میں نے انہیں اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار میں پہلی بار دیکھا اور سنا تھا۔وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ محکم دلائل سے موضوع گفتگو کو ہر زاویہ نگاہ سے عقلی و فکری انداز سے بیان کرنے والا یہ شخص ایک دن ملک کے اس عہدہ جلیلہ پر فائز ہو سکتا ہے۔وہ ملکی صورتحال پر محض الفاظ کی تگڑم بازی سے اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کی بجائے پختون لہجے میں صاف اور شستہ اردو میں کچھ باریک اور بنیادی نکات بیان کر رہے تھے۔تقریب کے بعد جیسے ہی موقع ملا میں نے اس خوش پوش جوان سے پوچھا کہ بدلتے حالات اور اس ہیجان انگیز سیاسی کیفیت میں شہر اقتدار کے لئے بلوچستان کے لوگوں کا کیا پیغام ہے۔انوار الحق کاکڑ نے بلا تذبذب کہا ہمارا نقطہ نظر واضح اور دو ٹوک ہے۔یہ ہم سب کا ملک ہے۔اس لئے سب کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے ہماری داستان میں محرومیاں ضرور ہیں ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ پوری قوم کو یک جان کر کے اوپر اٹھائیں۔انہوں نے بہت ساری باتیں کیں لیکن نظر آ رہا تھا کہ ان کا ویژن واضح ہے۔ان کی گفتگو کا انداز دو ٹوک تھا۔اگر‘ مگر کی گردان نہیں تھی اور سب سے بڑھ کر وہ حقائق کو سمجھنے والے انسان دکھائی دیے یہی وجہ ہے کہ اسی خوبی اور ادراک نے انہیں اس رہائش گاہ میں داخل ہونے کا موقع فراہم کیا۔جہاں آئینی اور قانونی اعتبار سے ملک کا سب سے بااختیار شخص رہتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی تعیناتی پر حیرانگی کے پھیلے تاثر کے ساتھ کسی منفی آواز کی بازگشت سنائی نہیں دی۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ دلچسپ اور پرمغز باتیں کرنے والے شائستہ اور نفیس انسان ہیں لیکن وہ جس عہدے پر جن الجھے ہوئے حالات میں فائز ہوئے ہیں ان کی یہ مدت خواہ کتنی کم ہو یا زیادہ درپیش چیلنج انہیں سکون و قرار نہیں لینے دیں گے کیونکہ ہم ایک شرمندہ مقام پر کھڑے ہیں۔ماضی قریب میں پیش آنے والے واقعات بتا رہے ہیں کہ عمران خان اور جنرل باجوہ کس طرح سے ایک دوسرے ہاتھ ملاتے جھپی پاتے پائے گئے اور پھر کس طرح ایک دوسرے سے الجھ پڑے۔کیونکہ اس کھیل کا بنیادی نکتہ مفادات کے تحت اپنی ذات تھی کیونکہ یہ کھیل اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے اور اپنی ذات پر ہی ختم ہو جاتا ہے میں تو سوچتا ہوں کہ اس ملک کے بانیوں نے کن اعلیٰ و ارفع مقاصد کے لئے یہ ملک بنایا تھا لیکن ہم نے اسے کیسا ملک بنا دیا ہے۔یہ کیا نظام ہے کہ پوری قوم پل صراط پر چل رہی ہے۔غربت‘ بے روزگاری‘ ناخواندگی ‘ بیماری کا راج ہے۔جس طرح لوگ تانتا بنا کر جوق در جوق ملک چھوڑنے میں عافیت جان رہے ہیں۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہم نے اس وطن کو عام لوگوں کے لئے کیا بنا دیا ہے جو لوگ اس ملک پر حکمرانی کرتے رہے ہیں خواہ وہ کوئی بھی تھے۔76سال کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان کا انداز اور طریقہ اب بوسیدہ ہو چکا ہے۔جس میں آئین اور قانون سے زیادہ فرمائش کا عمل دخل ہو۔جب آپ کی آرزوئیں اور خواہشات عوام کے مفادات کو روندتی چلی جائیں تو پھر ان فیصلوں اور اقدامات میں ہم کہاں فراست تلاش کرنے بیٹھ گئے۔پولیٹکل انجینئرنگ اور سیاسی ڈرائی کلیننگ کا جو وطیرہ ہم نے اختیار کر رکھا ہے۔اس نے من حیث القوم ہمیں ایک منجدھار میں لاکھڑا کیا ہے۔ جناب وزیر اعظم صاحب سسپنس اور تھرل سے بھر پور اس کہانی میں آپ کا کردار کیا ہو گا۔اگر اس کہانی کا دی اینڈ تین ماہ میں ہونا ہے تو پھر آپ ایک مہمان اداکار ہیں۔اگر اس فلم کو مارچ 2024ء تک چلنا ہے تو پھر اس میں کچھ اور کردار بھی نمودار ہوں گے۔آپ کی ان کرداروں سے مڈبھیڑ بھی ہو گی۔شہباز حکومت کے جانے کے بعد چلتی ہوئی کہانی کچھ رک گئی ہے تھم گئی ہے۔لیکن آپ کے سامنے لامتناہی چیلنج ہیں۔ابھی شاید چند ایک کے علاوہ کسی کو نہیں معلوم کہ اس فلم کے بقیے حصے کا اسکرپٹ کیا ہے اور اس میں کس کردار نے اداکاری کے کیا کیا جوہر دکھانے ہیں۔کیا ڈرامہ سیریل کے مقبول ہونے پر اس کی کہانی کو طوالت دی جا سکتی ہے یا پھر اگر اس میں کوئی غیر متوقع موڑ آ گیا تو کہانی کے بقیہ حصے کو نئے ترتیب پانے والے اسکرپٹ کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا۔ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔باقی سب اندازے ہیں ٹامک ٹوئیاں ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے جناب وزیر اعظم کہ یہ ملک در حقیقت دکھوں کا سمندر ہے یہاں رہنے والے لوگ اپنے سیاسی شعور اور وجود کا احساس ضرور دلاتے ہیں۔یہ ووٹ دینے والوں کا ایسا ہجوم ہے جو سماجی اور معاشی اعتبار سے خود کو بے بس اور لاچار محسوس کرتا ہے یہ ووٹرز الیکشن کے دنوں میں زندگی کا احساس دلاتے ہیں سیاسی نعرے لگاتے ہیں اپنی پسند کی جماعت کو کامیاب کرانے کے لئے ہزار جتن کرتے ہیں۔یہ لوگ قیام پاکستان سے لے کر اب تک صرف ووٹ دیتے آئے ہیں لیکن ان کی ڈیوٹی ووٹ دینے کے بعد ختم ہو جاتی ہے ہر شہر ہر علاقے کا اپنا اپنا مزاج ہے ان کی زبان ان کا تمدن ان کی معاشرت مختلف ہونے کے باوجود وہ جن کو اپنا ووٹ دیتے ہیں۔ اپنا نمائندہ بنا کر اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں یا وہ حکمران جو ازخود حکمران بن جاتے ہیں ان میں سے کسی نے بھی ایسے حالات کے جبر کا سامنا نہیں کیا ہوتا۔جناب انوار الحق کاکڑ اپنی اپنی سیاسی قوت کے حامل پاکستان کے یہ لوگ آزادی کے 76سال سے کسی صبح کا انتظار کر رہے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ یہ شہر یہ بستیاں یہ دہی علاقے نہ صرف سماجی اعتبار سے کھوکھلے پن کا شکار ہیں بلکہ یہ اپنی آنکھوں میں حسرت لئے یہ کروڑوں لوگ غربت پسماندگی جہالت اور حالات کے جبر کی شرمناک تصویر بنے ہوئے ہیں۔ آج کے پاکستان کی تصویر کوئی بہت حوصلہ افزا نہیں ملک معاشی بحران میں غوطے کھا رہا ہے۔غربت بڑھ رہی ہے۔عام پاکستانی کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔اسٹیبلشمنٹ خود عدالتی فیصلوں کے مخمصے میں الجھی ہوئی دکھائی دے رہی ہے نظام کسی خاص اسکرپٹ کے ذریعے چلتا نظر آ رہا ہے واضح پیغام ہے کہ 9مئی کے بعد ترتیب پانے والی ریڈ لائن اب کسی کو کراس کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔کسی کو اداروں کو تضحیک کا نشانہ بنانے کی اجازت نہیں ہو گی۔عدالتیں بھی نئی کروٹ لیتی دکھائی دے رہی ہیں۔کہاں قانونی فیصلوں میں پھرتی نظر آ رہی ہے اور کہیں جھکائو صاف دکھائی دے رہا ہے۔یہ بھی واضح پیغام ہے کہ عدالتی ریلیف کے باوجود‘ ریڈ لائن کراس کرنے کی اجازت کسی قیمت نہیں ہو گی۔اس وقت نگران حکومتوں کی تشکیل بھی ایک نیا مرحلہ ہے۔غیر متنازعہ ‘ غیر سیاسی خالصتاً پروفیشنل لوگوںکی تلاش جاری ہے۔اس پیمانے پر شخصیات کو ڈھونڈنا مشکل نظر آ رہا ہے اور جو مل رہے ہیں۔وہ ہاتھ جوڑ کر معذرت کر رہے ہیں۔وہ دریافت کر رہے ہیں۔حکومت کتنے وقت چلے گی اس کی آئینی پوزیشن کیا ہو گی۔ایسی نگران حکومت کی کریڈیبیلٹی کیا ہو گی۔وہ اپنی زندگی کی ساکھ کو چند روز کی چاندنی کے لئے متنازعہ کیوں بنائیںوہ دیکھ چکے ہیں کہ ہماری تاریخ کا سبق کتنا تلخ ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر ہم آج ایڑھیاں رگڑ رہے ہوتے۔ہم گزشتہ 25سالوں سے اقوام عالم کے چوکوںاور چوراہوں پر بھیک مانگنے کے علاوہ کچھ نہیں کر پائے۔