حالیہ ضمنی انتخابات میں شکست نے نواز شریف کو اتنا پریشان کیاہے کہ جتنا شاید 17 جولائی کے انتخابات میںبھی نہ کیا ہو گا۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں اور ان میں سے ایک یہ بھی کہ اِن انتخابات میں پیپلز پارٹی دو سیٹیں جیتنے کے بعد جشن منا رہی ہے اسی سلسلے میں کراچی اور ملتان میں تقریبات منعقد کی جارہی ہیں مگر ن لیگ بدترین شکست سے دوچار ہوکرمخالفین کے طعنے سہنے پر مجبور ہے ۔ شاید نواز شریف کے ذہن میں یہی ہو گا کہ اگر پیپلز پارٹی جیت سکتی ہے تو ن لیگ کیوں نہیں۔ جیسا کہ ہمیشہ ہوتا ہے کہ شکست سے سبق سیکھتے ہوئے ہرجنگجو اور مضبوط اعصاب کا مالک شخص محض آزردہ ہونے کی بجائے ہنگامی بنیادوں پہ قدم اٹھاتے ہوئے انقلابی تبدیلیاں لانے کی کوشش کرتا ہے۔ ویسا ہی کچھ نواز شریف بھی سوچ اور کر رہے ہیں ۔پہلے تو انہوں نے شکست کی وجوہات جاننے کے لیے رپورٹ طلب کی۔ انہیں طرح طرح کے دلائل دیے گئے، مشکل فیصلے اور بجلی کے بلوں میں اضافے کو وجہ بتایا گیا، عمران خان کے بیانیے کو جواز بنایا گیا۔یہ بھی کہا گیا کہ مریم بی بی کے پاکستان میں نہ ہونے کی وجہ سے بھی مہم نہ چلائی جا سکی، حمزہ شہباز کے میدان میں نہ اترنے کو شکست کا جواز بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگر خبر یہ ہے کہ نواز شریف نے ساری تاویلیں مسترد کر دیں اور پارٹی کے لیے بڑے فیصلے کر لیے۔ خبریں یہ ہیں کہ نواز شریف نے حکومتی اور پارٹی عہدے الگ الگ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس سلسلے میں منصوبہ یہ بنایا گیا ہے کہ جب تک نواز شریف واپس نہیں آتے پارٹی میں ایک عبوری سیٹ اپ بنایا جائے گا۔عبوری سیٹ میں ان شخصیات کو عہدے دیے جائیں گے جن کے پاس حکومتی ذمہ داریاں نہیں ہیں ۔ عبوری سیٹ اپ کا سربراہ کیا پارٹی کا صدر بھی ہو گایا نہیں یہ فیصلہ تو ابھی نہیں ہوا ، لیکن جسے بھی عبوری سیٹ اپ کی سربراہی دی جائے گی اس پورا بااختیار بنایا جائے گا۔ وہ پارٹی معاملات اور اہم امور پر فیصلہ سازی کا اختیار رکھتا ہو گا۔خبریں یہ بھی ہیں کہ عبوری سیٹ اپ میں مریم نواز کو کلیدی کردار دیا جائے گا۔یہ عبوری سیٹ اپ نواز شریف کی وطن واپسی تک مکمل طور پر فعال کردار ادا کرے گا۔ خبریں یہ بھی سامنے آئی ہیں کہ اس عبوری سیٹ اپ میں متحرک، فعال اور سخت موقف رکھنے والے رہنمائوں کو شامل کیا جائے گا۔ نواز شریف کے ذرائع سے آنے والی اس خبر پر باریک بینی سے غور کریں تو مستقبل کا ایک خاکہ ابھر کا سامنے آتا ہے۔ ایک ایسا خاکہ جس میں مریم نواز اور ان کے ہم خیال قریبی ساتھی اہم کردار میں نظر آتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مریم نواز، شاہد خاقان عباسی، پرویز رشید اور جاوید لطیف پارٹی کی باگ ڈور سنبھالیں گے۔ شہباز شریف کو وزیر اعظم کے اعزازی عہدے تک محدود کر دیا جائے گا۔ کسی بھی صوبے میں حکومت نہ ہونے کے باعث وہ پہلے ہی نہایت محدود اختیارات کے مالک ہیں ،مصروف مگر بہت ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بہت مصروف ہونے کے باعث وہ پارٹی کو وقت نہیں دے پا رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں پارٹی کے اہم امور سے بے دخل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ تھوڑا سا غور کریں تو نظر آئے گا کہ مریم نواز نے لندن جانے کے بعد کئی معاملات پر نواز شریف کو قائل کر لیا ہے۔ گمان یہ ہے کہ نواز شریف یوں تو شاید کبھی اپنا اختیار چھوڑ کر اپنے بھائی اور ان کے صاحبزادے کو اس قدر اہم عہدے پر لانا ہی نہیں چاہتے تھے مگر حالات کچھ اس قسم کے ہو گئے تھے کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا تھا۔ مگر جلد ہی وہ دونوں کی کارکردگی سے مایوس ہو گئے۔حمزہ شہباز کی پنجاب میں کارکردگی سے تو وہ اپنی ناراضی کا اظہار پہلے ہی کر چکے ہیں جب انہوں نے سترہ جولائی کے بعد حمزہ کولندن طلب کیا تھا۔ اپنی وضاحت میں حمزہ شہباز اپنے تایا اور پارٹی قائد نواز شریف کو مطمئن نہ کر پائے تھے۔ اب حالات تیزی سے بدل رہے ہیں ۔ مریم نواز الیکشن لڑنے کے اہل ہو چکی ہیں ۔ نواز شریف واپس آنے کے لیے پر تول رہے ہیں ۔ اسحاق ڈار پہلے ہی نواز شریف کے نمائندے بن کر اختیارات سنبھال چکے ہیں۔صاف نظر آتا ہے آنے والے الیکشن میں نواز شریف اگر وزیر اعظم کے امیدوار ہوں گے تو مریم نواز وزیر اعلی پنجاب کی امیدوار۔ نواز شریف کسی وجہ سے اگر الیکشن لڑنے کے اہل نہ ہو سکے تو مریم نواز وزارت عظمٰی کی امیدوار ہوں گی۔ ایسے میں اہم سوال یہ ہے کہ کیا شہباز شریف نیچے جا کر پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا عہدہ قبول کر لیں گے؟ ویسے کر تو لینا چاہیے ورنہ یہ بھی ہاتھ سے جائے گا۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ حالیہ ضمنی انتخابات میں ناکامی کا بہانہ بنا کر شہباز شریف کو آئوٹ اور مریم نواز کو اِن کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے ۔مریم نواز کو کامیاب کرنے کے لیے انہیں چند انکلز کے معاونت بھی فراہم کی جائے گی جو ہر جگہ ان کے دائیں اور بائیں نظر آتے ہیں ۔ حمزہ شہباز مگر کیا سوچ رہے ہوں گے۔ شہباز شریف حمزہ کے بارے میں کیا سوچ رہے ہوں گے۔ کیا ان کے ذہن میں باغیانہ خیالات پیدا ہونے کا امکان تو نہیں ہے۔ کہیں وہ یہ تو نہیں سوچ رہے کہ کیسے انہیں اور ان کے والد کو ناکام کر کے ان کے تایا کا خاندان دوبارہ ٹیک اوور کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ایسے میں ان کی سیاسی حکمت عملی کیا ہو گی یہ سب سوالات اہم ہیں مگر ان کا جواب کسی کے پاس موجود نہیں ۔شاید ان باتوں کا فیصلہ مستقبل ہی کرے گا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ شریف برادران کو تقسیم کرنے کا خواب جس کسی نے بھی دیکھا اسے مایوسی ہی ہوئی۔ مگر کیا اعتماد اور تعلق کا یہی رشتہ آئندہ نسل میں منتقل ہونے کا بھی اتنا ہی امکان ہے؟یہ سوال اہم ہے اور اس کا جواب پورے اعتماد کے ساتھ’’ ہاں ‘‘میں نہیں دیا جا سکتا۔