پھول خوشبو کے نشے ہی میں بکھر جاتے ہیں لوگ پہچان بناتے ہوئے مر جاتے ہیں جن کی آنکھوں میں ہوں آنسو انہیں زندہ سمجھو پانی مرتا ہے تو دریا بھی اتر جاتے ہیں دنیا کا چلن کچھ ایسا ہی ہے۔قدم قدم پر مشاہدہ ہوتا ہے اور تجربہ بھی، مگر انسان مچھلی کی طرح پتھر چاٹ کر ہی واپس آتا ہے ویسے بھی منزلیں ان کا مقدر کہ طلب ہو جن کو، بے طلب لوگ تو منزل سے گزر جاتے ہیں۔ پیرزادہ قاسم نے کہا تھا میں ایسے شخص کو زندوں میں کیوں شمار کروں جو سوچتا بھی نہیں خواب دیکھتا بھی نہیں۔کہتے ہیں خواب تو پھر وہ ہے جو آپ کو سونے نہ دے آپ اپنی سعی سے اس خواب کو تعبیر سے آشنا کر دیں۔ آج کا نوجوان تزبذب کا شکار ہے اسے آنکھ کھولتے ہی منافقت کا سامنا کرنا پڑا جب منزل کی سمت نمائی نہ ہو تو پھر مس گائیڈڈ میزائل کی طرح نوجوان خطرناک ہو سکتا ہے ہم اپنی سمجھ کے مطابق اسے سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میرے بیٹے کی طرح اکثر لوگوں کے بچے ان سے سوال ضرور کرتے ہیں کہ ابو یہ نواز شریف باہر کیوں بیٹھے ہوئے ہیں وہ باہر بیٹھے اپنی پارٹی کے لوگوں کو ریموٹ کنٹرول سے ہدایات کیوں دیتے ہیں وہ اپنی ہی حکومت میں اپنے وطن واپس کیوں نہیں آتے مریم بھی وہیں کی ہو کر رہ گئی کچے ذھن بڑی پکی باتیں کرنے لگے ہیں ہم انہیں کیا جواب دیں کہ وہ یہ بھی پوچھنے لگتے ہیں کہ یہ لوگ اکثر عیدیں بھی برطانیہ میں کرتے ہیں کاروبار بھی باہر علاج بھی باہر اور آخر یہاں صرف کمانے آتے ہیں ی۔یہ بڑی گہری بات ہے کہ باہر کا کاروبار بھی ان کے یہاں کے اقتدار پر مدار کرتا ہے۔ ہم لاکھ انہیں سمجھانے کی کوشش کریں کہ عدالتیں تو ہیں اور اکثر ججز بھی انہی کے نوازے ہوئے ہیں وہ یہ بات بھی کرتے ہیں کہ لیڈر تو ہمیشہ قانون اور آئین کی جنگ لڑتا ہے یہ لیڈر نہیں سرمایہ دار ہیں اور ڈرائنگ روم کے لوگ ہیں ان کی زندگی میں وہ بانکپن نہیں مجھے یہاں مولانا مودودی یاد آ گئے کہ جب ان کے جلسہ پر حملہ ہوا تو جانثار اردگرد آ کر کہنے لگے مولانا آپ نیچے بیٹھ جائیں۔ وہ کہنے لئے میں بیٹھ گیا تو کھڑا کون رہے گا۔موت کو سامنے دیکھ کر بھی مولانااور عبدالستار خاں نے معافی نہیں مانگی یعنی اپیل نہیں کی حتی کہ بھٹو کا معاملہ بھی سامنے کا ہے وہ نہیں جھکا ۔ طفیلی لوگ پاکستان کے وسائل کھا گئے اور مسائل در مسائل پیدا کرکے گئے ۔یہ جونکیں ہیں جو چمٹی ہوئی ہیں یہ فاسد خون کی بجائے سارا خون ہی پی گئی ہیں یہ خود یعنی تعلّم خود ہی نہیں لوٹتے بلکہ پوری پتی اوپر بھی بھجواتے ہیں۔ان کے ساتھ وہ صحافی اور دانشور بھی ہیں جو اس وقت چیخ اٹھے تھے جب عمران خاں کے دور میں ان کی منتھلیاں بند ہوئیں۔ ایک نے تو صاف کہہ دیا کہ ہماری کن پٹی پر ریوالور رکھ کر کسی کی امیج میکنگ کروائی گئی۔میرا خیال ہے کہ اب امیج دوبارہ خراب کرنے کے بھی وہ پیسے پکڑے ہوئے ہیں ۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں یہاں کسی کو چلنے ہی نہیں دیا جاتا اب سب کچھ واضح ہے کہ الیکشن وقت کی ضرورت ہے لیکن یہ بعداز خرابی بسیار ہو گا محسوس بھی ہوتا ہے کہ انتخابات اگلے چار پانچ ماہ تو نہیں ہونے والے اگرچہ آئین کی روح سے تو 90دن میں پنجاب اور کے پی کے میں ضمنی الیکشن ہونے چاہئیں لیکن آئین کو تو وہی سمجھتا ہے جو اس پر یقین رکھتا ہے کہ آئین تو طاقتورکی آنکھ دکھاتا ہے تبھی تو کسی نے مشہور کر دیا کہ قانون اندھا ہوتا ہے حالانکہ یہ تو محاورہ ہے کہ قانون سب کے لئے یکساں ہوتا ہے مگر جائیں تو کہاں جائیں کچھ کے قوانین اپنے ہوتے ہیں وہی جو جارج آرویل نے کہا وہ سب جانور برابر ہوتے ہیں اور کچھ زیادہ ہی برابر ہوتے ہیں آپ اپنی زبان میں کہہ لیں کہ بھینسیں بھینسوں کی بہنیں ہوتی ہیں بیورو کریسی کا بھی یہی ڈسپلن ہے۔اپنی اپنی ذمہ داریوں سے سب ماورا ہیں یہ کسی اہم سرکاری آدمی نے کہا تھا کہ اگر وہ پیسے پکڑ لے تو پوری دیانتداری سے کام کروا دیتا ہے بات پھر وہیں آتی ہے آج کا نوجوان غصے سے گھرا بیٹھا ہے مکمل بے روزگاری کسی بھی ادارے میں کوئی بھی کام بغیر رشوت اور سفارش کے نہیں ہوتا بلکہ سفارشیں بھی بکتی ہیں ہائے ہائے: حل نکالا ہے یہ اداسی کا اب مکمل اداس رہتا ہوں صدر عارف علوی نے اچھی بات کی ہے کہ سب سٹیک ہولڈر بیٹھ کر انتخابات پر بات کریں لیکن نظر آ رہا ہے کہ پی ڈی ایم انتخاب کو موخر کرنے کے موڈ میں ہے کہ ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں۔وہ کس منہ سے اپنے ووٹرز کے پاس جائیں گے جوں جوں وقت گزر رہا ہے ان کے لئے مشکل ہوتا جا رہا ہے اور قومی نقصان بھی ہو رہا ہے مہنگائی اور بے چینی تو عمران کو لے ڈوبی تھی آنے والوں نے آ کر ساتھ عوام کو بھی ڈبو دیا عوام تو سمجھے تھے کہ یہ ان کا ہاتھ تھامنے آئے ہیں۔کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف ایک ماہ میں اور مریم اسی ہفتہ آ رہی ہیں مگر دل نہیں مانتا ویسے ان کا آنا لازم بھی اس لئے ہے کہ اب حد ہو چکی ہے ن لیگ کا ووٹر بری طرح بے دل ہوا ہے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی مل کر الیکشن لڑیں گے موجودہ صورتحال میں یہ پھر بھی ہار جائیں گے پیپلز پارٹی پنجاب میں نہ ہونے کے برابر ہے اور وہ سندھ حکومت کو ہاتھ سے نہیں جانے دے گی آپ حکومتی خوف کا اندازہ اس سے ہی لگا سکتے ہیں کہ قومی اسمبلی آنے کا ڈروا دے کر عمران نے ان کی نیندیں اڑا دیں اور اسی خوف میں پی ٹی آئی کے 35استعفے منظور کر لئے گئے کس کو معلوم نہیں کہ اب تک جناب سپیکر قانونی اور آئینی باتیں کر رہے تھے۔