حلقہ این اے 133کے ایم این اے پرویز ملک انتقال کر گئے۔ حسب روایت یہاں ضمنی الیکشن کا اعلان ہوا۔مسلم لیگ ن نے شائستہ پرویز ملک کو امیدوار نامزد کیا۔پیپلز پارٹی نے چودھری اسلم گل کو میدان میں اتارا۔پارٹی نے سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو خصوصی اختیارات اور وسائل فراہم کر کے لاہور بھیج دیا تاکہ وہ انتخابی انتظامات اور الیکشن مہم کو بہتر طور پر چلا سکیں۔اس موقع پر پہلے سرگوشیاں سنی گئیں پھر وہ آڈیو اور ویڈیو منظر عام پر آ گئیں جن میں پیپلز پارٹی سے وابستہ افراد غریب ووٹروں سے ووٹ خرید رہے تھے۔ایسی ہی ایک ویڈیو مسلم لیگ ن کے دفتر کی سامنے آئی جس میں کچھ لوگ ووٹ خرید رہے تھے۔مسلم لیگ ن کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے ووٹوں کی خریدوفروخت کے باعث اپنے اوپر بڑھتی تنقید کو روکنے کے لئے ن لیگ کا جعلی دفتر بنا کر ویڈیو جاری کی۔یہ ویڈیوز انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں اور بطور حوالہ اب ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ راجہ پرویز اشرف دن رات این اے 133میں متحرک رہے۔رانا فاروق سعید‘ حسن مرتضیٰ اور کشمیر تک سے پی پی کے لوگ یہاں آئے۔راجہ پرویز اشرف نے الیکشن کی مہم ختم ہونے پر پریس کانفرنس کی جس میں سعد رفیق کی جانب سے ووٹوں کی خریداری کے الزام کی تردید و مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی پر ووٹوں کی خریداری کا الزام لگایا ہی نہیں جا سکتا۔انہوں نے کہا تھا کہ وہ اور ان کی ٹیم ووٹروں کے پاس اپنا منشور لے کر گئے۔ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر نے راجہ پرویز اشرف پر ساڑھے انچاس ہزار روپے جرمانہ کیا کہ انہوں نے ضابطہ اخلاق خلاف ورزی کی۔وہ رکن اسمبلی کے طور پر کسی انتخابی مہم میں شریک نہیں ہو سکتے تھے۔راجہ پرویز اشرف نے اصرار کیا کہ انہوں نے کوئی ضابطہ شکنی نہیں کی۔تاہم ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر نے ان کا موقف تسلیم نہ کیا۔ہمارے ایک دوست صحافی نے راجہ پرویز اشرف سے ووٹ خریدنے پر سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ ووٹ خرید ناجائز نہیں‘ یہ جمہوریت کی نفی ہے۔ان کے خیال میں جیالا چارج ہو گیا ہے جس پر مخالفین گھبرا گئے ہیں۔راجہ پرویز اشرف کی اس محنت کا صلہ یوں ملا کہ 2013ء کے عام انتخابات میں یہاں سے 3770ووٹ اور 2018ء کے عام انتخابات میں ساڑھے پانچ ہزار ووٹ لینے والی پیپلز پارٹی این اے 133کے ضمنی انتخاب میں 35ہزار ووٹ لے گئی۔ یہ ساری باتیں بلاوجہ یاد نہیں آ رہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے کچھ دوستوں نے راجہ پرویز اشرف اور اسلم گل سے کیمرے کے سامنے ووٹوں کی خریدوفروخت کرنے والوں پر لعنت بھیجنے کا کہا اور حیرت کی بات کہ انہوں نے لعنت بھی کی۔ اپریل میں عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی۔127پی ٹی آئی اراکین نے اپنے استعفے فوری طور پر پیش کر دیے۔کھیل اس وقت دلچسپ مرحلے میں داخل ہوا جب پی ٹی آئی نے اسمبلی چھوڑنے کا فیصلہ کیا لیکن پی ڈی ایم اتحاد اس کے استعفے منظور نہ ہونے دیے۔سپیکر راجہ پرویز اشرف نے پی پی اور ن لیگ کے سیانوں کی ہدایت پر پی ٹی آئی کے 11ایم این ایز کے استعفے منظور کر لئے۔استعفے منظور کرنے کا میرٹ یہ بنایا گیا کہ جو لوگ چند سو ووٹوں کے فرق سے جیتے ان کے استعفے قبول کر کے وہاں ضمنی الیکشن کرا دیا جائے‘ پی ڈی ایم کا خیال تھا کہ اس کے منصوبہ ساز بھر پور سرکاری وسائل کا استعمال کر کے ضمنی الیکشن جیت جائیں گے اور وزیر اعظم شہباز شریف کو زیادہ اراکین کی حمایت مل سکے گی۔رجیم چینج بیانیے نے پی ڈی ایم کی امیدیں خاک میں ملا دی۔عمران خان چھ حلقوں سے جیت گئے ایک حلقے سے ہارے اور ایک حلقے سے شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی ہاریں۔ضمنی الیکشن کے بعد عمران اسمبلی میں نہیں گئے۔یہ نشستیں اب بھی خالی پڑی ہیں۔راجہ پرویز اشرف نے پی ٹی آئی کے باقی اراکین کے استعفوں کو لٹکا رکھا ہے۔34اراکین کے استعفے یوں منظور کئے کہ اپنے ہی دلائل اور بیانات سے یوٹرن لے لیا۔ابھی 29دسمبر 2022ء کو پی ٹی آئی وفد سے ملاقات کے بعدمیڈیا کو بتایا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 64کے تحت استعفوں کی شرائط پوری کرنا ضروری ہے۔پہلی شرط بتائی کہ استعفیٰ رکن کے ہاتھ سے لکھا ہو‘ دوسرا رکن پر کوئی دبائو نہ ہو‘ تیسرا یہ کہ استعفے کا خواہاں رکن انفرادی طور پر سپیکر سے ملاقات کرکے تصدیق کرے۔پی ٹی آئی اراکین کا کہنا تھا کہ وہ اسمبلی کے فلور پر استعفے کا اقرار کر چکے ہیں۔جاوید ہاشمی نے جب پی ٹی آئی کے رکن کے طور پر ایاز صادق کو استعفا دیا تھا تو انہوں نے کوئی لکھا ہوا کاغذ نہیں پیش کیا بلکہ اسمبلی کے فلور پر اعلان کر دیاجیسے سپیکر ایاز صادق اور سپریم کورٹ نے تسلیم کیا۔ اب ایسا کیا ہو گیا کہ وہ موقف راجہ صاحب نے تیاگ دیا جسے وہ آئینی اور قانونی قرار دیتے تھے۔پھر یہ امر بڑا معنی خیز ہے کہ مسلم لیگ ن کے ترجمان اسے ’’سرپرائز‘‘ قرار دے رہے ہیں۔بھائی جان کون تھا سرپرائز۔ کیا جمہوریت‘ جمہوری روایات اور جمہوری اداروں کو بلڈوز کر کے عمل کو سرپرائز کہتے ہیں؟ سیاست دانوں کے جھوٹے وعدے‘ دوغلی پالیسیوں اور بدعنوانی نے ان کی ساکھ تباہ کر دی ہے۔وہ ووٹ دوہزار روپے کا خریدتے اور پانچ کروڑ روپے کا فروخت کرتے ہیں۔وہ ہر اس موقع پر رقم اور مراعات کا تقاضا کرتے ہیں جب کوئی ڈوب رہا ہو او انہیں آخری تنکا سمجھ کر سہارا لینا چاہتا ہو۔34یا 35استعفوں کو قبول کرنے سے کھیل حق میں نہیں ہو جائے گا ۔زوال کا پتھر ڈھلوان سے لڑھک چکا۔ اب یہ کسی سے رک نہ پائے گا۔پیپلز پارٹی سب سے زیادہ جمہوریت کا نام لیتی ہے‘ شائستہ طرز کلامی اس کی پہچان رہی ہے۔ایک شناخت یہ بھی رہی ہے کہ مشکل وقت میں بھی پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا۔راجہ پرویز اشرف نے جو کچھ کیا وہ آئینی تو قطعاً نہیں‘ آئینی نہیں تو پھر غیر آئینی ہوا۔غیر آئینی تو پیپلز پارٹی آئینی کی حفاظت کے وعدے سے کیا پھر گئی ہے؟