ہمارے مسائل ہیں کہ حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔کیا ہم پر کسی آسیب کا سایہ ہے کہ ہر طرح کے وسائل ہونے کے باوجود ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے مسائل میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔پاکستان کا عام آدمی مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے اور پاکستان کے حکمرانوں کو اقتدار کی لڑائی سے ہی فرصت نہیں مل رہی کہ وہ عام پاکستانی کے مسائل کے بارے میں غورو غوض کر سکیں۔آج پہلی دفعہ وزیر اعظم کا بیان نظر سے گزرا ہے کہ ملک میں ہنگامی زرعی اصلاحات کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ واقعی اس فیصلے پر عمل کیا جائے گا یا عملدرآمد میں سامنے آنے والی رکاوٹوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے جائیں گے ایک زرخیز زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم کیوں اپنی خوراک کے معاملے میں خود کفیل نہیںہیں۔ہم کیوں پلان نہیں کر سکتے کہ ہمیں کتنے رقبے میں کون سی فصل اگانی ہے کسی سال ہم چینی کی قلت کا شکار ہوتے ہیں اور چینی درآمد کر نے کے لئے در در بھٹک رہے ہوتے ہیں۔آج کل چینی بنانے والے چینی برآمد کرنے کے لئے بیتاب ہیں اور اخبارات میں اشتہار دے دے کر حکومت کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انہیں چینی برآمد کرنے کی اجازت دی جائے کیونکہ ان کے پاس چینی کے فاضل ذخائر موجود ہیں اور وہ ملک کے لئے آئی ایم ایف کے قرضے سے کہیں زیادہ زرمبادلہ کما سکتے ہیں تاہم حکومت کے کان پر جوں رینگتی نظر نہیں آتی۔جواب میں ہاں یا ناں‘ کوئی آواز بھی سنائی نہیں دیتی ماضی میں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے پہلے ارزاں نرخوں پر چینی برآمد کر دی گئی اور اس کے چند ماہ بعد اس سے زیادہ نرخوں پر درآمد کرنے کی ضرورت پڑ گئی۔ چینی برآمد کرنے کے لئے حکومت اکثر اوقات اپنی جیب سے Sabsidyبھی دیتی ہے تاکہ ہمارے صنعت کار نقصان سے بچ سکیں ۔۔شریف خاندان کی ایک مل تو ایسے علاقے میں لگائی گئی جو چینی کے کارخانے کے لئے ممنوعہ تھا اور لاہور ہائی کورٹ نے ایک جرأت مندانہ فیصلے میں انہیں حکم دیا کہ وہ اس مل کو ممنوعہ علاقے سے شفٹ کریں اس کے برعکس پاکستان کی واحد کپاس کی فصل جو پاکستان کو زرمبادلہ کماتے ہیں مدد دیتی ہے دن بدن سکڑتی جا رہی ہے۔اب ہم اس نوبت پر پہنچ گئے ہیں کہ ہم اپنی ضرورت کی تقریباً نصف کپاس خود پیدا کرتے ہیں اور باقی دوسرے ملکوں سے درآمد کرتے ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان کی کاٹن انڈسٹری نے پچھلے دو تین سال میں خوب برآمدات کیں اور پاکستان کے لئے زرمبادلہ کمایا۔اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ لاکھوں مزدوروں کو روزگار ملا اور فیصل آباد جیسے علاقوں میں مزدوروں کی کمی واقع ہو گئی۔ ڈھونڈنے سے مزدور نہیں ملتا تھا۔پاکستان جیسے زرعی ملک کو پیاز‘ لہسن‘ لیموں‘ ٹماٹر اور آلو بھی درآمد کرنا پڑتا ہے۔ اگر فصل زیادہ ہو جائے تو ریٹ ایک دم گر جاتا ہے اور کم ہو تو وہ سبزی نایاب ہو جاتی ہے یعنی ہمارے پاس اپنی اجناس کو ذخیرہ کرنے کے لئے کوئی معقول بندوبست نہیں ہے ہماری فی ایکڑ پیداوار بڑھنے کی بجائے کم ہو رہی ہے اور ہمارے زرعی سائنسدان ہاتھ پہ ہاتھ دھڑے بیٹھے ہیں۔جعلی کھاد اور جعلی زرعی ادویات کا بھی کم فی ایکڑ پیداوار میں ایک بڑا حصہ ہے۔اس جعلی کھاد اور جعلی دوائیوں کی فیکٹریاں ایسے لوگوں کی ملکیت ہیں کہ پاکستان کا قانون ان کے سامنے بے بس ہے۔پچھلے ایک سال میں کھاد کی قیمت میں تین گنا بڑھ چکی ہے اور عام کسان کے لئے کھاد نایاب ہو گئی ہے اسی طرح بجلی کی قیمت کئی گنا بڑھ گئی ہے اور ٹیوب ویل چلانا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔بجلی کے بل میں ٹیکس اس قدر زیادہ ہے لوگ دوبارہ پیٹر پمپ کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔حالانکہ ڈیزل کی قیمت بھی ناقابل برداشت ہے لیکن اس میں کم از کم بجلی کی طرح ظالمانہ ٹیکس لاگو نہیں ہے پچھلے دو تین سال میں کسان کسی حد تک خوشحال ہوا تھا لیکن اس وقت کسان کی حالت بہت کمزور ہے۔خدا کرے کہ وزیر اعظم اپنے زرعی اصلاحات کے فیصلے پر ثابت قدم رہیں اور پاکستان کی زراعت میں واقعی اصلاحات کی جائیں۔ہماری خوشحالی کا دارو مدار زرعی معیشت میں ہی ہے۔ہماری زراعت میں ترقی ہی ہمیں انڈسٹری کے راستے پر بھی ڈال سکتی ہے۔اگر ہماری کاٹن انڈسٹری کو اپنی ضرورت کے مطابق کپاس مناسب داموں مقامی طور پر مل سکے گی تو وہ بین الاقوامی منڈی میں دوسرے ممالک کا مقابلہ کر سکیں گے۔ تمام ممالک نہ صرف ثقافت اور معیشت میں بلکہ سیاسی نظام میں بھی بہت زیادہ تنوع پیش کرتے ہیں۔ کچھ ممالک مکمل طور پر جمہوری ہیں - آئرلینڈ اور سوئٹزرلینڈ کوسیاسی ،معاشی اور بسا اوقات ثقافتی مسائل کے لیے ریفرنڈم، یا بڑے پیمانے پر آبادی کے ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بہت سے لوگ اپنی مقننہ کو ہتھوڑا دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے باوجود دوسرے ممالک، جیسے سعودی عرب یا شمالی کوریا خاص طور پر مسائل کے حل کے لئے زیادہ مستند سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم اس بااختیاریت یا دوسری ریاستوں کی جمہوریت کے دائرے میں بھی، ماحولیات، معیشت، آبادی ، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کے سوالات سے نمٹنے کے طریقوں میں بڑے پیمانے پر فرق موجود ہے۔پاکستان میں مسائل کے حل کے لئے کونسا نظام رائج ہے ؟ ہمارے بجلی بنانے کے کارخانے بھی ہماری بدقسمتی کی ایک بہت بڑی علامت ہیں۔خود دشمنی میں ہم نے ایسے معاہدے کئے ہیں کہ ان کارخانوں میں درآمد شدہ تیل اور درآمد شدہ کوئلہ استعمال ہوتا ہے۔ چاہے ہم ان سے بجلی خریدیں یا نہ خریدیں ہمیں ان کارخانوں کو ان کی استعداد کار کے مطابق ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ایندھن دینے کی ذمہ داری بھی حکومت کی ہے۔کارخانوں کی ذمہ داری صرف رقم اکٹھی کرنا ہے اور ظاہر ہے اس رقم میں وہ بھی حصے دار ہیں جنہوں نے اتنی شاندار پلاننگ کی ہے اور قوم کے ہاتھ پائوں باندھ دیے ہیں۔اس مالی سال میں ہم نے تیس چالیس ارب ڈالر کے قرضے واپس کرنے ہیں۔آئی ایم ایف سے صرف ایک ارب ستر کروڑ ڈالر ملیں گے۔چند ارب کا قرضہ دوست ممالک اور دوسرے اداروں سے ملے گا۔چند ماہ کے بعد ہم دوبارہ غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہوں گے ایسا خرچ کم کرنے کے لئے نہ عوام تیار ہیں اور نہ حکومت اس لئے واحد حل یہ ہے کہ ٹیکس بڑھاتے جائیں اور عوام کا خون چوستے رہیں۔ جب مزید قرضہ لیں گے تو سود مزید بڑھ جائے گا اور پوری قوم اس شیطانی چکر میں غریب سے غریب تر ہوتی چلی جائے گی اور حکمران امیر سے امیر تر۔ہر قرضے میں سے حکمران اپنا حصہ وصول کریں گے۔ ٭٭٭٭٭