قدامت پرستی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ پرانے تناظرات میں اخلاقیات کے جو مفاہیم اور ان سے جو منطقی نتائج اخذ کیے جاتے ہیں وہ نہ صرف جدید ماحول پر قابلِ اطلاق نہیں رہتے ہیں بلکہ غیر متعلقہ ہونے کے باعث نقصان دہ بھی ہوتے ہیں۔ انسانی ویلیوز جنہیں ہم اقدار کہتے ہیں بذات خود تغیر پزیر تصورات ہیں دیانتداری، سچائی، آزادی، حب الوطنی، سے وابستہ قدیم تصورات کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ٹولز نے یکسر بدل کے رکھ دیا ہے یہی وجہ ہے کہ قدامت پرست ریاستی ادارے، مذہبی اور سیاسی جماعتیں تحریک انصاف کی اخلاقی اقدار کی تشریح و توضیح پر شدید معترض ہیں۔ ہمارے ماہرین بشریات کو یقیناً اس حقیقت کا ادراک ہو گا کہ سماجی اور اخلاقی اقدار میں کوئی ابدیت نہیں پائی جاتی ہے جو یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایمان داری، سچائی، رحم دلی، ایثار و قربانی بلا لحاظ زمان و مکان آفاقی سچائیاں ہیں، اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ سب باطنی جذبے ہیں جن کی قیمت خارجی قدروں سے متعین ہوتی ہے مثلاً بچپن میں ہم جن جانداروں سے ڈر رہے ہوتے ہیں بڑے ہو کر جب ہم با شعور ہوتے ہیں تو ہمارا ڈر ختم ہو جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے عمران خان نے نوجوان نسل کی اسطرح ذہن سازی کی ہے کہ ان کے دل ودماغ سے حکمرانوں کی جاہ وحشمت کا خوف دور کر دیا ہے۔ ایسا کرنے سے ملک میں انارکی پھیلی ہے اور نوجوانوں کی بڑی تعداد بدتمیز اور متشدد ہو گئی ۔یہ ایک الگ موضوع ہے مگر عمران خان نے اپنے زور آور بیانیے اور شعلہ فشانی سے آزادی، حب الوطنی عزت و احترام کے قدیم تصورات کو مخصوص زاویہ نگاہ سے یکسربدل کے رکھ دیا ہے کیونکہ اخلاقیات ایک ایسی موضوعی وصف ہے جو سماجی ارتقاکے ساتھ ساتھ بدل پذیر رہتا ہے۔ قدیم ادوار میں وہ قبائلی سوسائٹی جہاں انتظامی اورقانونی اداروں کا وجود نہیں ہوتا تھا وہاں انسانوں کے درمیان لڑائی جھگڑوں کے فیصلے جبلتوں کی مدد سے کئے جاتے تھے مگر اب جبکہ سوسائٹی خود آگہی اور خود شعوری کے دور میں آ گئی ہے اور سا ئنس اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے معلومات کا ایک نیا جہاں وجود میں آ چکا ہے تو قدروں کے تضادات سے نئی قدروں کی تخلیق کے راستے کھل گئے ہیں مگر اس کی ایک معاشرتی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے کیونکہ معاشرے کے مختلف طبقات، سیاسی اور مذہبی گروہ اپنی اپنی اقدار کو ابدی خیال کرتے ہوئے جمود پزیر نظریات اور عقائد قائم کرکے ایک دوسرے سے متصادم ہو جاتے ہیں ایک انسانی گروہ بے باکانہ خیالات کے اظہار کو آزادی رائے کا حق خیال کرتا ہے جبکہ دوسرے نظریات کے اسیر افراد قومی مفاد کی خاطر انکی بیخ کنی کرنا درست سمجھتے ہیں۔ اقدار، نظریات اور مفادات کے ٹکراؤ میں کسے دیانتداری کا سرٹیفکیٹ دیا جائے اور کسے معتوب قرار دیا جائے اسکا تصفیہ کرنا ناممکن ہے۔ یہی کچھ آج پاکستان کی سیاست کے میدانوں میں ہو رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے دھڑوں میں اپنی اپنی اخلاقی اقدار کو مفادات کے حصول کیلئے پروموٹ کیا جا رہا ہے۔ سو ایسے حالات میں فیصلہ تاریخ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو سچائی کو منضئہ شہود پر لا کر نئی جہتیں دریافت کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور قدرت فیصلہ ہمیشہ ان اقدار کے حق میں دیتی ہے جن میں زندگی اور معاشرے کو تقویت بخشنے کی قوت ہوتی ہے۔ آج چیٹ جی پی ٹی، ٹویٹر، وٹس ایپ ،اور سوشل میڈیا کے دوسرے ٹولز نے سیاسی، معاشرتی، معاشی، مذہبی اور اخلاقی اقدار کے تمام پرانے تصورات کو یکسر بدل کے رکھ دیا ہے۔ آنے والے وقتوں میں جب مصنوعی ذہانت سے مالا مال روبوٹس انسانوں کی عقل پر غالب ہو جائیں گے تو جدید ٹیکنالوجی کے دور میں اخلاقیات کے معیار کس طرح کی صورت گری اختیار کر یں گے اس کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوان کے پاس سوشل میڈیا کی رسائی سے گلوبل ورلڈ کے متعلق تمام تر معلومات ہیں اور وہ ترقی یافتہ ممالک کی اقدار کو اپنے ملک کی سیاست، اور حکومتی اداروں کے اندر تلاش کر تا ہے مگر جب وہ خاندانی سیاسی پارٹیوں کی نسل در نسل حکمرانی اور خوشحالی کو دیکھتا ہے تو وہ تب کبھی بیگانی کا شکار ہو کر ہاتھ میں پتھر اٹھاتا ہے تو کبھی بندوق اور عمران خان کا یہ کہنا کہ کیا پاکستانی قوم شریفوں اور زرداریوں کی غلام ہے جلتی پر تیل ڈال دیتا ہے لہٰذا ہمارے حکمران طبقے کو یہ سمجھنا ہو گا کہ معاشرتی بقاکے فروغ کے لئے پرانی اورفرسودہ اقدار کو ترک کر نا ہو گا جدید دور میں قبائلی سوچ اور فکر سے سیاست اور حکمرانی کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ اب روایت پرستی، شخصیت پرستی، اور تقلید پرستی سے ہٹ کر زندگی کے ہر شعبے میں اخلاقیات کی نئی جہتیں متعارف ہو رہی ہیں۔ لہذا ہمیں ہر طرح کے حالات میں دوسروں کے اختلاف رائے کے حق کو بھی تسلیم کرنا ہوگا والٹیر کا کہنا ہے "میں تمہارے نظریات سے اتفاق نہیں کرتا ہوں مگر اختلاف رائے کے تمہارے اس حق کے لئے میں مرتے دم تک لڑوں گا" ایسا ہو گا تو پاکستان کی سوسائٹی میں ایسے آدرش یا قدریں قبولیت عامہ حاصل کریں گی جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے لائف سپورٹ سسٹم میں اپنی افادیت برقرار رکھ پائیں گی اور معاشرتی ارتقاکے عمل میں نئے اخلاقی اور سماجی پیکیج بھی قبولیت عامہ حاصل کرتے جائیں گے تبھی مختلف النوع طبقات کی اقدار اور نظریات کا تصادم ختم ہو گا وگرنہ کسی صورت میں بھی ہم ایک معاشرتی اکائی نہیں بن پائیں گے۔ ٭٭٭٭٭