معروف شاعر محسن نقوی کی 26 ویں برسی جھوک سرائیکی ملتان میں منائی گئی۔ ڈیرہ غازیخان کے معروف ادیب ملک سراج احمد نے اعلان کیا کہ محسن نقوی کے سرائیکی کلام جو کہ جھوک نے شائع کیا اسے کتابی صورت میں شائع کیا جائے گا۔ اُن کے علاوہ دیگر احباب نے عظیم شاعر کی یادوں کے چراغ روشن کئے ، بندہ ناچیز نے اپنی گفتگو میں کہا کہ محسن نقوی بہت اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے دوست اور بہت اچھے انسان بھی تھے ، ابھی کل کی بات ہے 26 برس بھی بیت گئے ، ان کی جدائی کا صدمہ ابھی باقی ہے، آج ہم ان کو یاد کر رہے ہیں ، ان کے کارناموں کو دیکھتے ہیں تو یاد پڑتا ہے کہ محسن نقوی اپنے شعری سفر کا آغاز آٹھویں جماعت سے کیا ۔ ماحول کی وجہ سے اردو کی طرف چل پڑے ۔پھر وہ ڈیرہ غازی خان کے ادبی حلقوں کے ساتھ بھی متعارف ہوئے اور ابتدائی طور پر شفقت کاظمی سے اصلاح حاصل کی ۔ محسن نقوی اپنی زندگی کا پہلا مشاعرہ ڈیرہ غازی خان میں کیف انصاری کی دعوت پر پڑھا ، بڑی واہ واہ ہوئی اور بڑی داد ملی ۔ پھر وہ پکے اردو کے ہو گئے ۔ محسن نقوی کا پہلا مجموعہ گورنمنٹ کالج ملتان میں تعلیم کے دوران ہی 1970ء میں ’’ بند قبا ‘‘ کے نام سے سامنے آیا ۔ پھر دوسرا مجموعہ ’’ برگ صحرا‘‘ 1978ء ، ’’ موج ادراک ‘‘ 1980ء ’’ ردائے خواب ‘‘ 1985ء ، ’’ زیرہ حرف ‘‘ 1986ء ’’ عذاب دید ’’ 1991ء ’’ طلوع اشک ’’ 1993‘‘ رخت شب ’’ 1994ء ’’ خیمہ جاں ‘‘ 1996ء جب کہ ’’ فرات فکر ‘‘ اور ’’ حق ایلیا ’’ 1997ء میں شائع ہوئے ۔ سید محسن نقوی جن کا اصل نام غلام عباس تھا ، 5 مئی 1947ء کو ڈیرہ غازی خا خان کے بلاک 45 میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم پرائمری سکول نمبر 6 بلاک 44 سے حاصل کی ۔بعد میں گورنمنٹ ہائی سکول ڈیرہ غازی خان سے میٹرک اور گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خان سے ایف اے اور بی اے کیا ۔ محسن نقوی 1965ء میں گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خان میں بزم ادب کے صدر تھے۔ 1970ء میں انہوں نے ایم اے اردو گورنمنٹ کالج ملتان سے کیا ۔ محسن نقوی کا تعلق خوشحال گھرانے سے تھا ، جس کے پاس خوشحالی ہو وہ گھر کی حویلی میں اولاد کے ساتھ سرکاری اور دوسری زبانیں بولنے لگ جاتے ہیں ، محسن نقوی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ۔ اردو کی زلف کے اسیر وہ بچپن سے تھے ۔ رحیم یارخان رہتے تھے ، بزم فرید کی ادبی محفلیں ہوتی تھیں ، سرائیکی رسالے سچار میں محسن نقوی کے ساتھ عزیز شاہد کا کلام بھی پڑا تو ملنے کی خواہش بڑھ گئی اور دیرہ غازی خان تیاری کر لی۔ مجھے سچار کے ایڈیٹر غلام یٰسین فخری نے سمجھایا کہ ڈیرہ غازی خان بلاک 44 میں عزیز شاہد کا گھر ہے اور بلاک 45 میں محسن نقوی کا۔ اتفاق سے کوئی نہ ملا ۔ رحیم یارخان محسن نقوی کے قریبی رشتہ دار لیبر آفیسر تعینات ہوئے ۔ محسن نقوی رحیم یارخان آئے تو وہ انہیں خانپور لے آئے۔ میں نے نقوی صاحب سے درخواست کی کہ سرائیکی ماں بولی میں لکھنا شروع کریں ۔ محسن نے کہا کہ آپ سچ کہتے ہیں ، میں آگے سرائیکی میں لکھوں گا ۔ اس لئے کہ محسن سرائیکی ماں دھرتی کا بیٹا تھا ، ہمیں اس سے محبت ہے۔ محسن کا نام آئے تو خوشی ہوتی ہے ،ہمیں محسن کا دن مناتے ہیں اسکی یادیں تازہ کرتے ہیں۔ محسن نقوی کا پہلا تعارف سئیں غلام یٰسین فخری کے رسالے سچار کے حوالے سے ہوا ۔ رسالے میں محسن نقوی کی بات چیت اور سرائیکی غزل پڑھی ،شاعری سے بہت متاثر ہوا ،غزل کا مقطع یہ تھا : محسن ہجر دی رات کوں ہنج دی زکوٰۃ ڈے اے بے سہاگ رات ازل دی غریب ہے سرائیکی ادیب احسان اعوان نے محسن نقوی کا ایک شعری مجموعہ مرتب کیا ہے ، اس میں کم تعداد میں ہی سہی محسن نقوی کی کچھ چیزیں محفوظ ہو گئی ہیں اور بہت اچھے شعر پڑھنے کو ملے ہیں جیسا کہ آج کے حالات کے مطابق انہوں نے لکھا ’’ سڑکیں دی رونق مُک گئی ہے ، سم گئے ہِن لوک محلیں دے ‘‘ ۔ اسی طرح ان کا ایک شعر یہ بھی زبان زِد عام ہے کہ ’’ جیں کوں لوک خلوص دا ناں ڈٖیندن ، اے نانگ ہتھیں وچ پلدا ہے ‘‘ ۔ محسن نقوی کی شاعری آج کے عہد کی شاعری ہے ، وہ بہت سمجھدار اور دیدہ ور شاعر تھا، اس نے اپنی شاعری میں نئے نئے تجربے بھی کیے ۔ جیسا کہ درج ذیل غزل میں کے ہر شعر میں انہوں نے اپنا تخلص ردیف کے طور پر شامل کیا ، غزل کے اشعار دیکھئے : جے دل وچ ہووی سچ محسنؔ جیویں دل آکھی ودا نچ محسنؔ محسن نقوی کو ادبی حوالے سے غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی، اس مشہوری نے محسن نقوی کو سرائیکی کی طرف نہ آنے دیا ۔ محسن نقوی کے کلام کو بہت سارے گلوکاروں نے گایا جن میں نصرت فتح علی خان، غلام علی ،عطااللہ خان نیازی ، منصور ملنگی ، مہناز ، خلیل حیدر، رونا لیلیٰ اور غلام عباس کے نام شامل ہیں ۔ فلم ’’ بازار حسن ‘‘ کے گانے لکھنے پر ان کو نیشنل فلم ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ 1994ء میں ان کی ادبی خدمات پر پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا ۔ اس سال بیگم نصرت بھٹو نے ان کو جمہوری ایوارڈ بھی دیا ۔ محسن نقوی کا پیپلز پارٹی کے ساتھ گہرا تعلق تھا ۔ اپنی وفات کے وقت محسن نقوی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے مشیر تھے ، ان کی کئی سیاسی نظمیں مشہور ہوئیں ۔ان کا ایک مصرعہ تو آج بھی پیپلز پارٹی کے جلسوں میں نعروں کی صورت میں گونجتا ہے ’’ یا اللہ یا رسول ، بے نظیر بے قصور ‘‘ ۔ محسن نقوی 15 جنوری 1996ء کو لاہور کی مون مارکیٹ میں دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ نہ صرف وسیب بلکہ پاکستان بھر میں آج بھی اُن کی یاد میں ادبی فضا مغموم ہے۔