کمال اعتماد اور طمطراق کے ساتھ خواجہ آصف نے فرمایا ’’نواز شریف کو عدالت نے باہر نہیں بھیجا اسٹیبلشمنٹ نے بھیجا تھا‘‘۔محمد مالک صاحب نے سوال کیا’’گئے تو عدالتی آرڈر کے ذریعے ہی تھے ناں‘‘۔ خواجہ آصف نے ترکی بہ ترکی جواب دیا ’’یہ آرڈر بھی عدالت سے اسٹیبلشمنٹ ہی نے کروایا تھا‘‘۔ کمال ہے،ایک ہی سانس میں خواجہ آصف نے سبھی بڑے بڑے اداروں کی ساکھ کو نہ صرف تباہ کر دیا بلکہ اپنی جماعت کے بیانیے کو بھی الٹ کے رکھ دیا، ساتھ ہی ساتھ عمران خان کے موقف کی بھی حمایت کر ڈالی۔یہ بظاہر تو خواجہ آصف کا ایک بیان تھا مگر اس سے پورے کا پورا نظام ننگا ہو گیا۔ ہم جیسے کچھ سادہ لوگ آج تک یہی جانتے تھے کہ ہماری عدالت نے جب نواز شریف کی زندگی کی ضمانت مانگی تھی،تو انسانی ہمدردی اور پلیٹ لیٹس کائونٹ کی پریشان کن رپورٹ دیکھتے ہوئے مانگی تھی۔ہمارا خیال تھا کہ عدالت نے ایک سزا یافتہ مجرم کو باہر بھیجنے کا فیصلہ آئین و قانون کی کتاب کھول کے کیا تھا لیکن خواجہ آصف نے عدالتی ساکھ کے سینے میں خنجر گھونپ دیا فرمایا عدالت کا یہ اپنا فیصلہ تھوڑی تھا یہ فیصلہ تو عدالت کو لکھ کر دیا گیا تھا۔گویا جو فیصلہ آزادعدالت نے کیا خواجہ آصف کے مطابق وہ ان کا اپنا فیصلہ تھا ہی نہیں ۔ ہم آج تک یہی جانتے تھے کہ اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ایک ہی پیج پر تھے، اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر نواز شریف اور ان کی صاحبزادی تنقید بھی کرتے رہے ۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ عمران خان نواز شریف کو باہر بھیجنے کے حق میں نہیں تھے۔مگر خواجہ آصف کے بیان سے اندازہ ہوا کہ جنرل باجوہ عمران خان کی منشاء کے خلاف جاتے ہوئے نواز شریف کو باہر بھیجنے کے لیے عدالتوں پہ دبائو ڈال رہے تھے اور مرضی کے فیصلے کروا رہے تھے۔ خواجہ آصف نے گویا الزام لگایا ہے کہ ہماری عدالتیں اسٹیبلشمنٹ کے دبائو میں فیصلے کرتی ہیں۔ ہم آج تک یہی سمجھتے رہے کہ نواز شریف کے پلیٹ لیٹس واقعی گر گئے تھے، ان کی جان کو سنگین خطرات لاحق ہو گئے تھے۔ ہم سمجھتے رہے کہ میڈیکل رپورٹس جھوٹ نہیں بولتیں، اگر رپورٹ میں کہا گیا ہے تو واقعی ان کی صحت خطرناک حد تک گر گئی ہو گی۔ لیکن خواجہ آصف نے اپنے مذکورہ بیان میں واضح اشارہ دیا ہے کہ میڈیکل رپورٹیں بھی محض ڈرامہ تھیں ، اصل مقصد نواز شریف کو باہر بھجوانا تھا۔ تبھی تو ہم حیران تھے کہ میڈیکل رپورٹس کے مطابق اس قدر بیمار شخص جہاز میں سوار ہوتے ہی اتنا ہشاش بشاش کیسے ہو گیا، لندن پہنچتے ہی اسے کسی اسپتال میں داخل کیوں نہ ہونا پڑا۔لندن میں کرائی گئی نئی میڈیکل رپورٹس نواز شریف کی صحت پر ویسی تشویش کا اظہار کیوں نہیں کر رہیں جیسا کہ پاکستان کی میڈیکل رپورٹس کر رہی تھیں۔ خواجہ آصف کے ایک ہی جملے نے اس بحث کا مکمل خاتمہ کر دیا ہے۔ خواجہ صاحب کی جماعت آج پاکستان کی اعلی عدالتوں اور ان کے ججوں کو آڑے ہاتھوں لیے ہوئے ہے۔ سپریم کورٹ کے ججز پر ایسی تنقید ہو رہی کہ جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ڈھیٹ، کرپٹ، بے شرم اور نہ جانے کیا کیاکہا جا رہا ہے۔اب ایک طرف ججوں کو جانبدار قرار دے کر تنقید کی جا رہی ہے دوسری طرف اپنے لیے ججوں سے رعایت حاصل کرنے کا اعتراف بھی کیا جا رہا ہے ۔ گویا اگر عدالتیں اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر یا شریف خاندان کے کہنے پہ چل رہی ہوں تو وہ انصاف کی شاندار مثال قائم کر رہی ہوتیں ہیں اور اگر عدالتیں اسٹیبلشمنٹ کا دبائو قبول کرنے سے انکار کر دیں تو وہ عدالتیں ڈھیٹ،بے شرم اور کرپٹ ہو جاتی ہیں۔ایسی عدالتوں کے دروازے پر دھرنے ہونے چاہییں اور لائوڈ اسپیکر کی آواز اونچی کر کے ججوں اور ان کے خاندان کو گالیاں دی جانی چاہییں اور ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھائے کارکنوں کو یہ تک کہہ دینا چاہیے کہ اگر آئین اور قانون کی سر بلندی کے لیے دو چار ججوں کو قربان کر دیا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ن لیگ شہباز شریف کی ملک قیوم کے ساتھ منظر عام پر آنے والی آڈیو کی آج تک وضاحت پیش نہیں کر سکی۔ اپنے جج لگوانے اور مرضی کے فیصلے لینے کے لیے کیسے کیسے حربے استعمال کیے جاتے رہے اس کی کوئی منطق دستیاب نہیں ۔ اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف احتساب بیورو کے سربراہ سیف الرحمن کے ذریعے کیسے کیسے مظالم ڈھائے گئے،کیا اس کی کوئی وضاحت پیش کی جا سکتی ہے؟مرضی کا فیصلہ ملے تو عدالتیں اچھی ہیں،مرضی کا فیصلہ نہ ملے تو عدالتیں کرپٹ ہیں،سبحان اللہ ۔ سپریم کورٹ کے جس بینچ پرآج سب سے زیادہ تنقید ہوتی ہے اس بینچ نے ایک سال پہلے قاسم سوری کی رولنگ کو کالعدم کر کے پی ڈی ایم کی حکومت بنوانے کے لیے راہ ہموار کی۔ تب یہ عدالت پاکستان کی سب سے اچھی عدالت تھی اور آج یہ عدالت جانبدار اس لیے ہے کہ اس کے خیال میں آئین کے مطابق نوے دن کے اندر انتخابات ہونے چاہییں۔ موجودہ حکومت نے عدالتوں کے فیصلوں پر عملدرآمد نہ کرنے کی بھی ایک نئی مثال قائم کی ہے۔پہلے انتخابات کرانے کے فیصلے کو ہوا میں اڑا دیا گیا اور اب اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلوں کی روز حکم عدولی ہو رہی ہے۔عدالت کسی شہری کو گرفتار نہ کرنے کا حکم دیتی ہے اور عدالت سے باہر نکلتے ہی اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ عدالت دوبارہ چھوڑنے کا حکم دیتی ہے تو باہر نکلتے ہی اسے دوبارہ گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جن کی گرفتاری اغوا کا روپ دھار چکی ہے ، ان کی گرفتاری کا کوئی ریکارڈ ہی موجود نہیں ۔ مخالف آوازوں کو نامعلوم افراد اٹھا کر نا معلوم مقام پر لے جاتے ہیں اور اہل خانہ در در کی ٹھوکریں کھاتے رہتے ہیں ۔ لیکن حیران ہونے کی بات نہیں ، خواجہ آصف نے بتا دیا ہے کہ عدالتوں کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ۔ اہم فیصلے ہوتے کہیں اور ہیں ،سنائے عدالتوں میں جاتے ہیں ۔