تحریک انصاف کے بانی رکن محترم حامد خان جو پارٹی کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی باغی ہوگئے تھے بنیادی طور پر ایک ماہر قانون کی حیثیت سے ان انگلیوں پر گنے جانے والے محقق اور دانشوروں کی صف میں آئیں گے کہ جنہوں نے آئین اور قانون جیسے مشکل مضمون کی اتنی دلکش اور آسان زبان میں اپنی گرانقدر کتاب Constitutional and Political History of Pakistan میں تشریح کی ہے ۔جو اگر ہماری یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل نہ بھی کی جائے تو کم از کم ارکان پارلیمنٹ ،سربراہ مملکت اور ان کے وزراء اور مشیران کرام کے لئے اس کا پڑھنا لازمی قرار دے دیا جائے۔مگر یہ کام کرے کون۔ وزیر اعظم عمران خان اور انکی ٹیم تو دن رات بیان بازیوں اور اپوزیشن سے دو دو ہاتھ کرنے میں مصروف ہے۔ہمارے شہر کراچی کے صدرِ مملکت محترم ڈاکٹر عارف علوی تو انہیں عالمی مشاعرہ کرنے اور فیتہ کاٹنے سے فرصت ملے تو کسی سنجیدہ کام پہ توجہ دیں۔معذرت کیساتھ ریاست کی سب سے اونچی کرسی پر بیٹھے بزرگ دوست کے بارے میں بات کرتے ہوئے جملہ پھسل گیا ورنہ ۔ یہ کیا ،میں پڑھنے لکھنے کا سودا لے بیٹھا جو بازارِ سیاست میں کب کا نایاب ہوچکا ہے۔محترم حامد خان کی کتاب کا ذکر اسلئے کہ انہوں نے اپنی کتاب میں ایک بحرِ بیکراں کو سمیٹ دیا ہے۔یوں بھی جب آئین اور عدالت پہ گفتگو کی جائے تو مستند حوالہ ضروری ہوجاتا ہے۔یوں جب 18ویں ترمیم کا باب کھلا تو پھر1973ء کے آئین میں کی جانے والی ان ساری ترامیم سے سرسری نہیں گذرا جاسکتا۔کہ جسکے بعد بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منتخب ہونے والی پہلی اسمبلی کے متفقہ آئین میں ہفتوں،مہینوں میں ہی ایسی بنیادی نوعیت کی ترامیم کی گئیں کہ جس سے اس کی حقیقی روح ہی نچوڑ لی گئی ۔اور پھر افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس کا آغاز اس آئین کے خالق قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ ہی ہوا۔مگر اس سے پہلے اس مملکت خداداد پاکستان اور عوام کے ساتھ زیادتی نہیں ظلم یہ ہوا کہ ہم انگریزوں سے آزادی لینے کے بعد بھی اس بات پر مجبور تھے کہ انڈین ایکٹ 1935ء کوہی اپنا پہلا آئین قرار دیتے۔مزید جبر یہ ہوا کہ بانی ِ پاکستان گورنرجنرل قائد اعظم کی قیامِ پاکستان کا سال پورا ہونے سے پہلے ہی رحلت ہوگئی۔یوں پہلی دستور ساز اسمبلی کہیں نو سال بعد اس قابل ہوئی کہ وہ قوم کو ایک اسلامی آئین دیتی ۔یقینا اس بات کا کریڈٹ اس وقت کے وزیر اعظم چوہدری محمد علی کو دیا جائے گا کہ جنہوں نے ملک کو ایک مربوط آئین دیا۔جسے 1956ء کا مشہورِزمانہ آئین کہا جاتا ہے۔اور جس کے تحت نومبر1958ئمیں انتخابات ہونے تھے۔مگر مارچ 1951ئمیںپہلے پاپولر وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ہی سے آرمی چیف جنرل ایوب خان اور ان کے ٹولے نے اپنے بوٹوں کے تسمے کسنا شروع کردئیے تھے۔7 سال میں7وزرائے اعظم کی تبدیلی کے Revolving Chairکھیل کے پیچھے پاکستان کے اصل حکمراں انگریز کے پروردہ سویلین فوجی ٹولے نے ایک سازش کے تحت ملک میں مضبوط توانا جمہوریت کو پنپنے ہی نہیں دیا۔مگر ہاں،اس کی ساری ذمہ داری محض سویلین ملٹری افسر شاہی پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ رہزنوں نے جو رہزنی کی تھی رہبروں نے بھی کیا کمی کی تھی وطن عزیز میں آئین،انصاف اور پارلیمنٹ میںبے توقیری اور تذلیل کی طول طویل تاریخ کو ہمارے حامد خان نے بڑی محنت،ریاضت اور تحقیق سے سمیٹ دیا ہے۔ایک ایک باب اتنا اہم ہے کہ اسے لفظ بہ لفظ بہ زبان اردو پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ حامد خان کی کتاب جسے بھاری پتھر ہی کہوں گا ،اٹھا تو لی مگر محض چوم کر بھی نہیں رکھی جاسکتی۔یہ تو اوپر ہی تحریر کر چکا ہوں کہ اگر 1956ئکے آئین کے تحت ہی عام انتخابات کرا دئیے جاتے تو بعد کے برسوں میں سویلین ملٹری ڈکٹیٹرشپ کے قائد اتنے بدترین دور سے نہیں گذرتے۔مگر1956 ئکے آئین سے پہلے جو قہر پہلی دستور ساز اسمبلی پہ اس کے گورنر جنرل غلام محمد کے ہاتھوں ٹوٹا،اور پھر جس پہ ہماری سب سے بڑی عدالت کے سربراہ جسٹس منیر نے مہر ثبت کی دراصل یہ وہ بنیاد تھی کہ جس نے بعد میں آنے والے آمروں کا آئین و قانون کو روندنے کے لئے راستہ صاف کردیا۔چلیں فیلڈ مارشل ایوب خان کے دس سالہ مارشل لائی دور پر بھی بقول شخصے ’’مٹی پاؤ‘‘ کے معاملے پر عمل کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں مگر 1970ء میں پہلی بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں جو پارلیمنٹ وجود میں آئی تھی اس میں وہ سارے ہیوی ویٹ سیاسی رہنما شامل تھے جنہوں نے وطن عزیز کی آزادی اور پھر اس کے بعد جمہوریت کی بالادستی کے لئے بڑی طویل جد و جہد اور قربانیاں دی تھیں۔کون تھا جو اس پارلیمنٹ میں نہ تھا۔عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمان،پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو،نیشنل عوامی پارٹی کے پختہ کار رہنما خان عبدالولی خان،میر غوث بخش بزنجو،مستند مذہبی رہنما مفتی محمود ،مولانا شاہ احمد نورانی ،پروفیسر غفور احمد اور ایک طویل فہرست ہے۔مگر یہ محض بھٹو ،مجیب انا تھی یا سویلین ملٹری قیادت کی سازش کہ ملک دو لخت ہوا مگر ایک خون کے دریا سے گذر کر۔بنگلہ دیش کے قیام کے بعد جب شاعر ِ بے مثال ڈھاکہ یونیورسٹی میں اپنے یہ اشعار سنا رہے تھے کہ : کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد سامنے ڈھاکہ یونیورسٹی کے ایک سینیئر پروفیسر نے بڑے شائستہ لہجے میں کہا۔’’فیض صاحب خون کے دھبے برساتوں سے نہیں دھلتے۔‘‘آج ہمارے بنگالی بھائی ہمارے پڑوسی دشمن بھارت سے زیادہ شیر و شکر ہیں۔چلیں اسے تاریخ کا جبر کہیں کہ صرف پان اور پی آئی اے کب تک ہزاروں میل کا فاصلہ دونوں صوبوں کے درمیان پاٹتے۔ سو پی پی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو سمیت بچے کھچے پاکستان کی قیادت کو جو موقع ملا تھا ایک حد تک وطن عزیز کو ایک متفقہ آئین دینے کا کریڈٹ بھی انہیں بہر حال دینا چاہئے۔(جاری)