واشنگٹن میں ’’نسل کشی ا ور بھارتی مسلمان‘‘کے موضوع پر ہونے والے بین الاقوامی سیمینار میں عالمی ماہرین نے بھارت میں آباد 20کروڑ مسلمانوں کی نسل کشی کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ بین الاقوامی تنظیم جینو سائیڈ واچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے‘ مقالہ نگار ٹینارمریز نے کہا کہ مسلم آبادی پر ظلم مسلمانوں کی معاشی حالت کو بدتر بنا رہا ہے‘ بین الاقوامی ماہر ڈاکٹر الیاس کا کہنا تھا کہ بھارت کے مسلمانوں کو ان کے آئینی حقوق دینے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں جب بین الاقوامی سطح پر بھارت کے مسلمانوں کی حالت زار پر یوں کھل کر بات کی گئی ہے۔ آسام اور نئی دہلی سمیت شہریت قانون کی امتیازی حیثیت پر مسلمانوں کے تحفظات کو انتہا پسند مودی حکومت نے اہمیت دینے سے انکار کر دیا۔ اقوام متحدہ کے کمشن برائے انسانی حقوق‘ انسانی حقوق کے یورپی کمشن اور جینو سائیڈ واچ جیسے معتبر ادارے مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ روا سلوک پر اعداد و شمار کی مدد سے آواز بلند کرتی رہی ہیں۔ آزادی کے بعد بھارتی قیادت نے اقلیتوں کا اعتماد جیتنے کیلئے وقتی مفادات کے تحت کہاکہ ہندوستان ایک سیکولر ریاست ہو گی جس میں تمام مذاہب کے لوگوں کو یکساں حقوق حاصل ہوں گے۔ اقلیتوں کو ہمیشہ انتہاء پسندوں کی طرف سے ظلم و جبر اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ ہندو بالادستی قبول کرلیں۔ایسے ہی جیسے تاریخ میں اندلس کے مسلمانوں کے ساتھ ظلم کیا گیا اور انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ تین میں سے ایک آپشن قبول کر لیں (۱) عیسائیت قبول کر لیں (۲) ہجرت کر جائیں (۳) قتلِ عام کیلئے تیار ہو جائیں-موجودہ بھارت میں بھی اقلیتیں بالخصوص مسلمان کچھ اسی طرح کی صورتحال سے دو چار اپنے حقوق سے محروم بے دست و پا زندگی گزارنے پر مجبور ہیں- بھارت میں مسلمانوں کو مذہبی آزادی کا نہ ملنا، انصاف کا نہ ملنا، بنیادی حقوق (صحت،تعلیم، رہن سہن) سے محرومی،غربت،بے روزگاری،تشدد، دہشت گردی و انتہاء پسندی جیسے مسائل کا سامنا ہے ۔معروف بھارتی مصنفہ ارون دتی رائے نیایک بار کہا تھاکہ’’بھارت میں اقلیتیں خوف کے ماحول میں رہ رہی ہیں اور تشدد پرستی کے بڑھتے ہوئے جارحانہ رویوں کو ’’عدم رواداری‘‘ کے چھوٹے سے نام سے موسوم نہیں کیا جا سکتا‘‘-امریکہ کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے کمیشن کی سالانہ رپورٹ2018ء کے مطابق’’ ہندو قوم پرست گروہوں کی نفرت انگیز مہم کی وجہ سے اقلیتوں کے حالات بگڑ گئے ہیں۔ اقلیتوں کو ہندو بالادستی قبول کرنے کیلئے مجبور کیا جانا بھی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ دسمبر 2014ء میں آگرہ میںعوامی اجتماع میں سینکڑوں مسلمان جبری طور پر ہندوبنا دئیے گئے۔بھارت میں اقلیتوں کیلئے باقاعدہ قوانین موجود ہونے کے باجود وہ اپنے حقوق سے محروم ہیں ۔ مسلمانوں کی تہذیب وثقافت ختم کرنے کیلئے ایک چال چلی ج رہی ہے ۔اردو زبان ختم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔اسی طرح اقلیتوں کے ساتھ نا انصافی اور ان کے لئے غیر مؤثر قانونی نظام کا غیر مبہم اظہار ہمیں درج ذیل سطور میں ملتا ہے۔کانگریس اوربھارتیہ جنتا پارٹی کی زیرِ قیادت حکومتوں کے تحت مذہبی اقلیتی برادریوں اور دلتوں نے امتیاز اور ظلم و ستم کا سامنا کیا ہے جس کی وجہ حد سے زیادہ توسیع یا غیر واضح قوانین،غیر مؤثر فوجداری نظامِ انصاف اور قانونی تسلسل کا فقدان ہے۔ بالخصوص 2014ء سے،نفرت انگیز جرائم،سماجی بائیکاٹ،حملوں اور جبری تبدیلی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ مودی سرکار کی تعصبانہ پالیسیوں کے باعث اس ریاست کے آزاد اور خودمختار ادارے بھی اقلیتوں کے خلاف متعصب ہو گئے ہیں- پولیس اقلیتوں کو تحفظ دینے کی بجائے انتہاء پسند ہندؤں کا ساتھ دیتی ہے،اقلیتوں پر ہونے والے ظلم و ستم کی ایف آئی آر تک درج نہیں ہوتی،عدلیہ کی آزادی بھی سلب ہو چکی ہے-عدلیہ کو جرات نہیں کہ ہندو انتہاء پسندوں کے ظلم وستم کے خلاف دائر مقدمات کا آزادی سے فیصلہ کر سکیں۔عبادت گاہیں محفوظ نہیں۔ بابری مسجد کی متنازع اراضی پر مندر کی تعمیر کیلئے بھارتی سپریم کورٹ کا غیر مساوی و غیر منصفانہ فیصلہ مذہبی تعصب کی ایک کڑی ہے جس سے بھارت میں بسنے والی سب سے بڑی اقلیت کے احساسات مجروح ہوئے ۔بھارت میں جب سے فاشسٹ نظریات کی حامی بھارتیہ جنتاپارٹی بر سرِ اقتدار آئی ہے تب سے بھارت میں عالمی انسانی قوانین کی کھلے عام دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔مودی حکومت کا مقصد صرف اور صرف ہندو نیشنلزم اور ہندو بالادستی کو فرغ دینا ہے ۔ ایسی پر تعصب پالیسیاں اپنائی جا رہیہیں کہخود ہندو بھی مودی سے نالاں نظر آتے ہیں۔ بھارت میں راہ چلتے مسلمانوں کو پکڑ کر ان سے ہندوانہ نعرے لگوانا‘ گائے ذبح کرنے کا قصور بتا کر انہیں ذبح کر ڈالنا اور گھروں کو آگ لگا دینا عام ہے۔ ابھی گزشتہ ہفتے کی بات ہے چند ہندو غنڈوں نے ایک مسلمان لڑکی کو ہندو سے شادی نہ کرنے پر زندہ جلا دیا۔ گزشتہ برس دہلی میں فسادات ہوئے ۔مسلمانوں کو ان کے گھروں میں مارا گیا‘ احمد آباد اور گجرات میں بی جے پی کے انتہا پسند جو قتل و غارت کرتے رہے خود نریندر مودی اس کا حصہ رہے۔ یہ صورت حال تبدیل ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ عالمی برادری اور بین الاقوامی اداروں کی طرف سے مسلسل ایسی رپورٹس جاری ہو رہی ہیں جن میں مسلمان آبادی کی زندگی کو لاحق خطرات کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے۔ مسلمانوں کی نسل کشی کی کارروائیاں پوری دنیا کے مسلمانوں میں اشتعال پیدا کر رہی ہیں۔ بھارت کو روکا نہ گیا تو خطہ ایک نئے مسلح تنازع کی گرفت میں آ سکتا ہے۔