بین الاقوامی تعلقات کے معروف سکالر ہنس مورگینتھار نے اپنی کتاب ’’قوموں کے درمیان تعلقات: امن اور طاقت کے لئے‘‘ میں لکھا ہے کہ ریاستیں دوستی یا دشمنی جیسے جذباتی عوامل کے بجائے مفادات جیسے سلامتی اور طاقت کے حصول کے لئے متحرک رہتی ہیں۔ کسی زمانے میں یہ کہاوت مشہور تھی کہ ریاست کی بھوک کمزور ریاستوں کو نگل کر ہی مٹتی ہے اور ریاست کے پھیلائو اور وسعت کے مطابق ہی اس کے عالمی سیاست میں کردار کا تعین ہوتا تھا۔ یہی سوچ دوسرے ممالک کو فتح کرنے کا محرک بنتی تھی۔ بیسویں صدی میں امریکی ماہر نفسیات جان بی واٹسن نے کرداریت کی بنیاد رکھی اور امریکیوں کو ملک فتح کرنے کے بجائے انسانوں اور ممالک کے کردار کو کنٹرول کرنے کی راہ دکھا ئی۔ ماہرین نفسیات نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کی وجہ واٹسن کے سکول آف تھاٹ کو بھی مانتے ہیں۔ امریکی دوسری جنگ عظیم کے بعد ممالک فتح کرنے کے بجائے ان کے کردار کا تعین کر کے کنٹرول کرتے چلے آ رہے ہیں۔ امریکہ ہی کیوں پوری دنیا کی سیاست مفادات کے گرد گھوم رہی ہے، سوائے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے۔ یہ ریاستی مفادات ہی تھے کہ کسی زمانے میں پاکستان ایشیا میں امریکہ کی آنکھ کا تارا تھا۔ ریاستی مفادات ہی امریکہ کو سوویت یونین سے مقا بلے کے لئے چین کے قریب لے گئے۔ پاکستان چین اور امریکہ کے تعلقات کی مثلث بنی۔ جب تک امریکہ سوویت یونین کو تحلیل کرنے میں کامیاب ہوا اس وقت تک چین کی معیشت جڑیں پکڑ چکی تھی۔ امریکہ افغانستان کی دلدل میں پھنسا تو چین نے عالمی سیاست میں اپنا حصہ جتانا شروع کر دیا۔ عالمی تعلقات میں مفادات کی جنگ میں ریاستوں میں نئی صف بندی ایک اور سرد جنگ پر متنج ہوئی۔پاکستان چین اور امریکہ دو کشتیوں کا سوار رہا اور اب تک ہے۔ پاکستان کی اس غیر جانبداری کو امریکہ نے دو رخی سے تعبیر کیا اور اپنے مفادات کا تاج بھارت کے سر پر رکھ دیا۔ بدلتے عالمی منظر نامے میں چین نے امریکی ہتھکنڈوں کے مقابلے کے لئے پاکستان اور بھارت سے تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کی اورپاکستان اور بھارت کو شنگھائی تعاون تنظیم میں باندھ لیا۔ نئی سرد جنگ کے آغاز کے بعد چین اور روس نے ایران افغانستان اور مشرق وسطیٰ میں پائوں جمانے شروع کئے تو امریکہ نے جنوبی ایشیا میں چین کے مفادات کو چیلنج کرنا شروع کیا۔ چین نے بھی برازیل، روس، چین، انڈیا اور جنوبی افریقہ کو مشترکہ ترقی اور خوشحالی کے نام برکس تنظیم میں جوڑ دیا۔ چین نے نیپال، بھوٹان اور بنگلہ دیش سے اپنے تعلقات بڑھائے۔ امریکہ نے اس بڑھتے تعاون میں روڑے اٹکانے اور پاکستان اور چین کی بڑھتی قربت کو روکنے کے لئے پاکستان کے لئے مشرقی سرحد کے ساتھ مغربی سرحد پر چیلنجز پیدا کرنا شروع کئے۔ قومی سلامتی اور خود مختاری پر امریکی دبائو کو کم کرنے کے لئے عمران خان نے امریکی کشتی سے چھلانگ لگا کر چین اور روس سے تعلقات بڑھانا چاہے اور بھٹو کی طرح نشان عبرت بننے ۔ دوسری طرف بھارت نے صرف امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے بھارتی مفادات پر سمجھوتہ کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تو جس طرح پاکستان کوکے پی کے اور بلوچستان کو افغانستان کے نقشے میں دکھا کر بلیک میل کیا گیا ،یہی حربہ بھارت پر بھی آزمانا شروع کیا دنیا بھر میں بھارتی سکھوں کی خالصتان کے لئے تحریک تیز کر دی گئے اور ایک کے بعد ایک ملک میں خالصتان کے لئے ریفرنڈم ہونا شروع ہوئے۔ بھارت امریکی خواہش پر چین اور پاکستان سے جنگ کی حامی بھرنے کی کشمکش میں ہی تھا کہ کینیڈا میں خالصتان تحریک کے رہنما پردیپ سنگھ قتل کے بعد کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹس ٹروڈو نے اس قتل کا بھارتی سفارت کار پر الزام لگا کر اسے ملک بدردیا اور یہ انکشاف بھی کیا کہ قتل کی تحقیقات میںکینیڈا اور امریکہ کی ایجنیساں شامل ہیں۔ دوسری طرف مشرقی اور مغربی سرحدوں پر خطرات بڑھا کر اور معاشی بحران کو ہوا دے کر پاکستان کو امریکی مفادات کے مطابق چلنے پر مجبور کیا گیا ۔پاکستان کو چین کے مشترکہ ترقی کے ایجنڈے سے ہٹا کر سرکاری اثاثے فروخت کر کے ،ٹیکس بڑھا کر آمدن بڑھانے کا مشورہ دیا گیا۔ ہر ریاست عالمی طاقتوںکے مطالبات کو اپنی طاقت اور قومی یکجہتی کے بل بوتے پر ہی چیلنج کرتی ہے اس لئے پاکستان کی قومی یکجہتی اور فوج سے عوام کی غیر مشروط محبت پر چوٹ لگائی جا رہی ہے۔ اس چوٹ کے لئے مہنگائی اور بے روزگاری کو بطور ہتھیار کے استعمال کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی یکجہتی کو مشرقی اور مغربی جغرافیائی سرحدوں اور مہنگائی اور معاشی بحران کی چکی کے دو پاٹوں میں پسینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ امریکی دنیا بھر کی ریاستوں کو کنٹرول کرنے کے لئے جان واٹسن کے فلسفہ پر عمل کرتے ہوئے ریاست کو عوام اور حکمرانوں کے دماغوں کے ذریعے کنٹرول کرنے کے لئے ریاست کے جسد کے کمزور ترین حصے پر وار کررہے ہیں۔ بدقسمتی سے اس بار عالمی سیاست کا میدان جنگ جنوبی ایشیا ہے۔ جنوبی ایشیا کی جنگ میں پاکستان اور بھارت کی کلیدی حیثیت ہے اور دونوں ملکوں کی بقا بھی اسی جنگ پر منحصر ہے۔ جنوبی ایشیا میں امریکی مفادات کی جنگ کا فیصلہ امریکہ نے نہیں جنوبی ایشیا کے ممالک نے کرنا ہے کہ وہ کون سے راستے پر چلنا چاہتے ہیں۔ ایک راستہ چین کا تنازعات کو پس پشت رکھ کر مشترکہ اقتصادی ترقی اور باہمی خوشحالی کی منزل پر چلنا ہے تودوسرا راستہ خطے میں تھانیداری کے تمغے کا ہے کس نے امریکہ کا تھانیدار بن کر جنوبی ایشیا کے عوام کو امریکی خواہشات کے مطابق ہانکنا ہے یہ وہ فیصلہ ہے جو بدقسمتی سے جنوبی ایشیا بالخصوص پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں نے کرنا ہے۔ پاکستان اور بھارت بھی چین اور بھارت کی طرح باہمی تنازعات کے بجائے مشترکہ مفادات تلاش کر سکتے ہیں مشکل ہے تو صرف دونوں ممالک کا ایک دوسرے کے حوالے سے جذباتی رویہ جو بدقسمتی سے عوام کے ساتھ خواص میں بھی در آیا ہے مودی کی پاکستان دشمنی بھارت میں مسلم دشمنی میں بدل چکی ہے۔ جنوبی ایشیا کا مستقبل میں عالمی سیاست میں جو بھی کردار ہو گا اس کا انحصار کیونکہ بھارت اور پاکستان کے حکمرانوں کے رویہ پر منحصر ہو گا اس لئے اس کے ذمہ دار بھی وہی ہوں گے۔