کم و بیش ہر برس مارچ میں ایک کالم عافیہ صدیقی کے حوالے سے ضرور لکھا جاتا ہے ۔یہ کالم کیا ایک دستک ہوتی ہے ۔جو اس وقت کے اہل اختیار اور صاحب دربار کے ضمیروں پر دی جاتی ہے۔اپنے بے مایا سے لفظوں کے ساتھ اہل اختیار کے دروازے پر یہ دستک دینا مجھ پر فرض بھی ہے اور ایک قرض بھی۔ محمد ایوب عافیہ رہائی موومنٹ کے گلوبل کوارڈینیٹر ہیں۔ عافیہ کے مسئلے کو وہ ہر لحاظ سے میڈیا کا حصہ بنائے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیونکہ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں کوئی سسٹم نہیں، ادارے مضبوط نہیں کام کرنے والوں کو یاد دلانا پڑتا ہے کہ یہ تمہارا کام ہے، یہ تم نے کرنا ہے۔ اسی لیے عافیہ رہائی موومنٹ ایک پرائیویٹ آرگنائزیشن ہے جس کی سربراہ عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی ہیں اور گزشتہ 21 برس سے وہ اس تکلیف دہ جدوجہد میں شریک ہیں کہ اپنی بہن کو امریکی عدالت میں بے گناہ ثابت کریں اور ان کو واپس پاکستان لے کر آئیں۔کمال بات یہ ہے کہ اس ٹیم کے سب سے پرعزم ممبر ایک برطانوی وکیل کلائیو سمتھ ہیں، جو امریکی عدالت میں امریکہ کا کیس لڑ رہے ہیں۔کلائیو سمتھ کا تعلق برطانیہ سے ہے لیکن وہ اپنے ملک کی سرحدوں سے ماورا ء ہو کر دنیا کے ہر مذہب مسلک اور ملک کے بے بس قیدیوں کے ساتھ ہیں اور ان کے حق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔کلائیو سمتھ وہ واحد وکیل ہیں، جنہوں نے سب سے پہلے گوانتاناموبے کے حوالے سے آواز اٹھائی تھی کہ وہاں پر موجود قیدیوں تک رسائی ہونی چاہیے کیونکہ یہ انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔بے گناہ قیدیوں کے انسانی حقوق کے حوالے سے غیر معمولی کوششوں پر کلائیو سمتھ کو بہت سے انسانی حقوق کے ایوارڈ مل چکے ہیں۔2015ء میں ان کی بائیوگرافی بھی شائع ہوئی تھی۔کلائیو سمتھ گذشتہ 20 برس سے عافیہ صدیقی کا کیس لڑ رہے ہیں۔ وہ ایک دفعہ پھر افغانستان کے دورے پر گئے اور وہاں پر عافیہ صدیقی کے کیس کی الجھی ہوئی کڑیوں کو سلجھانے کے لیے تحقیق اور تفتیش میں مصروف رہے۔ تازہ ترین وہ اپنے ساتھ کچھ ایسے ناقابل تردید حقائق لائے ہیں، جنہیں جھٹلانا امریکی عدالت میں بھی ممکن نہیں ہوگا۔ وہ پر امید ہیں کہ 2024 ء کے آخر تک عافیہ صدیقی کو امریکی جیل سے رہائی مل جائے گی۔مگر اس سے پہلے وہ یہ چاہتے ہیں کہ عافیہ صدیقی کو اس امریکی جیل میں جو مسائل درپیش ہیں کم از کم ان کا کچھ حل نکل آئے۔ عافیہ کیس کی سلسلے میں کام کرنے کے لیے کلائیو سمتھ اکثر پاکستان بھی آتے رہتے ہیں۔ پچھلے سال جب وہ پاکستان آئے تو انہوں نے ایک کنفڈنشل خط اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کیا جس میں تحریر تھا کہ عافیہ صدیقی کی رہائی کی کوششیں صرف اسی صورت میں کامیاب ہوسکتی ہیں جب حکومت پاکستان کی ان کی ٹیم کو حاصل ہوگی۔ عافیہ صدیقی کے معاملے کو اتنا الجھایا گیا ہے، بہت سے لوگ اسے طالبان کا ساتھی سمجھتے ہیں جھوٹ کی گرد آلود کڑیاں اس طرح سے ایک گھناؤنے پروپگنڈا کے ذریعے دنیا کے سامنے لائی گئی کہ بعض پاکستانی بھی سمجھتے ہیں کہ وہ طالبان کے ساتھ دہشت گردی میں ملوث تھی۔ ایسا نہیں تھا یہ وہ جھوٹا بیانیہ تھا جو عافیہ صدیقی کے خلاف بنایا گیا۔ کلائیو اسمتھ اپنی تحقیقی ٹیم کے ساتھ افغانستان میں 10 دن تک رہے اور مظلوم عافیہ پر ہونے والے تشدد اور ان کی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے ناقابل تردید شواہد اکٹھے کیے۔کلائیو اسمتھ کا کہنا ہے کہ ابھی بہت کام کرنا باقی ہے میں مئی میں واپس آؤں گا وہ کہتے ہیں کہ اب ہم یہ انکشاف کر سکتے ہیں کہ متعدد گواہوں سے ثابت ہو چکا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو 2003ء سے 2008 ء تک جب وہ لاپتہ تھی بیشتر عرصہ بگرام افغانستان میں رکھا گیا۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ اس وقت آزاد تھی وہ سچ نہیں کہہ رہے۔17 جولائی 2008 ء کو وہ اس وعدے کے ساتھ انہیںغزنی بھیجا گیا تھا کہ اس کی بیٹی مریم واپس کر دی جائے گی اب ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ یہ ایک دھوکہ تھا جبکہ پولیس کو کال کی گئی تھی۔کہ وہ خود کش بمبار تھی اس کی جان بچانے والا غزنی کا ایک بہادر درزی تھا جو خالد بن ولید مسجد کے پاس کام کرتا تھا اور وہ اردو زبان بھی بول سکتا تھاجب افغان نیشنل پولیس درزی نے عافیہ اور افغان پولیس کے درمیان کھڑے ہو کر اس کی جان بچائی۔ اور انہیں بتایا کہ ٹیلی فون کرنے والا جھوٹ بول رہا ہے ہم نے اس درزی کی گواہی کی تصدیق کے لیے کئی گواہ تلاش کر لیے ہیں۔ ہم نے اس بات کا ثبوت حاصل کر لیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کا امریکی عدالتی ٹرائل میں پیش کیے گئے شواہد شروع سے آخر تک جھوٹے تھے۔ کلائیو نے کہا ہے پاکستانی حکومت ان کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی اگر وہ امریکہ کے ساتھ ایک بہتر سفارت کاری کے پلیٹ فارم پر گفتگو کرے تو عافیہ کی رہائی کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔کلائیو کا کہ ہم نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے تبادلے میں عافیہ کو واپس لینے کا مشورہ دیا ہے اگر حکومت اس پر راضی نہیں ہے۔ کلائیو اسمتھ اس بار مکمل ارادہ رکھتے ہیں کہ وہ 2024 ء کے اختتام پر عافیہ کو رہائی دلوا سکیں گے کہ وہ وطن واپس آجائے۔حیرت ہے کہ 20 برسوں سے ایک برطانوی غیر مسلم وکیل ایک مسلمان مظلوم خاتون کی رہائی کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، اس جدوجہد میں ان کے استقامت اور ان کا عزم ہے وہ اس کیس کی گھمبیر پیچیدگیوں کو سلجھانے کے لیے تحقیق اور تفتیش میں مصروف رہتے ہیں۔میرا تو دل کہتا ہے کہ لائیو سمتھ جو ایک مسلمان مظلوم خاتون کی رہائی کے لیے جو کوششیں کر رہے ہیں ،رب کریم اس کو اجر ضرور دیں گے ۔کلائیو اسمتھ نا قابل تردید شواہد لے کر آئے ہیں، حکومت پاکستان کو چاہیے کہ اس معاملے کو سفارتی سطح پر ٹیک اپ کرے اور عافیہ صدیقی کی رہائی کو ممکن بنائے۔کلائیو اسمتھ ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ مظلوم عافیہ کی رہائی کے لیے جان توڑ کوشش کر رہے ہیں، دعا ہے۔ پاکستان میں اہل اختیار کے دل پسیجیں اور ضمیر جاگیں ۔عافیہ کی بے گناہی کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں اب پوری قوت کے ساتھ ایک سفارتی کوشش کی جائے تو عافیہ کے لیے عافیت کی کوئی یقینی صورت نکل سکتی ہے۔