن ان کی اور ان کے خاندان کے منجمد شدہ اثاثے ان کے حق میں ریلیز کر دیے گئے گویا وزیراعظم بنائے ہی مقدمات ختم کروانے کے لئے تھے مگر اس کی جو قیمت پاکستان اور پاکستانیوں کوادا کرنا پڑی اس کا اندازہ خود حکومتی اعداد و شمار سے ہو جاتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے روز ڈالر 184روپے کا تھا اور 9 اگست کو شہباز حکومت کے اختتام پر 287 روپے کا ،عمران خان اپنے آخری روز آٹا 58روپے کلو چھوڑ کر گئے اور شہباز 141روپے، چینی 88 روپے فی کلو سے 140،گھی 260کا تھا جو کیس ختم کروانے کی قیمت ادا کرتے کرتے 660 روپے کا ہو گیا۔ سولہ مہینوں میں بجلی کی قیمت میں18روپے فی یونٹ اضافہ ہوا. پٹرول 150روپے سے 273 روپے تک پہنچ گیا۔ ایک غیر سرکاری ادارے کے سروے کے مطابق شہباز حکومت میں بے روزگاری اور غربت کی وجہ سے خودکشیوں کی شرح میں35فیصد کی تشویشناک حد تک اضافہ ہوا۔ لوگ معاشی مسائل کی وجہ سے نفسیاتی مریض بن چکے۔ پاکستانیوں کی حالت بقول شاعر یوں ہے: اک حشر بپا ہے گھر گھر میں دم گھٹا ہے گنبد بے در میں اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رسوا ہے وطن دنیا بھر میں