نومبر آیا تو دل کی دنیا زیر وزبر ہونے لگی۔یہ مہینہ میرے کشمیر میں شدید جاڑے کا پیغام لے کر آتا ہے جب پہلے سے محدود زندگی مزید سکڑ جاتی ہے۔اس موسم کے آنے سے قبل پیر پنجال کے دامن میں پھیلی وسیع پہاڑی ڈھلانوں اور شاداب میدانوں سے بکروال گرم میدانوں کی طرف اترنے لگتے ہیں ۔ ایک زمانے سے کشمیر کے لوگ اپنی روایات پر قدم قدم چل رہے ہیں ۔ جب بہار کی پہلی بارش ہوتی ہے تو ان کے مویشی اور بھیڑ بکریوں کے ریوڑ بھی بلندیوں کی جانب چلنے کے لیے بے تاب ہو جاتے ہیں ۔ ہزاروں خانہ بدوش بکروال خاندان بلند پہاڑی سلسلوں کی طرف چلے جاتے ہیں جہاں فطرت انہیں اور وہ فطرت کے حسن کو بہت قریب سے دیکھتے ہیں ۔ فطرت سے محبت ان کی میراث ہے ۔ یہ جنگل ‘ڈھلانیں برفاب پانی آبشاریںاور سبزہ زاران خانہ بدوشوں سے اور یہ خانہ بدوش ان کے ساتھ صدیوں سے مانوس ہیں۔ یہ دلکشیاں اور رعنائیں ان کے دلوں کو لبریز کر دیتی ہیں ۔وادیء گل پوش کے یہ لوگ دلوں میں خواہشیں نہیں پالتے ۔دودھ ‘ دہی ‘لسی ‘مکھن اور مکئی کی روٹی جیسی نعمتیںانہیں سیر رکھتی ہیں ۔ وہ دلفریب پہاڑی چراگاہوں کو آباد کرتے ہیں ‘ جن کو اللہ نے شادابیوں سے مالا مال اور اپنی نعمتوں سے بھر دیا ہے۔ ہوا کے بجروں پر تیرنے والے بادل ‘ دھند میں چھپی ہوئی برفانی چوٹیاں ‘تا حد نگاہ تک پھیلے ہوئے سر سبز میدان ‘خوابوں کے دیس جیسی ڈھلوانی چراگاہیں‘ اخروٹ کے بلند و بالا درخت اور ان کے نشیب کوہ میںبے شمار رنگوں والے ان گنت پھول اور رنگ برنگ تتلیاں ۔کشمیر کو جنت نظیر اسی لیے تو کہا جاتا ہے ۔ اس بہشت کے رنگ ان ہی نظاروں سے مکمل ہوتے ہیں۔ قدرت نے حسن بے پناہ اور ان گنت نعمتوں کے ساتھ ساتھ اب ان خوب صورت پہاڑوں کو شہیدوں کا مدفن بنا کر ان کے باسیوں کے لیے اور بھی قیمتی بنا دیا ہے ۔ بہاروں کے حسن کو لہو سے سینچنے والوں نے کوہ و دمن کو لازوال کر ڈالا ہے۔ پہاڑوں پر رہنے والے لوگ برف باری سے قبل میدانوں کی طرف اترنے لگتے ہیں، تو گرمی کے زمانے میں بچھڑ جانے والے اپنے پیاروں کو یاد کرتے اور مائیں ‘ بہنیں اور بیویاں اپنی آنکھوں کا پانی اوڑھنیوں سے خشک کرتی جاتی ہیں اور زیر لب گنگناتی جاتی ہیں۔ اُچیاں نکیاں پے گیاں برفاں ٹُر گئے لوک کرھاں نوں ربا او پیارے کد ملن گے لے گئی موت جنہاں نوں (اونچے ‘ بلند پہاڑوں پر برف پڑ چکی اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے ۔ خدایا ! اب وہ پیارے پیارے لوگ کب ملیں گے جن کو موت اٹھا کر لے گئی ہے) اب کے نومبر پھر آیا ہے تو کلیجوں میں اٹھنے والے درد کی ٹیسیں کچھ اور بڑھنے لگی ہیں ۔جموں کشمیر کی نگری نگری کہرام ہے ۔مدت ہوئی یہ وادی گلبہاروادیء پُرخار بن چکی۔ بہار کا جوبن اب بھی اترتا ہے لیکن لہو کی برسات کے ساتھ،برف کے گالے اب بھی اترتے ہیں لیکن توپ وتفنگ کی گونج کے ساتھ۔ یہ جو پہاڑی گزر گاہوں کے پاس اور گمنام قبروں میں سوئے ہوئے ہیں یہ سوئے کہاں ہیں ‘ یہ تو جاگے ہیں ۔ ان کے جاگنے سے تو سکوت مرگ ٹوٹا ہے ۔ وہ جاگے تو صدی کی گراں خوابی کے بعد ملت کشمیر جاگی ہے ۔ یہ تو وہ ہیں جن سے آزادی کی تحریکیں صدیوں تک فیضان حاصل کیا کریں گی۔ مورخ تاریخ لکھنے بیٹھے گا تو اس بات کو نظر انداز نہ کر سکے گا کہ یہ نوجوان خالی ہاتھ اٹھ کھڑے ہوئے تھے ‘کسی سہارے اور بیس کیمپ کی تلاش میںسینکڑوں میل پیدل راستہ طے کرتے بلند ترین پہاڑی سلسلے کو عبور کیا کرتے تھے۔ اس جستجو میں کبھی برف زاروں میں بھٹک جاتے اور کبھی درندہ صفت دشمن کا شکار ہو جاتے اور کبھی برفانی طوفانوں میں گھر جاتے۔کتنے وہ بھی تھے جو مائوں کی دعائیں لے کر واپسی کی امیدیں دلا کر نکلے تھے اور ان سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے ۔پہاڑوں سے اترنے والے بکر وال ،گرمی کے موسم کے آغاز میں جب برف پگھلنے لگتی ہے، چوٹیوں پر پہنچتے ہیں تو کہیں کہیں ان شہیدوں کے آثارنظر آتے ہیں۔ کہیں کہیں برسوں پہلے شہید ہونے والے نوجوانوں کی لاشیں بالکل اصلی حالت میں موجود ملتی ہیں۔ ایسے بھی تھے کہ جن کے بدن سے خون ٹپک رہا تھا اور ان کی خوشبو سے پوری فضا مہک رہی تھی ۔ اس سے قبل یہ خوشبو ان فضائوں میں کبھی محسوس نہیں کی گئی اور سچ تو یہ ہے کہ اس سے پہلے یہاں گلشن حق کے سرو وسمن اور گلاب بھی تو نہیں کھلے تھے ‘پھر مہک کیسے ہوتی ؟روشنیوں کے سنگم پر جہاں عقیدت کے پھول نثار کیے جاتے ہیں‘ کتنے خوش قسمت ہیں ‘ وہ لوگ جو ہماری آبرو کے ان پاسبانوں ‘ عظمت کے ان نشانوں کو سلام کرنے پہنچتے ہیں ۔ کاش کوئی میرا سلام بھی پہنچا د ے‘ میرے ان ہزاروں شہیدوں کو جنہوں نے پاکستان کی بقا کے لیے اپنا سب کچھ وار دیا ۔ کاش میرا یہ درد کوئی پاکستان کے حکمرانوں تک پہنچا سکے کہ تمہاری حرمت کی خاطر لڑنے والوں کو تہہ تیغ کرنے والا بھارت تمہیں تاڑ رہا ہے ،تم ایک دوسرے کے گریبان ناپ رہے ہو ۔ وہ تمہارے بچوں کو ذبح کرے گا تب تمہاری آنکھیں کھلیں گی؟نومبر آیا ہے تو دریائے جہلم اور دریائے نیلم کے کنارے کنارے بکر والوں کے قافلے اترتے چلے جا رہے ہیں ۔ ان کی زبانوں پر درد کے نغمے ہیں۔ ان کے دلوں میں دکھ کی لہریں اور اہل کشمیر کرب میں ڈوبتے چلے جا رہے ہیں۔ ٭٭٭٭