ہمارے ضلعوں اور صوبوں کی حد براری اور بائونڈریز کے کچھ قضیے ابھی تک زیر بحث ہیں ، جس کے لیے قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ مستعد ہے۔جسکا بتیسواں اجلاس گزشتہ روز پارلیمنٹ ہائو س اسلام آباد کے کمیٹی روم نمبر7 میں منعقد تھا،جس میں پارلیمنٹرین،اعلیٰ افسران او رکچھ اولمپیئن جیسے اختر رسول اور شہناز شیخ--- اپنے عہد کے ہاکی کے عظیم کھلاڑی،جنہوں نے دنیا میں پاکستان کا نام سر بلند کیا،شامل تھے،جو ہاکی سمیت دیگر کھیلوں کے احیاء کا درد لیئے اس کمیٹی کے اجلاس میں موجود تھے ،جن کا سوزِ دروں یہ تھا کہ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیو ں سے کھیل کے میدان ختم ہوگئے،مستزادیہ کہ تعلیم اور کھیل کی وزارتیں اور محکمے الگ ہوگئے،نسلِِ نو بر گشتہ ہوگئی، فزیکل ایکسرسائز ختم ہوگئی ۔ اَسّی کی دہائی میں سکولوں اور کالجوں میں انٹر سکولزاور انٹر کالجز ٹورنا منٹس کا کیا شاندار اور زبردست ماحول تھا،کھلاڑیوں کو اداروں کی شناخت اور اعزاز جانا جاتا تھا،گرائونڈ وں کی ترتیب و تشکیل اور کھلاڑیوں کی گرومنگ میں فزیکل ٹریننگ انسٹرکٹرزکس طرح سر گرم ِ عمل رہتے تھے ۔ ہمارے اپنے سکول میں ہاکی اور فٹبال کے دو متوازی گرائونڈز ہمہ وقت پُر جوش اور سرگرم رہتیں،بڑے بڑے نامور کھلاڑی ہم نے اِن میدانوں میں دیکھے۔اَب سُنا ہے یہ ہاکی گرائونڈ ایک تعلیمی بلاک میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اِن امور پر ایک جامع حکمت عملی وضع کرنا صوبائی حکومتوں کا کام ہے۔جس کے لیے متعلقہ ا دارے سرگرمِ عمل ہیں،پنجاب کے سیکرٹری سپورٹس شاہد زمان خاں ایک محنتی اور برق رفتار شخصیت ، جنہوں نے اپنی مساعی اور منصوبہ بندی سے اجلاس کو آگاہ کیا ۔ اِن کی یہ بات اہم تھی کہ بجٹ کے زیادہ اخراجات ڈویلپمنٹ سائیڈ پہ چلے جاتے ہیں،جیسے سٹیڈیم اور جمنیزیم بنادیئے۔لیکن اِن کی آباد کاری کے لیے نوجوان کہاں اور کس طرح آئیں ۔ ان کے لیے"Incentive" کا اہتمام اور وظائف کا اجراء ہو ۔ بہرحال نسل ِ نو کا کھیل کے میدان سے کنارہ کش ہونا ایک ایسا خسارہ ہے ، جس کا خمیازہ ملک و قوم کو درپیش ہے ۔ دوسرا ایجنڈا صوبوں کی بائونڈری لائن کے حوالے سے تھا،جس میں ضلع راجن پور اور روجھان کے علاقے،جہاں پنجاب،سندھ اور بلوچستان کی حدیں متصل ہوتی ہیں ، کے ایشوز زیر ِ بحث تھے ، جس میں متعلقہ صوبوں کے بورڈ آف ریونیو، متعلقہ کمشنرز او ر عمائدین،جن میں بھگٹی اور مزاری سردار بطور شامل ہیں ، پر مشتمل ایک ورکنگ گروپ تشکیل پاگیا ، جن کی سرگردگی میں موقع ملاحظہ کر کے ہونے والا فیصلہ بھی صائب اور قابلِ قبول ہوسکتا ہے ۔ برصغیر میں صوبوں اور ضلعوں کا وجود کب آیا، اِس پر مختلف آراء ہیں،ایک رائے یہ ہے کہ اِس کا آغاز شیر شاہ سوری کے عہد میں ہوا ، اس کے عہد میں صوبے کا نام ’’ اقطاع‘‘تھا اور وہ حسبِ ضرور ت ان پر کسی معتبر جرنیل یا امیر کو صوبے کا سربراہ مقرر کرتا تھا ۔’’صوبہ یا صوبائی گورنر‘‘کی اصطلاح اکبر اعظم کے عہد میں شروع ہوئی ۔ابتداً شیر شاہ سوری نے انتظامی سہولت کے لیے مملکت کو متعدد انتظامی حلقوں میں تقسیم کیا ۔ اس انتظامی یونٹ کو’’سرکار‘‘ کہا جاتا،جیسے آج’’ ضلع‘‘ہے ۔ اس وقت اِن حلقوں کی تعداد سنتالیس تھی ، پھر’’سرکار‘‘ کے انتظام کے لیے دو افسر مقرر تھے ، جن کو شقدادِ شقداران اور منصفِ منصفان کہا جاتا تھا ۔ شقدادِ شقداران کے فرائض میں سرکار (اضلاع) میں اَمن و امان قائم رکھنا ، باغی زمیں داروں کی گوشمالی کرنا، حکومت کے احکام کی تعمیل وغیرہ شامل تھی ۔ اس منصبدار کے زیر کمان ایک فورس بھی ہوتی تھی ۔ منصفِ منصفان کی حیثیت ایک جج کی سی تھی ۔ اس کا کام دیوانی مقدمات کا فیصلہ ، پر گنہ کے منصف کا تقرر، مالیہ کی وصولی کی نگرانی ، پر گنوں کے باہمی تنازعات کا تصفیہ اور کسانوں کی شکایات کا ازالہ وغیرہ تھا ۔ شیر شاہ سوری ہی نے ضلعوں یعنی سرکار کو مزید موثر بنانے کے لیے تحصیلوں ، جیسے ان عہد میں پرگنوں کا نام دیا گیا،میں تقسیم کیا۔جس کے لیے پانچ اہم سرکاری افسر مقرر ہوئے۔جس میں شقدار اور مصنفِ اعلیٰ انتظامی آفیسر تھے،یہ دونوں سرکار کے افسران کے نائب تھے ۔ ایک تحصیل کے نیچے متعدد دیہات پر مشتمل ایک یونٹ تشکیل دیا ۔ جس میں چوکیدار، پٹواری اور مقدم مقرر ہوتے ۔ باہمی تنازعات کا فیصلہ مقامی پنچائتوں کے ذریعے کیا جاتا۔ مقدم یعنی نمبردار کو گائوں میں اہم مقام حاصل تھا۔کاشتکاروں سے مالیہ وصول کرنا،اُسے شاہی خزانے میں جمع کرنا۔شیر شاہ نے دیہات کی خودمختاری کو قائم رکھا۔دیہاتی کمیونٹی سے پٹواری اور چوکیدار کے ذریعے براہِ راست رابطہ رکھنے کو موزوں جانا۔شیر شاہ سوری کے بعدجلال الدین محمد اکبر،جس کو لین پول نے برصغیر پاک و ہند کے شہنشاہوں میں ایک عظیم المرتبت اور رفیع الشان حکمران قرار دیتے ہوئے سلطنتِ مغلیہ کا تنظیم دہندہ اور بانی قرار دیا،اور اس کے عہد کو مغلیہ سلطنت کا سنہری دور کہا جاتا ہے ، وہ کتابی ِ علوم سے بالکل نابلداور چِٹااَن پڑھ تھا ۔ لیکن اس کی فہم و فراست ، دور اندیشی اور انتظامی صلاحیت اس قدر لائقِ ستائش تھی کہ اس کا عہد خوشحالی اور کامیابی و کامرانی سے عبارت اور علوم و فنون کی ترویج و ارتقاء کا نمائندہ ثابت ہوا۔ تاریخ اس کو ایک عظیم فاتح ، بلند پایہ منتظمِ سلطنت ، آئین ساز حکمران اور مغلیہ سلطنت کے حقیقی معمار کے طور پر یاد کرتی ہے ۔اس کے نورتن یعنی مجلس ِ منتظمہ اس عہد کے منفرد اور منتخب لوگ تھے ، جن میں راجہ بھگوان داس، راجہ مان سنگھ اور عبد الرحیم خانِ خاناں جیسے اعلیٰ پائے کے جرنیل ، راجہ ٹوڈرمل اور شہباز خان جیسے شہرۂ آفاق منتظم اور ماہر ِ معاشیات، ابو الفضل فیضی اورشیخ مبارک جیسے مشہور ِزمانہ علماء و سکالر،حکیم ابو الفتح،راجہ بیربل اور تان سین جیسے یکتائے روز گار--- جنہوں نے عہد ِ اکبر کو تاریخ ہند میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر کردیا۔اُس نے راجپوتوں کو اطاعت گزار بنانے کے لیے تشدّد کی بجائے مصالحت اور مفاہمت کا راستہ اختیار کیا،جنگ کی قدیم پالیسی ترک کر کے صلح جوئی اور حُسنِ سلوک سے ہندو رعایا کے ساتھ باہمی اعتماد کو فروغ دیا ۔ یہ اس کی قائدانہ صلاحیتیں اور لیڈر شپ تھی ، جو اُس کو کسی تعلیمی یا تربیتی ادارے سے تو میسر نہیں آئیں ۔ بلکہ اس نے از خود اپنے اندر ان کو پروان چڑھایا۔ اس نے منصب داری سسٹم ایجاد کیا اس سے قبل برصغیر میں جاگیرداری نظام تھا ، فوج کے افسروں اور امراء کو تنخواہ کی بجائے بڑی بڑی جاگیریں بادشاہ کی طرف سے دی جاتی تھیں۔ یہ لوگ جو جاگیردار کہلاتے تھے ، بادشاہ کی طرف سے نہ صرف جاگیر کا انتظام کرتے اور حکومت کو لگان وصول کر کے دیتے بلکہ جنگ کی صورت میں اپنی قائم کردہ فوج سے بادشاہِ وقت کی مدد بھی کر نے کے لیے مقررہ تعداد میں گھوڑے رکھتے اور باقاعدہ تربیت یافتہ فوج قائم کرتے ۔ ہمایوں کی کمزور قیادت کی وجہ سے مغلیہ جاگیردار آرام طلب اور تساہل پسند ہوگئے تھے اورفرائض کی انجام دہی میں کوتاہی اور مجموعی طور پر بدیانتی کا شکار ہوگئے ۔ اکبر نے اِس نظام کو ختم کر کے منصبداری سسٹم رائج کیا اور اس سسٹم کے تحت تمام فوج اور دیگر امور کو منظم کیا۔ مورخین اس منصبداری نظام کو مغلوں کا سول سروس نظام کہتے ہیں ، جہاں ہر منصبدار کے عہدے ، مرتبے یا آفس کا اندازہ اُس کے منصب سے ہوتا تھا ۔