خالق کائنات نے انسان کا خمیر خیرو شر کی مٹی سے اٹھایا ہے۔ نیکی کی طرف مائل ہو تو اطاعت و پرہیز گاری میں فرشتوں کو مات دے۔ بنی آدم بدی او رگمراہی کی اندھیروں میں بھٹکنا شروع کردیے تو شیطان بھی اس سے پناہ ما نگتا ہے۔ اسی وصف کی وجہ سے رب ذوالجلال نے انسان کوجہاں قرآن کریم کی سورہ التین میں’ لقد خلقناالانسان فی احسن تقویم ‘ کہہ کر اسے اشرف المخلوقات کے اعلیٰ درجے پر فائز کیا وہاں اس کے شر کی طرف میلان کی وجہ سے اسفل سافلین یعنی اس کے پست سے پست درجے تک جانے کو بھی واضح کر دیا ہے۔نیکی اور بدی کے مابین جنگ ازل سے جاری ہے اور تا ابد جاری رہے گی ۔ ستیزہ کاررہا ہے ازل سے تا امروز چراغ مصطفویؐ سے شرار بو لہبی اولاد آدم میںبیک وقت نیکی اور بدی کا رجحان موجود ہوتا ہے۔ یہ انسان کے حالات اور خواہشات ہی ہوتی ہیں جو اس کو اشرف المخلوقات یا اسفل السافلین کی راہ پر ڈال دیتی ہیں۔ اطاعت و پرہیز گاری پر آئے تو خواجہ میر درد یہ دعویٰ کریں۔ تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں انسا نی قتل کو قرآن نے بڑے گناہوں میں شا مل کیا ہے اوروہ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔ لیکن جب انسان پر شیطانیت سوار ہو جائے تو وہ قتل جیسے بڑے گناہ اور جرم کا ارتکاب کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔بدی اور گمراہی کے راستے کا انتخاب کرے تو ماں بھی اپنی اولاد کو آگ میں پھینک دے ،بیٹا اپنے والد کی گردن ماردے۔انسان کی حیوانیت کسی ایک خطہ یا قوم و ملک تک محدود نہیں کس وقت کون سا انسان کب اور کیا قہر ڈھا دے کچھ پتہ نہیں۔ اسی قسم کی ایک ہولناک وحشت کا مظاہرہ گزشتہ دنوں سیالکوٹ کے نواحی علاقے چٹی شیخاں میں ہوا۔ جہاں ایاز احسن کے اپنے سسرالیوں کے ساتھ تعلقات کشیدہ تھے، نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔رشتہ دار بیچ بچائو کے لئے بڑھے اور فریقین کی نہ صرف صلح صفائی کروا دی بلکہ لڑکی کے رشتہ داروں نے ایاز احسن کے خاندان والوں کو ہر قسم کے تحفظ کی تحریری ضمانت بھی دی۔ایاز کی اس کی بیٹیوں سے فون پر بات کروائی گئی۔ معصوم بچیوں نے رو رو کر پاپا کو بلانا شروع کیا۔ چند روز بعد سالی کی شادی طے تھی۔ ایاز کی بیوی اور اس کے دو بھائی اپنے ایک عزیز کے ساتھ شادی کا دعوت نامہ دینے ایاز کے گھر گئے اور شادی میں شرکت پر اسرار کیا۔ 30 سالہ ایاز 14جولائی کو شادی پر گیا ،اس نے بھی اپنے سسرالیوں کے ساتھ مل کربارات کا استقبال کیا، رشتہ داروں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف رہا ،اگلے دن ولیمہ ہوا اور اس نے اپنی بیٹیوں کے منہ میں نوالے ڈالتے ہوئے تصاویر بنوائیں ۔ 16جولائی کو ایاز نے واپس اپنی ڈیوٹی پر آنا تھا جب گھر والوں نے رابطہ کیا تو فون بند پایا۔ اس کے اہل خانہ کو تشویش ہوئی تو انہوں نے ایاز کی بیوی کے ماموں عبداللہ کو فون کیا جو صلح کروانے والوں میں شامل تھا اور ایاز کے تحفظ کا تحریری ضامن تھا اور اس سے پوچھا کہ ایاز کا فون بند کیوں ہے ،پتہ کر کے بتائیں۔ رات 10بجے کے بعد ماموں عبداللہ نے ایاز کے بھائی کو لاہور اطلاع دی کہ ایاز کو اس کے سسرال والوں نے قتل کر دیا ہے۔عبداللہ نے خود 15پر کال کر کے پولیس کو اطلاع دی۔ ایاز کے لواحقین رات دو بجے کے لگ بھگ سیالکوٹ ایاز کے سسرال کے گھر پہنچے پولیس پہلے سے موجود تھی،ایاز کے سسرالی تالا لگا کر فرار ہو چکے تھے۔ پولیس نے گھر کے تالے توڑ کر لاش برآمد کی اور کارروائی شروع کر دی۔ ایاز کو اس کے قاتلوں نے ایسے سفاکانہ اور وحشیانہ تشدد اور انتقام کا نشانہ بنا کر قتل کیا کہ پتھر دل میں بھی اسے دیکھنے کی سکت نہ تھی۔ایاز کی لاش تشدد کی وجہ سے نیلگوں ہو چکی تھی اور اس کے جسم کا کوئی حصہ یا عضو ایسا نہ تھا جس پر تشدد نہ کیا گیا ہو۔ لاش کی حالت دیکھ کر گائوں میں کہرام مچ گیا ، ہر آنکھ اشک بار تھی ۔ ایاز کے ساتھ جو ظلم اس کے سسرال والوں نے کیا وہ تو کیا، اس سے بڑھ کر پولیس ظلم کی مرتکب یوں ہو رہی ہے کہ مظلوم کو انصاف کی فراہمی میں دانستہ یا نادانستہ تساہل برتی جا رہا ہے اور قاتلوں کی گرفتاری میں لیت و لعل سے کا م لے رہی ہے۔چنی شیخاں کے لوگ پولیس کے اس جنبدارانہ رویہ پر حیران ہیں کہ ملزمان پولیس کی ناک تلے پناہ لیے ہوئے ہیں مگر اب تک گرفتار نہیں ہو سکے۔ تفتیش کا یہ عالم ہے کہ جائے وقوعہ پر لوگوں نے اپنے اپنے گھروں میں کیمرے لگوا رکھے ہیں۔ گلی میں ہر آنے جانے والے کی فوٹیج ان کیمروں میں محفوظ ہوتی ہے مگر پولیس ابھی تک فوٹیج محفوظ نہیں کر سکی۔ گائوں میں بچے بچے کی زبان پر ہے کہ ملزمان کے تشدد سے جب ایاز ہلاک ہو گیا تو وہ ایک مقامی ڈاکٹر کو گھر لائے اور موت کی تصدیق کے بعد گھر سے فرار ہوئے۔ زبان حلق کو نقارہ خدا سمجھیں تو چہ مگوئیاں تو یہ بھی ہو رہی ہیں کہ ملزمان نے کارروائی سے پہلے ہی پولیس کو مینج کر لیا تھا۔تاثرتو یہ بھی ہے کہ ملزمان میں لڑکی کا ایک بھائی حساس ادارے میں آفیسر ہے اس لئے پولیس کارروائی سے گریزاں ہے، جتنے منہ اتنی باتیں۔ مگر ایک بات طے ہے کہ مظلومین خود بھی پولیس کے رویے سے نالان اورکارروائی سے مطمئن نہیں۔ ’’ ایک جاننے والے مہربان جوپولیس میں اعلیٰ عہدے پر فائز رہے ہیں جب ان سے پولیس کے رویے کے حوالے سے بات ہوئی اور ان سے استفسار کیا کہ پولیس کیا واقعی اس قدر بے حس ہوتی ہے؟ تو انہوں نے بے تکلفی کا فائدہ دیتے ہوئے کہا کہ پولیس میں بھی اچھے اور برے لوگ ہوتے ہیں۔ ممکن ہے برے زیادہ ہوں مگر ایک بات اپنی نوکری کے تجربہ کی بنیاد پر بتا دوں کہ برے سے برے پولیس اہلکار کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ مظلوم اگر ظالم کے مقابل میں 60فیصد بھی رشوت دے رہا ہے تو اس کے ساتھ انصاف کرے‘‘۔ جہاں تک پولیس کی تفتیش کی بات ہے تو پولیس کا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے بعض اوقات کچھ معاملات وقت سے پہلے سائلین سے بھی پوشیدہ رکھے جاتے ہیں۔ یقینا پولیس نے جائے وقوعہ کی فوٹیج اور ملزمان کا موبائل ڈیٹا حاصل کیا ہو گا۔پولیس آفیسر کی پیٹی بھائیوں کی حمایت بجا مگر سوال تو صرف اتنا ہے کہ انصاف میں تاخیر مظلوم سے ظلم کے مترادف نہیں؟ پولیس مظلوم کا درد تو نہیں بانٹ سکتی کم از کم اپنی کوششوں سے آگاہ کرکے انصاف کی امید ٹوٹنے سے تو بچا سکتی ہے۔